اتوار، 31 مئی، 2020

نکاح خواں کا خود گواہ بننا ‏


سوال :

محترم مفتی صاحب ! کیا نکاح پڑھانے والے قاضی صاحب اسی نکاح کے شاھد بن سکتے ہیں؟
(المستفتی : شبیر انصاری، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نکاح  کے صحیح ہونے کے لئے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کا گواہ ہونا شرط ہے، نیز ان  گواہوں  کا مسلمان، عاقل، بالغ اور مجلسِ نکاح  میں موجود ہونا لازم ہوتا ہے۔

احادیثِ مبارکہ میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : وہ عورتیں زنا کرنے والی ہیں جو گواہوں کے بغیر نکاح کرلیتی ہیں۔

صورتِ مسئولہ میں نکاح پڑھانے والا اگر لڑکی یا لڑکے کی طرف سے کسی کا وکیل نہیں ہے تو وہ خود بھی گواہ بن سکتا ہے، اس لیے کہ نکاح خواں صرف معلم ہوتا ہے عاقد یا وکیل نہیں ہوتا۔


عن ابن عباسؓ، أن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم، قال: البغایا اللاتي ینکحن أنفسہن بغیر بینۃ۔ (سنن الترمذي، کتاب النکاح، باب ماجاء لانکاح إلا ببینۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/۲۱۰، دارالسلام رقم : ۱۱۰۳) 

عن عمران بن حصین، أن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم قال: لانکاح إلا بولي، وشاہدي عدل۔ (المعجم الکبیر للطبراني، دار إحیاء التراث العربي ۱۸/۱۴۲، رقم:۲۹۹) 

ولاینعقد نکاح المسلمین إلابحضور شاہدین حرین عاقلین بالغین مسلمین رجلین أو رجل، و امرأ تین۔(ہدایۃ، کتاب النکاح : ۲/۳۰۶)

والأصل عندنا أن كل من ملك قبول النكاح بولاية نفسه انعقد بحضرته. قوله: (والأصل عندنا إلخ) عبارة النهر قال الإسبيجابي: والأصل أن كل من صلح أن يكون وليا فيه بولاية نفسه صلح أن يكون شاهدا فيه، وقولنا بولاية نفسه لإخراج المكاتب فإنه، وإن ملك تزويج أمته لكن لا بولاية نفسه بل بما استفاده من المولى. اهـ. وهذا يقتضي عدم انعقاده بالمحجور عليه ولم أره ۔ (الدر المختار مع رد المحتار : ٣/٢٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 شوال المکرم 1441

قضا روزے میں نفل کی نیت کرنا


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کیا قضاء روزوں میں شوال ، یوم عاشوراء یا عرفہ  کے نفل روزے کی نیت کی جاسکتی ہے؟
(المستفتی : فیضان احمد، مالیگاؤں)
--------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فرض کی قضا کا روزہ اپنی ایک الگ اور مستقل حیثیت رکھتا ہے، اسی طرح نفل روزہ بھی الگ ہے۔ چنانچہ روزے میں جس کی نیت کی جائے گی وہی ادا ہوگا، یعنی نفل کی نیت کرنے سے وہ نفلی روزہ ہوگا اور قضا کی نیت کرنے سے وہ روزہ قضا میں شمار ہوگا۔ ایک روزے میں دونوں کی نیت کرنا معتبر نہیں ہے۔ اگر کسی نے ایک روزے میں نفل اور قضا دونوں کی نیت کرلی تو وہ قضا روزے میں شمار کیا جائے گا، نفل روزہ ادا نہیں ہوگا۔

صورتِ مسئولہ میں اگر قضا روزوں میں شوال یا یوم عاشوراء نفل کے روزوں کی نیت کرلی گئی تو صرف قضا روزے ادا ہوں گے، شوال، یوم عاشوراء  یا عرفہ کے روزے ادا نہیں ہوں گے۔ لہٰذا دونوں روزے الگ الگ رکھے جائیں۔


ومتى نوى شيئين مختلفين متساويين في الوكادة والفريضة، ولا رجحان لأحدهما على الآخر بطلا، ومتى ترجح أحدهما على الآخر ثبت الراجح، كذا في محيط السرخسي. فإذا نوى عن قضاء رمضان والنذر كان عن قضاء رمضان استحساناً، وإن نوى النذر المعين والتطوع ليلاً أو نهاراً أو نوى النذر المعين، وكفارة من الليل يقع عن النذر المعين بالإجماع، كذا في السراج الوهاج. ولو نوى قضاء رمضان، وكفارة الظهار كان عن القضاء استحساناً، كذا في فتاوى قاضي خان. وإذا نوى قضاء بعض رمضان، والتطوع يقع عن رمضان في قول أبي يوسف رحمه الله تعالى، وهو رواية عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى كذا في الذخيرة۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١٩٦)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
07 شوال المکرم 1441

شوال کے چھ روزوں کے بعد عید؟ ‏


سوال :

شوال کے چھ روزہ مکمل ہونے پر جس روز روزہ مکمل ہوتا ہے اس کے دوسرے دن اچھا کپڑا پہنا جاتا ہے اور اس روز کو عید کا نام دیا جاتا ہے، اسکی حقیقت کیا ہے؟
(المستفتی : مولوی عبدالمتین، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہے، احادیثِ مبارکہ میں  اس کی  فضیلت وارد ہوئی ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر شوال کے چھ روزے  رکھے تو یہ ہمیشہ (یعنی پورے سال) کے روزے شمار ہوں گے۔

شوال کے ان چھ روزوں کے مکمل ہونے کے بعد کسی عید کا ذکر نہ تو احادیث میں ہے اور نہ ہی فقہاء نے اس کا کوئی تذکرہ کیا ہے۔ لہٰذا ان روزوں کے پورے ہونے کے دوسرے دن عید سمجھنا اور اس دن اچھے کپڑے پہننا احادیث سے ثابت نہیں ہے، یہ ایک بے بنیاد عمل ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اچھے کپڑے پہننا کبھی بھی منع نہیں ہے، لیکن اس موقع پر اسے سنت اور دین کا حصہ سمجھ کر پہننا بدعت ہی کہلائے گا اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ 


عَن أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، رضى الله عنه أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ۔ (رواہ الجماعۃ الاالبخاری والنسائی)

عن عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہٰذا ما لیس منہ فہو رد۔ (صحیح البخاري، الصلح / باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود رقم : ۲۶۹۷)

عن العرباض بن ساریۃ رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم في خطبتہ…: إیاکم ومحدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (مسند أحمد ۶؍۱۲۶، سنن أبي داؤد ۲؍۶۳۵، سنن الترمذي ۲؍۹۶، سنن ابن ماجۃ ۱؍۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 شوال المکرم 1441

ہفتہ، 30 مئی، 2020

غیرمسلم کی اَرتھی لے جانے کا حکم



سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام بیچ اس مسئلے کے کہ ابھی لاک ڈاؤن کے سبب تبلیغی جماعت کو نشانہ بنا کر مسلمانوں کو بدنام کیا جارہا ہے جسکا اثر یہ ہیکہ غیروں میں نفرت بڑھ رہی ہے ایسے وقت میں شہر کھرگون میں ایک غیر مسلم کا انتقال ہوا مگر اسکے مذہب کا کوئی شخص آگے نہیں آیا تو پندرہ سولہ مسلمانوں نے اسکی ارتھی اٹھاکر شمشان گھاٹ پہنچایا (انہیں دیکھ کر کچھ غیر مسلم بھی آگئے) مگر مسلمانوں نے یہ سوچ کر کہ اس سے اچھا میسیج جائے گا نفرت ختم ہوگی انکا یہ عمل خالص اللہ واسطے تھا۔ پھر یہ ہوا کہ واٹس ایپ پر انکی تصویریں وائرل ہوئی اخبار میں آیا دوسرے ضلعوں سے اپنے اور پرائے بھی اس کام کی سراہنا کرنے لگے، تو کیا اخلاص کے ساتھ اس کام کی شریعت اجازت دیتی ہے؟
مالیگاؤں میں کافی وقت پہلے ایسے ہی عمل پر دوبارہ کلمہ اور نکاح پڑھوایا گیا ہے۔ مالیگاؤں میں اسکول کے بچوں کا ڈرامہ ہوا جسمیں مسلم بچوں کو غیروں کی مذہبی عبادت کرتے ہوئے دکھایا گیا ختم پر انکے والدین اور عوام تالی بجا کر ان بچوں کی سراہنا کی اور تعریف کی    تو ان تعریف کرنے والوں کو بھی دوبارہ کلمہ اور نکاح پڑھوایا گیا۔
پوچھنا یہ ہیکہ
1) ایسے حالات میں جبکہ نیت بھی خالص ہو شریعت اس کام کی اجازت دیتی ہے؟
2) اگر نہیں تو ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ 
3) جنہوں نے سراہنا اور تعریف کی ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟
4) اگر بے عزتی کے ڈر یا خاندانی حالات بگڑنے کے ڈر یا بیوی نا مانے تو کیا حکم ہے؟
5) اس عمل کے کرنے والے شخص کا پوچھنا ہے کہ جو لوگ پڑوسی یا دیہات کے رہنے والے یا غیروں کے وہاں نوکری کرنے والے کچھ خود کی رضا یا مجبوری سے جاتے ہیں انکا کیا؟
6) جناب کا یہ بھی پوچھنا ہے کہ سیاسی بڑے لیڈران یا وزیر(اندرا گاندھی راجیو گاندھی) وغیرہ کی موت پر تو بہت سارے مسلم کی شرکت اور مولانا لوگوں کوقرآن کی تلاوت کرتے ہوئے ٹی وی پر بتایا گیا تھا جسے دنیا کے لوگوں نے دیکھا۔

مفتیان کرام سے درخواست ہے کہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خوب باریک بینی سے مدلل مفصل مکمل شریعت کی روشنی میں اس مسئلے پر رہنمائی فرمائیں اور اللہ کے غضب اور آخرت کی پکڑ سے بچنے کا آسان راستہ بتاکر ممنون و مشکور ہوں۔
(المستفتی : حافظ محسن، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی مسلمان برضا ورغبت اور بشاشتِ قلبی کے ساتھ غیرمسلموں کا لباس پہنے، غیروں کی مشابہت اختیار کرے، اور ان کے جیسا کام کرے تو وہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں تجديدِ ایمان وتجديدِ نکاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ اگر اس عمل کی عظمت دل میں نہ ہو اور دینِ اسلام کی پوری عظمت قلب میں موجود ہو تو اس کے کفر کا فتوی تو نہیں دیا جائے گا، لیکن یہ صورت بھی ناجائز اور حرام ہے۔

1) تعلق کی بنیاد پر نیز حکمت، مصلحت اور مجبوری کے تحت غیرمسلم میت کے گھر والوں کو دلاسہ اور تسلی دینے کے لئے اُس کے گھر جانے اسی طرح براہ راست شمشان پہنچ کر دور کھڑے رہنے کی بھی گنجائش ہے، بشرطیکہ مزید کوئی اور فعل انجام نہ دے۔ البتہ اس کی تجہیز وتکفین اور جنازہ کو کاندھا دینے، اس کے ساتھ چلنے اور اُس کے جلانے میں شرکت کرنے یا اِس سلسلہ میں اُس کا مالی تعاون کرنے کی شرعاً اِجازت نہیں ہے، اِس لئے کہ یہ چیزیں اُن کے مذہبی شعائر میں داخل ہیں، اگر کوئی مسلمان اس میں شرکت کرے تو وہ سخت گناہ گار ہوگا، جس کے لیے اس پر توبہ و استغفار ضروری ہوگا۔ لہٰذا مسئولہ صورت میں بھی ان اعمال کے کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔

یہاں ایک مسئلہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمانوں کو اگر کوئی غیرمسلم میت ملے اور اس کی آخری رسومات ادا کرنے والا کوئی غیرمسلم نہ ہو تب بھی مسلمانوں کے لیے حکم یہی ہے وہ اسے مسلمانوں کے قبرستان کے علاوہ کسی اور جگہ مسنون کفن اور نماز جنازہ کے بغیر گڑھا کھود کر دفن کردیں۔ مسلمانوں کے لیے کسی بھی میت کو جلانا جائز نہیں ہے کہ یہ انسانی عظمت اور کرامت کے خلاف ہے۔


2) جن لوگوں نے یہ عمل کرلیا ہے ان پر ندامت کے ساتھ توبہ و استغفار لازم ہے، اور آئندہ اس ناجائز فعل سے دور رہنا ضروری ہے۔

3) جن لوگوں نے اس ناجائز عمل کی سراہنا اور تعریف کی ہے وہ بھی سخت گناہ گار ہوئے ہیں، لہٰذا ان پر بھی توبہ و استغفار ضروری ہے۔

4) جب تجدیدِ ایمان ونکاح ضروری نہیں رہا تو پھر اس سوال کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔

5) جواب نمبر ایک کا بغور مطالعہ اسی میں جواب موجود ہے۔

6) جواب نمبر ایک کے تحت جن اعمال میں شرکت کو ناجائز کہا گیا ہے اس کا اطلاق یہاں بھی ہوگا، نیز کسی غیرمسلم کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ 
   

کما استفید من عبارۃ الہندیۃ یکفر بوضع قلنسوۃ المجوس علی رأسہ علی الصحیح إلا لضرورۃ دفع الحر والبرد…خدیعۃ في الحرب وطلیعۃ للمسلمین۔ (ہندیۃ، الباب التاسع، فصل في أحکام المرتدین، جدید ۲/۲۸۷) 

ولو شبہ نفسہ بالیہود والنصاریٰ أی صورۃ أو سیرۃ علی طریق المزاح والہزل أي: ولوعلی ہذا المنوال کفر۔ (شرح الفقہ الأکبر،ص : ۲۲۷، ۲۲۸، فصل في الکفر صریحا وکنایۃ، یاسر ندیم، دیوبند)

وإن كانت نيته الوجه الذي يوجب التكفير لا تنفعه فتوى المفتي، ويؤمر بالتوبة والرجوع عن ذلك وبتجديدالنكاح بينه وبين امرأته كذا في المحيط۔ (الفتاوی الہندیۃ : ۲؍۲۸۳، کتاب السیر، الباب العاشر في البغاۃ)

عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من کثر سواد قوم فہو منہم، ومن رضي عمل قوم کان شریکًا في عملہ۔ (کنز العمال / کتاب الصحبۃ من قسم الأقوال ۲؍۱۱ رقم: ۲۴۷۳۰)

ویجوز عیادۃ الذمي، کذا في التبیین۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الرابع عشر ۵؍۳۴۸)

وقال علیہ السلام : من تشبہ بقوم فہو منہم وفي البذل: قال القاري أي: من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار فہو منہم أي في الإثم أو الخیر عند اللہ تعالی (بذل المجہود: ۱۲/ ۵۹ باب في لبس الشہرة)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی
16 شوال المکرم 1441

جمعرات، 28 مئی، 2020

نابالغ اولاد کی عیدی اور انعامات کی رقم استعمال کرلی گئی تو اب اس کی تلافی کی صورت؟


سوال :

مفتی صاحب ! جو والدین بچوں کے پیسے خرچ چکے ہیِں ان پیسوں کی ادائیگی کی کیا صورت ہوگی جب کہ کنتی رقم ہے کچھ معلوم نہ ہو۔
2) فی الحال بچہ بالغ ہوتو اس کے معاف کرنے سے معاف ہوجائے گا؟ 
(المستفتی : مولوی ضمیر، ناسک) 
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کسی نے اپنے نابالغ بچوں کے عیدی اور انعامات کی رقم کا ذاتی استعمال کرلیا ہے تو اس کی تلافی بالکل آسان ہے۔ اس کی صورت یہ ہوگی کہ وہ اس رقم کا اندازہ کرلے اور اب جب بھی وہ اپنے بچوں پر کچھ بھی خرچ کرے تو اس کی نیت کرلے کہ میں وہ رقم اسے لوٹا رہا ہوں۔

2) بالغ ہونے کے بعد بچے خود سے یہ رقم معاف کردیں تو معاف ہوجائے گا۔ 


وأما ما یرجع إلی الواہب فہو أن یکون الواہب من أہل الہبۃ وکونہ من أہلہا أن یکون حراً عاقلاً بالغاً مالکاً للموہوب حتی لو کان عبداً أو مکاتباً أو مدبراً أو أم ولد أو من فی رقبتہ شیٔ من الرق أو کان صغیراً أو مجنوناً أو لا یکون مالکاً للموہوب لا یصح ہکذا فی النہایۃ۔ (۴/۳۷۴،کتاب الہبۃ ، الباب الأول، ہندیہ)

وشرائط صحتہا فی الواہب (العقل والبلوغ والملک) فلا تصح ہبۃ صغیر ورقیق ولو مکاتباً۔ (۱۲/۵۶۵، کتاب الہبۃ، الدر المختار مع الشامی)

وسئل علی رضی اللہ عنہ من التوبۃ فقال یجمعھا ستۃ اشیاء علی الماضی عن الذنوب الندامۃ وللفرائض الاعادۃ ورد المظالم واستحلال الخصوم وان تعزم علی ان لاتعودوان تربی نفسک فی طاعۃ اللہ کماربیتہا فی معصیۃ انتہی۔(تفسیر بیضاوی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 شوال المکرم 1441

بدھ، 27 مئی، 2020

والدین کا نابالغ بچوں کی عیدی استعمال کرنا


سوال :

نابالغ بچوں کی عیدی کا کیا حکم ہوگا؟ کیا والدین اسے اپنے خرچ میں استعمال کرسکتے ہیں؟ تفصیلی جواب مطلوب ہے۔
(المستفتی : فضل الرحمن، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نابالغ بچوں کو جو رقم بطور عیدی یا انعام دی جاتی ہے، یہ رقم بچوں کی ہی ملکیت ہوتی ہے۔ لہٰذا والدین کا اس رقم کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔ اگر بچے خود سے یہ رقم والدین کو دیں تب بھی اس کا ذاتی استعمال والدین کے لیے جائز نہیں ہے۔ کیونکہ نابالغ بچوں کا ہدیہ شرعاً غیرمعتبر ہے، یعنی اگر نابالغ  اپنے مال میں سے کسی کو  ہدیہ  دے تو اس  کا  قبول کرنا بھی جائز نہیں، ہدیہ کے صحیح ہونے کے لئے ہدیہ دینے والے کا بالغ ہونا شرط ہے۔ لہٰذا یہ رقم بچوں کے ہی کھانے خرچے، کپڑوں اور ان کی تعلیمی فیس وغیرہ میں خرچ کی جائے گی۔


وأما ما یرجع إلی الواہب فہو أن یکون الواہب من أہل الہبۃ وکونہ من أہلہا أن یکون حراً عاقلاً بالغاً مالکاً للموہوب حتی لو کان عبداً أو مکاتباً أو مدبراً أو أم ولد أو من فی رقبتہ شیٔ من الرق أو کان صغیراً أو مجنوناً أو لا یکون مالکاً للموہوب لا یصح ہکذا فی النہایۃ۔ (۴/۳۷۴،کتاب الہبۃ ، الباب الأول، ہندیہ)

وشرائط صحتہا فی الواہب (العقل والبلوغ والملک) فلا تصح ہبۃ صغیر ورقیق ولو مکاتباً۔ (۱۲/۵۶۵، کتاب الہبۃ، الدر المختار مع الشامی)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
03 شوال المکرم 1441

منگل، 19 مئی، 2020

مسجد کا کولر کرایہ پر دینا



سوال : 

محترم مفتی صاحب ! ان دنوں لاک ڈاؤن کے باعث مساجد میں صرف پانچ سات لوگ نماز ادا کر رہے ہیں جبکہ دیگر مصلیان الگ الگ مکانات یا جگہوں پر پانچ سات لوگوں کا گروپ بنا کر با جماعت نماز ادا کر رہے ہیں۔ ایک مسجد میں پانچ سات مصلی ہونے کے باعث صرف ایک ہی کولر استعمال ہو رہا تھا بقیہ رکھا تھا۔
دیگر مصلی حضرات جو کسی کے مکان یا کسی اور جگہ با جماعت نماز پڑھ رہے تھے وہ مسجد کا ایک ایک کولر لے کر چلے گئے اور پنج وقتہ نمازوں میں اسے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کو دیکھ کر اور لوگ بھی مساجد کے ذمہ داران سے تقاضہ کر رہے ہیں کہ ہم کو مسجد کا کولر عاریۃ دیا جائے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے ان ایام میں جب مصلی بٹ گئے ہیں تو کیا ان کو اس بات کی اجازت ہوگی کہ وہ مسجد کے لئے وقف شدہ کولر کو کسی دوسری جگہ لے جاکر پنج وقتہ نمازوں کے دوران استعمال کریں اور لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد اسے واپس کر دیں۔ کیا مساجد کے ذمہ داران کو اس طرح کی اجازت دینے کا اختیار ہے؟ اگر اس کا کچھ کرایہ مسجد کو دے دیا جائے تو اس صورت میں کیا حکم ہوگا؟ بینو و توجرو۔
(المستفتی : محمد عبداللہ، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسئلہ ھذا میں ایک بات اچھی طرح سمجھ لی جائے کہ مسجد کے لیے وقف کی ہوئی اشیاء مسجد کی حدود میں ہی استعمال کی جائے گی۔  اسے مسجد کے باہر کسی جگہ خواہ مسجد کے مصلیان کی راحت وآسانی کے لیے ہو دینا درست نہیں ہے۔ یعنی اگر کوئی یہ سمجھے کہ مسجد کا کولر مصلیان کی راحت کے لیے ہے، لیکن موجودہ حالات میں جبکہ مسجد میں نمازیوں کی تعداد کم ہے تو گھروں میں نماز پڑھنے والے مصلیان اسے گھر نہیں لے جاسکتے۔

 البتہ مسجد کی ایسی اشیاء جن کی مسجد کو ہر وقت ضرورت نہیں پڑتی، اگر متولی یا کمیٹی مناسب سمجھے، تو اِن چیزوں کو کرایہ پر دے کر مسجد کی آمدنی میں اِضافہ کرسکتی ہے۔

صورتِ مسئولہ میں جبکہ مسجد کے کولر کی ابھی ضرورت نہیں ہے، تو اسے دیگر مصلیان کو کرایہ پر دیا جاسکتا ہے۔ مفت میں دینے کی اجازت نہیں ہے۔ لہٰذا جنہیں مفت میں دیا گیا ہے ان سے کرایہ وصول کیا جائے اور آئندہ کسی کو بغیر کرایہ کے نہ دیا جائے، ورنہ ذمہ داران وقف کی املاک میں غیر شرعی تصرف کے گناہ گار ہوں گے۔ البتہ اگر موجودہ حالات میں اس کا مطالبہ کرنے والے افراد زیادہ ہوجائیں جس کی وجہ سے تنازعہ کا اندیشہ ہوتو پھر کسی کو نہ دیا جائے۔


قال الفقیہ أبو جعفر: إذا لم یذکر الواقف في صک الوقف إجارۃ الوقف، فرأی القیم أن یواجرہا ویدفعہا مزارعۃ فما کان أدر علی الوقف وأنفع للفقراء فعل۔ (خانیہ ۳؍۳۳۲ زکریا)

وإنما یملک الإجارۃ المتولي أو القاضي۔ (فتح القدیر / کتاب الوقف ۶؍۲۲۴ بیروت)

القیم إذا اشتری من غلۃ المسجد حانوتًا أو دارًا أن یستغل ویباع عند الحاجۃ جاز إن کان لہ ولایۃ الشراء۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الوقف / الفصل الثاني في الوقف علی المسجد وتصرف القیم وغیرہ في حال الوقف علیہ ۲؍۴۶۲، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۸؍۱۷۸ زکریا/بحوالہ کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 رمضان المبارک 1441

پیر، 18 مئی، 2020

زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے رقم نہ ہوتو کیا کرے؟



سوال :

مفتی صاحب امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ ایک مسئلہ درپیش تھا کہ زید کے پاس سونے اور چاندی کے اتنے زیورات ہیں (زیورات کو رکھے ہوئے سال گذر چکا ہے) جس سے زید پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے، لیکن ابھی فی الحال زید کے پاس اتنی نقد رقم نہیں ہے کہ وہ اس کی زکوٰۃ ادا کر سکے۔ زید سے زیورات کوئی خریدنے بھی نہیں راضی ہے۔ تو کیا زید کسی سے قرض رقم لے کر زکوٰۃ ادا کرسکتا ہے؟ اور اگر کوئی قرض رقم بھی نہ دے تو زید کیلئے زکوٰۃ ادا کرنے کیلئے کیا حکم ہوگا؟ قرآن حدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرما کر عنداللّٰہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد عاکف، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جو شخص صاحبِ نصاب ہو اور اس کے پاس زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے مال بھی موجود ہو تو ایسے شخص کا بلاعذر زکوٰۃ نکالنے میں تاخیر کرنا درست نہیں ہے۔ اور اگر کسی کے پاس زکوٰۃ نکالنے کے لیے رقم نہ ہو اور اسے آسانی سے کہیں سے قرض مل سکتا ہو اور اس کی ادائیگی بھی آسانی سے ہوسکتی ہوتو اس کا قرض لے کر زکوٰۃ ادا کردینا بہتر ہے۔ البتہ اگر قرض بھی نہ مل رہا ہو اور زیورات فروخت بھی نہیں ہوسکتے، نیز فروخت تو ہوسکتے ہوں، لیکن موجودہ قیمت سے کم پر فروخت ہورہے ہوں تو اسے فروخت کرنا ضروری نہیں۔ بلکہ بعد میں جب بھی زکوٰۃ ادا کرنے کی استطاعت ہوجائے تب ادا کردیں۔ اسی طرح وقفے وقفے سے تھوڑی تھوڑی زکوٰۃ بھی ادا کی جاسکتی ہے۔


وتجب علی الفور عند تمام الحول حتی یأثم بتأخیرہ من غیر عذر۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱؍۱۷۰)

ولو لم یکن عندہ مال فأراد أن یستقرض لأداء الزکاۃ إن کان أکبر رأیہ أنہ یقدر علی قضائہ، فالأفضل الاستقراض، وإلا فلا۔ (شامي : ۳؍۱۹۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 رمضان المبارک 1441

اتوار، 17 مئی، 2020

لاک ڈاؤن میں نمازِ عیدالفطر کیسے پڑھیں؟



✍ محمد عامر عثمانی ملی 
  (امام و خطیب مسجد کوہ نور) 

قارئین کرام ! وطنِ عزیز ہندوستان بالخصوص صوبۂ مہاراشٹر میں کرونا وائرس کو لے کر لاک ڈاؤن کا سلسلہ بڑھا دیا گیا جس کی وجہ سے ہمیں نمازِ عیدالفطر کی ادائیگی کے لئے عیدگاہوں پر جمع ہونے کی اجازت نہ ملے۔ اور ہمیں نماز جمعہ کی طرح نماز عیدالفطر بھی گھروں میں ادا کرنا پڑے۔ لہٰذا ایسی صورت میں نمازِ عید الفطر کیسے ادا کی جائے؟ اسی کے جواب میں پیشِ نظر مضمون ترتیب دیا گیا ہے تاکہ عوام سہولت اور آسانی کے ساتھ اس اہم عبادت کو انجام دے سکیں۔

        عام حالات میں نمازِ عیدین آبادی سے دور عیدگاہ میں ادا کرنا سنت مؤکدہ ہے۔ لیکن موجودہ لاک ڈاؤن کے حالات میں جبکہ مجمع جمع کرنے کی ممانعت ہے۔ لہٰذا جن علاقوں میں جمعہ اور عیدین کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں وہاں گھروں میں بھی نمازِ عیدالفطر ادا کی جاسکتی ہے۔ (دارالعلوم دیوبند سے بھی یہی فتوی آج جاری ہوا ہے) کیونکہ نماز عیدالفطر کے لیے بھی تقریباً وہی شرائط ہیں جو جمعہ کے لیے ہیں یعنی اس کی ادائیگی کے لئے مسجد یا عیدگاہ کا ہونا شرط نہیں ہے۔ نمازِ عید میں بھی امام کے علاوہ تین بالغ مرد ہوں۔ نمازِ عید کا وقت طلوع آفتاب سے تقریباً ۲۰؍ منٹ بعد  شروع ہو جاتا ہے اور نصف النہار عرفی یعنی زوال تک باقی رہتا ہے۔ لیکن اسے زوال کے قریب پڑھنا مکروہ ہے۔ 

*نمازِ عید کا طریقہ* 
نمازِ عید دو رکعت بغیر اذان واقامت کے ادا کی جاتی ہے۔ اس  کا  طریقہ  یہ ہے کہ نیت کے بعد تکبیرِ تحریمہ اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیں، ثنا پڑھیں، اس کے بعد دونوں ہاتھ اللہ اکبر کہتے ہوئے کانوں تک اٹھائیں اور چھوڑ دیں، دو مرتبہ ایسا کریں اور تیسری تکبیر کے بعد ہاتھوں کو کانوں تک اٹھائیں اور باندھ لیں۔ اس کے بعد تعوذ تسمیہ کرکے سورہ فاتحہ اور کوئی سورۃ پڑھیں، پھر رکوع سجدہ کرکے رکعت مکمل کرلیں۔ دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ اور کوئی سورۃ پڑھنے کے بعد رکوع میں نہ جائیں بلکہ یکے بعد دیگرے تین تکبیرات اس طرح ہوں کہ ہر مرتبہ ہاتھوں کو کانوں تک لے جاکر چھوڑ دیں، اس کے بعد چوتھی تکبیر میں ہاتھوں کو اٹھائے بغیر رکوع میں چلے جائیں اور بقیہ نماز  حسبِ معمول پوری کریں۔

عموماً نیت کے لیے لوگ بڑے پریشان ہوتے ہیں جبکہ دل میں یہ خیال لے آنا کافی ہے کہ میں امام کی اقتداء میں نماز عیدالفطر ادا کرتا/ کرتی ہوں۔ مزید کچھ کہنا ضروری نہیں۔

اگر جماعت میں عورت بھی ہوتو امام کے لیے عورت کی امامت کی نیت بھی کرنا ضروری ہے، اور اس کے لیے باقاعدہ الفاظ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ دل میں ارادہ ہونا کافی ہے۔

جس طرح مرد امام کی اقتداء میں قرأت کی جگہ خاموش رہتے ہیں اسی طرح عورتوں کے لیے بھی یہی حکم ہے، اور جہاں مردوں کے لئے دعا اور تسبیحات پڑھنے کا حکم ہے وہی حکم عورتوں کے لیے بھی ہے۔ 

نماز ودعا سے فراغت کے بعد دو خطبے دینا مسنون ہے، لہٰذا کرسی یا اسٹول وغیرہ رکھ لیا جائے، اور دونوں خطبوں کے درمیان اسی پر تین چھوٹی آیات کی تلاوت کے بقدر بیٹھ جایا جائے۔ ملحوظ رہے کہ عیدین میں جمعہ کی طرح خطبہ دینا شرط نہیں ہے، بلکہ مسنون ہے، یعنی اگر خطبہ نہ ہو تب بھی نماز عید ادا ہوجائے گی۔ لیکن قصداً خطبہ ترک کرنا مکروہ ہے۔

صاحبین ؒ کے نزدیک خطبہ کی کم سے کم مقدار تشہد کے بقدر ہے اس سے کم مکروہ ہے۔ لہٰذا حاضرین میں کوئی عالم یا خطبہ دینے کے  لائق شخص نہ ہوتو وہ دونوں خطبوں میں آیت الکرسی یا سورہ فاتحہ پڑھ لے تو خطبہ کی سنت ادا ہوجائے گی۔ نیز جب خطبہ ہورہا ہو اس وقت وہاں موجود افراد کا اسے خاموشی سے سننا واجب ہے۔

*عورتوں کے لیے نمازِ عید* 
عورتوں پر نمازِ جمعہ وعیدین واجب نہیں ہے، اور عام حالات میں انہیں عیدگاہوں اور مساجد میں جاکر نمازِ عید میں شریک ہونا بھی مکروہ اور سخت فتنہ کا سبب ہے، البتہ حرمین شریفین میں یا کسی ایسی جگہ جہاں فتنہ سے مکمل حفاظت ہو، اگر عورتیں عید کی جماعت میں شامل ہوجائیں تو جائز ہے۔ لہٰذا جہاں گھروں میں نمازِ عید ادا کی جارہی ہو، اس گھر کی خواتین اگر نماز میں شامل ہوجائیں تو یہ درست ہے۔ اگر نماز عید میں شریک نہ ہوسکیں تو نماز عید ہوجانے کے بعد تنہا تنہا بطور شکرانہ دو رکعت نفل نماز پڑھ سکتی ہیں۔

*نمازِ عید کا بدل* 
اگر کوئی تنہا ہو اور اُس کی نمازِ عید فوت ہوجائے اور کسی جگہ ملنے کی امید بھی نہ ہوتو اس کا بدل فقہاء نے لکھا ہے کہ وہ دو دو رکعت کرکے چار رکعت یا پھر صرف دو رکعت نماز چاشت عام نمازوں کی طرح ادا کرلے۔ خیال رہے کہ اس نماز کا پڑھنا مستحب ہے، واجب نہیں۔

*نماز عید سے متعلق اہم مسائل* 
اگر کوئی شخص ایک جگہ نمازِ عید پڑھا چکا ہے تو اب وہ دوسری جگہ جاکر عید کی نماز میں امامت نہیں کرسکتا ہے، اس لیے کہ اس کا واجب ادا ہوچکا ہے اب اگر وہ دوبارہ عید کی نماز پڑھے گا تو یہ نماز نفل ہوگی، جبکہ اس کی اقتداء کرنے والوں کی نماز واجب ہے تو یہ اقتداء المفترض خلف المتنفل کی قبیل سے ہوگا جو درست نہیں ہے۔ 

نماز عید میں مجمع زیادہ ہونے کے سبب سجدۂ سہو واجب ہوجانے پر بھی انتشار سے بچنے کے لیے سجدۂ سہو نہ کرنے کا حکم فقہاء نے لکھا ہے۔ لیکن لاک ڈاؤن میں جبکہ مجمع زیادہ نہ ہو اور سجدۂ سہو کرنے میں کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو اور سجدہ سہو واجب ہو جائے تو سجدۂ سہو کیا جائے گا، کیونکہ یہاں رخصت کا سبب باقی نہیں رہا۔

*خطبہ نمازِ عیدالفطر* 
ذیل میں دو م‍ختصر اور آسان خطبات نقل کیے جارہے ہیں، جنہیں پی ڈی ایف کی شکل میں بھی ارسال کیا جائے گا۔ اگر کوئی اسے آسانی سے پڑھ سکتا ہوتو سنت پر عمل ہوجائے گا، اگر اس کی استطاعت نہ ہوتو اوپر کی ہدایات کے مطابق عمل کرے۔

 *خطبہ اولٰی* 
اَللهُ أَکْبَرْاَللّٰهُ أَکْبَرْ لَآ اِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَکْبَرْ اَللّٰهُ أَکْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ۞الْحَمْدُ لِلَّهِ الْمُنْعِمِ الْاَکْبَرِ، وَفَّی الاُجُوْرَ وَبَثَّ السُّرُوْرَ بِیَوْمِ عِیْدٍ مُّنَوَّرٍ، اَللهُ أَکْبَرْاَللّٰهُ أَکْبَرْ لَآ اِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَکْبَرْ اَللّٰهُ أَکْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ، ۞ اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ، وَاَشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ ۞ اَمَّا بَعْدُ ! قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  :  إِنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا، وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ : فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَکَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَی الْحُرِّ وَالْعَبْدِ وَالذَّکَرِ وَالْأُنْثَی وَالصَّغِيرِ وَالْکَبِيرِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدّٰی قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاةِ ۞ اَللهُ أَکْبَرْاَللّٰهُ أَکْبَرْ لَآ اِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَکْبَرْ اَللّٰهُ أَکْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ ۞ فَأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم ۞ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِْ ۞ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ۞ اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ لِيْ وَلَكُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ فَاسْتَغْفِرُوْہُ، اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيمِْ ۞

*خطبہ ثانیہ* 
اَللهُ أَکْبَرْاَللّٰهُ أَکْبَرْ لَآ اِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَکْبَرْ اَللّٰهُ أَکْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ ۞ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُهٗ وَنَسْتَغْفِرُهٗ وَنُؤْمِنُ بِهٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئاٰتِ اَعْمَالِنَا مَن یَّهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ یُّضْلِلْهُ فَلاَ هَادِیَ لَهُ ۞ وَنَشْهَدُ أَنْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهٗ  لَا شَرِیْکَ لَهٗ ۞ وَنَشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ ۞ أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم ۞ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِِْ۞ إِنَّ اللهَ وَمَلٰئِكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۞اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاَزْوَاجِهٖ وَذُرِّیَّتِهٖ وَصَحْبِهٖ اَجْمَعِیْن۞قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه و سلم، خَیْرُ اُمَّتِیْ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَهُمْ ۞ اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِکَ مِنْ الْجُنُونِ وَالْجُذَامِ وَالْبَرَصِ وَسَيِّئِ الْأَسْقَامِ۞ اَللَّهُمَّ ادْفَعْ عَنَّا الْبَلاَءَ وَالوَبَاءَ ۞ اِنَّ اللهَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْيِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ۞ سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ۞ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ۞ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۞

*عید کے دن معانقہ کرنا* 
عیدالفطر اور عیدالاضحٰی کے دن خصوصی طور پر معانقہ کرنا شریعت سے ثابت نہیں ہے، لہٰذا خاص عید کی نماز کے بعد گلے ملنے کو ضروری اور سنت سمجھنا اور اس پر مداومت اختیار کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی ضروری اور سنت سمجھے بغیر کرے تو اسے غلط بھی نہیں کہا جائے گا، گنجائش ہوگی۔ چنانچہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہی ہے جو محض عید کی خوشی اور مسرت کی وجہ سے آپس میں معانقہ و مصافحہ کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دیتے ہیں وہ اس کو عید کی سنت نہیں سمجھتے بلکہ محض محبت اور تعلق کا اظہار مقصود ہوتا ہے، جس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ البتہ موجودہ حالات میں جبکہ معانقہ اور مصافحہ سے وبائی مرض کے پھیلنے کا اندیشہ ہے، لہٰذا معانقہ اور مصافحہ سے اجتناب کیا جائے اور عید کے دن ملاقات ہونے پر " تقبل اللہ منا ومنکم" یا آپ کو "عید مبارک ہو" کہنے پر اکتفا کیا جائے۔


واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

جمعرات، 14 مئی، 2020

قبلہ کی طرف پیر کرنا، تھوکنا اور استنجا کرنا

سوال :

قبلہ کی جانب پیر کرنا، تھوکنا، استنجاء کرنا اور اسی طرح قبلہ کی جانب کا احترام اس تعلق سے مفصل و مدلل جواب عنایت فرمائیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپکو بہترین جزاے خیر عطا فرمائے۔
(المستفتی : ڈاکٹر اسامہ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قبلہ کی طرف پیر کرکے سونا خلافِ ادب اور مکروہ تنزیہی ہے۔ یعنی اگر معمولی اور ہلکا سمجھتے ہوئے نہ ہو تو پھر گناہ تو نہیں ہے۔ تاہم احتراز بہرحال کیا جائے گا۔

حدیث شریف میں ہے :
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جس شخص نے قبلہ رخ تھوک دیا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا تھوک اس کی دنوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) ہوگا ۔

لہٰذا قبلہ کی طرف تھوکنا مکروہ (تحریمی) ہے۔ البتہ اگر قبلہ کی طرف منہ ہو مگر نیچے زمین کی طرف تھوکے تو اس میں کوئی کراہت نہیں، چنانچہ حدیث میں ہے کہ نماز میں تھوکنے کی ضرورت پیش آئے تو پاؤں کے نیچے تھوک دے، حالانکہ اسوقت نمازی قبلہ رُخ ہے اسکے باوجود نیچے کی طرف تھوکنے کی اجازت دی گئی ہے۔ (احسن الفتاوی : ٢/١٨)

قضائے حاجت کے وقت چہرہ یا پیٹھ  قبلہ کی طرف کرنے کی متعدد احادیث میں ممانعت آئی ہے، جس کی وجہ سے فقہاء نے اسے مکروہ تحریمی لکھا ہے، قضائے حاجت خواہ عمارت میں کی جائے یا میدان میں دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ البتہ جب میدان میں قضائے حاجت کے لیے بیٹھیں تو اس کا بھی خیال رکھا جائے گا کہ ہوا کہ رُخ پر نہ بیٹھیں کیونکہ اس کی وجہ سے پیشاب کے چھینٹوں سے ملوث ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ قبلہ کی طرف پیر کرنے کی بہ نسبت اس کی طرف تھوکنا اور بوقت قضائے حاجت اس طرف رُخ یا پیٹھ کرنا زیادہ سخت ہے۔

يُكْرَهُ أنْ يَمُدَّ رِجْلَيْهِ فِي النَّوْمِ وغَيْرِهِ إلى القِبْلَةِ أوْ المُصْحَفِ أوْ كُتُبِ الفِقْهِ إلّا أنْ تَكُون عَلى مَكان مُرْتَفِعٍ عَنْ المُحاذاةِ۔ (فتح القدیر : ١/٤٢٠)

عَنْ حُذَیْفَةَ رضي الله عنه أظُنُّهُ عَنْ رَسُولِ الله صلي الله عليه وسلم قَالَ مَنْ تَفَلَ تُجَاهَ الْقِبْلَةِ جَاء یَوْمَ الْقِیَامَةِ تَفْلُهُ بَیْنَ عَیْنَیْهِ۔ (أبوداؤد، رقم ١٦٨)

(كَمَا كُرِهَ) تَحْرِيمًا (اسْتِقْبَالُ قِبْلَةٍ وَاسْتِدْبَارُهَا لِ) أَجْلِ (بَوْلٍ أَوْ غَائِطٍ) .... (وَلَوْ فِي بُنْيَانٍ) لِإِطْلَاقِ النَّهْيِ۔ (شامی : ١/٣٤١)

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا جلس أحدکم علی حاجتہ فلا یستقبل القبلۃ ولا یستدبرہا۔ (صحیح بن خزیمۃ، رقم : ۱۳۱۳)

ویکرہ استقبال … مہب الریح لعودہ بہ فینجسہ۔ (مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي : ۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 رمضان المبارک 1441

منگل، 12 مئی، 2020

روزے کا فدیہ کب دینا ہوگا؟ ‏


سوال :

جناب مفتی صاحب ! امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ اس سال کرونا وائرس اور لاک ڈاون کے چلتے صحت و تندرستی ایسی بھی متاثر ہوئی کہ آدھے سے زیادہ مَاہ رمضان المبارک کے روزے رکھے ہی نہ جاسکے۔ ازراہ کرم بتائیں کہ ان چھوٹے ہوئے روزوں کی تلافی کس طرح سے کی جائے گی؟ کیا ان کا فدیہ ادا کر دیں تو چھوٹے ہوئے روزوں کی تلافی ہو جائے گی؟ رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد ابراہیم، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی شخص ایسا بوڑھا ہوگیا کہ اس میں روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رہی، اور یہ امید بھی نہیں کہ مستقبل میں روزہ کی قضا کرسکے گا، یا ایسا بیمار ہوا کہ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رہی اور اب اچھے ہونے کی بھی امید نہیں تو ایسی حالت میں روزہ کا فدیہ دے دے، یعنی ہر روزہ کے بدلے پونے دو کلو گیہوں یا اس کی قیمت، یا بقدر قیمت دیگر اشیاء مستحقین زکوٰۃ میں تقسیم کرے گا، البتہ فدیہ ادا کرنے کے بعد موت سے پہلے روزہ رکھنے کی طاقت حاصل ہوگئی تو روزے کی قضا ضروری ہوگی۔

درج بالا تفصیل کی روشنی میں آپ اپنا معاملہ سمجھ کر اس پر عمل کرسکتے ہیں۔


شیخ فانی کہ از روزہ عاجز باشد افطار کند و عوض ہر روزہ بقدر صدقہ فطر اطعام کند پستر اگر قدرت روزہ بہم رسیدقضا بروئے واجب شود۔(مالا بد منہ : ۹۴/بحوالہ فتاوی رحیمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 رمضان المبارک 1441

پیر، 11 مئی، 2020

لاک ڈاؤن میں عام مصلیان کے لیے مسجد کھولنے کے لیے ذمہ داران پر دباؤ بنانا



سوال :

کیا فرماتے ہے علماء دین اس مسئلے پر کے آج پوری دنیا میں کرونا وائرس کی وباء پھیلی ہوئی ہے جو ہمارے ملک میں اور ہمارے شہر مالیگاوں میں بھی یہ وبائ مرض پھیلا ہوا ہے اس وباء کی وجہ سے پورے ملک میں حکومت وقت کی طرف سے لاک ڈاون اور دفعہ 144 لگایا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے دھارمک استھانوں جیسے مسجدوں میں بھی کئی افراد کے ایک ساتھ نماز پڑھنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔صرف پانچ ذمہ دار لوگوں کو  مسجد میں نماز پڑھنے کی ہی اجازت ہیں۔ اس وجہ سے ہمارے علماء کرام نے بھی اعلان کیا ہے کہ مسجدوں میں بھیڑ نہ کی جائے اور صرف پانچ لوگ ہی نماز ادا کرے۔ لیکن ایسے حالات میں کچھ لوگ مسجد کھلی رکھنے کیلئے اور محلے کے لوگوں کو مسجد میں نماز پڑھنے دینے کیلئے مسجد کے ذمہ داران پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور ضد کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مسجد میں لوگوں کے نماز پڑھنے پر قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور مسجد پر پولس کی طرف سے کوئی کاروائی ہوتی ہے اور کیس بنتا ہے یا کرونا وائرس سے مسجد میں کوئی متاثر ہوتا ہے تو اس کی پوری ذمہ داری ہم لیتے ہیں۔ مسجد میں نماز پڑھنے سے لوگوں کو روکنا گناہ ہے اور مسجد کے ٹرسٹیان اور ذمہ دار لوگ اس گناہ کے ذمہ دار ہونگے۔
       تو کیا ایسے حالات میں مسجد کے ٹرسٹیان اور ذمہ داروں پر دباؤ ڈال کر لوگوں کا مسجد میں نماز پڑھنا یا پڑھوانا صحیح ہے یا غلط۔
مسجد کے ٹرسٹیان و ذمہ داروں پر دباؤ ڈال کر اور ضد کرکے مسجد میں  نماز پڑھوا رہے ہیں تو اس صورت میں نماز ہوگی یا نہیں؟ مفصل جواب مرحمت فرمائے نوازش ہوگی۔
فقط
1) اقبال احمد جان محمد 
2) حاجی عارف خان یونس خان
 مالیگاوں (ناشک)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کرونا وائرس کو لے کر پورے ہندوستان میں لاک ڈاؤن ہے جس کی وجہ سے مساجد میں پانچ افراد کے نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اور یہ لوگوں کو مسجد سے روکنا نہیں ہے، بلکہ احتیاطی تدابیر کا حصہ ہے جس کی شریعت میں گنجائش موجود ہے۔ لہٰذا مسجد میں پانچ افراد سے زیادہ لوگوں کو نماز پڑھنے سے منع کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔

اسی طرح عام مصلیان کے لیے مسجد کھلوانے کی ضد کرنا اور مصلیان کا مسجد کے ذمہ داران پر دباؤ بنانا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ ذمہ داران کوئی غیرشرعی فعل نہیں کررہے ہیں، بلکہ وہ ایک جائز حکم پر عمل پیرا ہیں، جبکہ عام مصلیان کے لئے مسجد کھولنے میں قانوناً گرفت کا بھی خطرہ ہے، جس کی وجہ سے امام و مؤذن نیز ذمہ داران قانونی دشواریوں میں پھنس سکتے ہیں، لہٰذا ایسے مصلیان کی باتوں پر کان دھرنے کی ضرورت کی ضرورت نہیں۔ 

تاہم اگر کسی مسجد میں مصلیان کے دباؤ پر مسجد عام مصلیان کے کھول دی گئی تو ان کی نماز تو مسجد میں بلاکراہت درست ہوجائے گی۔ البتہ خدانخواستہ اگر کوئی قانونی گرفت ہوئی اور مسجد پر کوئی کارروائی ہوئی تو اس کا سارا وبال اور گناہ ان مصلیان پر ہوگا جو عام مصلیان کے لئے مسجد کھلوانے کی ضد کررہے تھے اور ذمہ داران پر دباؤ بنا رہے تھے۔ لہٰذا انہیں اس بے جا ضد سے باز رہنا چاہیے، اور گھروں پر نماز پڑھنا چاہیے کہ یہی حالات کا تقاضا ہے۔


اَلضَّرُورَاتُ تُبِيحُ الْمَحْظُورَاتِ۔ (الاشباہ والنظائر : ۱۴۰، الفن الاول)

عن أبي هريرة، عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: المسلم من سلم الناس من لسانه ويده، والمؤمن من أمنه الناس على دمائهم وأموالهم۔ (سنن النسائي: ۲؍۲۶۶، رقم الحدیث : ۴۹۹۵، کتاب الإیمان و شرائعہ،باب صفۃ المؤمن، دیوبند)

عن تمیم الداري رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن الدین النصیحۃ، إن الدین النصیحۃ، إن الدین النصیحۃ، قالوا لمن یا رسول اللّٰہ! قال: للّٰہ وکتابہ ورسولہ وأئمۃ المسلمین وعامتہم۔ (سنن أبي داؤد ۲؍۶۷۶ رقم: ۴۹۴۴)

والنصیحۃ لعامۃ المسلمین، إرشادہم إلی مصالحہم۔ (بذل المجہود ۱۳؍۳۴۶ دار البشائر الإسلامیۃ) فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 رمضان المبارک 1441

اتوار، 10 مئی، 2020

مسجد کے بینک اکاؤنٹ کی سودی رقم غریبوں میں تقسیم کرنا

سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ مسجد کے بینک اکاؤنٹ میں سود کی رقم تقریباً بیس ہزار روپے جمع ہے۔ کیا ہم اس رقم سے موجودہ حالات میں مستحقین کو راشن دے سکتے ہیں؟ کیا اسے مسجد کے طہارت خانے اور بیت الخلاء میں استعمال کرنا چاہیے؟ برائے مہربانی مفصل جواب عنایت فرمائیں اورعنداللہ ماجور ہوں۔

(المستفتی : انصاری محمد عبداللہ، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بینک اکاؤنٹ خواہ مسجد کا ہو اس میں جمع شدہ رقم پر ملنے والی سود کی رقم کو اس کے مالک کو لوٹانا ضروری ہے، یہ ممکن نہ ہوتو بلا نیتِ ثواب فقراء اور مساکین میں تقسیم کرنا چاہئے۔

اسی طرح بینک کے سود کی رقم سے انکم ٹیکس اور جی ایس ٹی (اگر مسجد پر اس طرح کا کوئی ٹیکس لاگو ہوتا ہو) کی ادائیگی کرنے کی علماء نے گنجائش دی ہے۔ اس لئے کہ یہ دونوں غیرواجبی اور ظالمانہ ٹیکس ہیں، اور چونکہ بینکوں کا تعلق حکومت سے ہوتا ہے۔ جب سود کی رقم انکم ٹیکس میں دی جائے گی تو وہ اسی کے رب المال (مالک) کی طرف لوٹے گی۔ اس کے علاوہ سود کی رقم کا اور کوئی مصرف نہیں ہے۔

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مسجد کے طہارت خانے اور بیت الخلاء کی تعمیر سودی رقم سے ہی کی جائے گی، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ طہارت خانے اور بیت الخلاء ضروریاتِ مسجد میں شامل ہیں، لہٰذا اس کی تعمیر عطیات کی رقم سے ہی کی جائے گی، اس کی تعمیر میں صدقاتِ واجبہ، زکوٰۃ، سود وغیرہ کی رقومات لگانا جائز نہیں۔

صورتِ مسئولہ میں مسجد کے بینک اکاؤنٹ میں جو سودی رقم جمع ہے، اس سے راشن خرید کر یا نقد رقم سے ہی مستحقین زکوٰۃ مسلمانوں اور غریب غیرمسلموں کی مدد کی جاسکتی ہے۔ بلکہ موجودہ حالات اس کے لیے زیادہ بہتر ہیں کہ یہ رقم اس مد میں خرچ کی جائے۔ نیز بینکوں کی پابندیوں کی وجہ سے اگر فوری طور پر یہ رقم اکاؤنٹ سے نہ نکالی جاسکے تو اتنی رقم کسی سے قرض لے کر مذکورہ مصرف میں خرچ کردی جائے، اور بعد میں جب یہ رقم نکل جائے تو قرض واپس کردیا جائے۔


لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إن تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي ۶/۳۸۵)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم
محمدعامرعثمانی ملی
16 رمضان المبارک 1441

مخصوص نفل نمازیں اور ان کی رکعتوں کی تعداد

*مخصوص نفل نمازیں اور ان کی رکعتوں کی تعداد* 

سوال :

مفتی مکرم! درج ذیل نفل نماز کے اوقات اور رکعتوں کے بارے میں مفصل جواب مطلوب ہے۔ تہجد، اشراق، چاشت، اوابین۔ براہ کرم  جواب عنایت کرکے عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : مختار انصاری، مالیگاؤں) 
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال میں مذکور نفل نمازوں کے اوقات اور انکی رکعات کی تعداد درج ذیل ہیں۔

*تہجد :* نماز تہجد کا وقت، نماز عشاء کے بعد سے صبح صادق تک رہتا ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص سونے سے پہلے بھی چند رکعتیں تہجد کی نیت سے پڑھ لے، تو تہجد ادا ہوجائے گی، البتہ سوکر اٹھنے کے بعد تہجد پڑھنا زیادہ افضل ہے کہ اس میں مشقت زیادہ ہے اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک تھا۔

تہجد کی کم سے کم مقدار دورکعت ہے، متوسط درجہ چار رکعت پڑھنا ہے، اور بہتر ہے کہ آٹھ رکعت پڑھی جائے. بعض نے بارہ رکعت بھی بیان کی ہیں۔

أقل التھجد رکعتان وأوسطہ أربع وأکثرہ ثمان۔ ( شامی : ۲/۴۶۸) 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عام معمول مبارک آٹھ رکعت تہجد پڑھنے کا تھا۔ (الجامع للترمذی،حدیث نمبر : ۴۳۹ ، باب ماجاء في وصف صلاۃ النبيا باللیل) 


*اشراق :* اشراق کی نماز  کا وقت طلوع آفتاب کے بعد احتیاطاً بیس منٹ کے بعد شروع ہوتا ہے اور زوال آفتاب تک رہتا ہے، مگر شروع میں پڑھنا افضل ہے، نماز اشراق کم از کم دو رکعتیں ہیں اور زیادہ سے زیادہ چار رکعتیں ہیں۔

أولہا عند طلوع الشمس إلی أن ترتفع الشمس وتبیض قدر رمح أو رمحین۔ (طحطاوی علی المراقي ۱۰۰)

(ثم صلی رکعتین) ویقال لہما رکعتا الإشراق وہما غیر سنۃ الضحیٰ۔ (طحطاوي علی مراقي الفلاح ۹۴)


*چاشت :* چاشت کی نماز کا وقت صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کے کل وقت کا چوتھائی حصہ گزرنے کے بعد شروع ہوتا ہے، اور زوال تک رہتا ہے، مثلاً : صبح صادق سے لے کرغروب آفتاب تک کا مکمل وقت اس وقت ١٤؍گھنٹہ ہے، تو صبح صادق سے ساڑھے تین گھنٹے گزرنے کے بعد چاشت کا وقت شروع ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں ایک دوسراقول یہ ہے کہ طلوع آفتاب کے بعد مکروہ وقت نکل جانے پر چاشت کی نماز کا وقت شروع ہوجاتاہے، اشراق کی نماز کے بعد چاشت کی نماز پڑھ لی جائے، توچاشت کی نماز کا ثواب مل جائے گا۔ (طحطاوی:۲۱۶/بحوالہ فتاوی فلاحیہ) 
 
نماز چاشت کی کم از کم دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعتیں ہیں، افضل آٹھ رکعات پڑھنا ہے۔

وندب أربع فصاعدا في الضحی من بعد الطلوع إلی الزوال، ووقتہا المختار بعد ربع النہار، وفي المنیۃ: أقلہا رکعتان وأکثرہا اثنتا عشرۃ، وأوسطہا ثمان وہو افضلہا۔ (شامي ۲؍۴۶۵) 


*اوابین :* صلوۃ اوابین کا وقت مغرب کی نماز کے بعد ہے۔

نماز اوابین کی چھ رکعتیں ہیں۔
افضل یہ ہے کہ دو رکعت سنت مؤکدہ کے علاوہ چھ رکعت صلاۃ الاوابین ادا کی جائے، البتہ مشغولی کی وجہ سے چار رکعت پر اکتفا کرکے دو رکعت سنت مؤکدہ کو بھی اس میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

ویستحب ست بعد المغرب لیکتب من الأوابین۔ (شامي ۲؍۴۵۲ زکریا)

قال علي القاري رحمہ اللہ المفہوم أن الرکعتین الرابتتین داخلتان في الست۔فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 رمضان المبارک 1441

ہفتہ، 9 مئی، 2020

آیتِ سجدہ تلاوت کرنے کے بعد رکوع کردے

*آیتِ سجدہ تلاوت کرنے کے بعد رکوع کردے*

سوال :

سجدے کی آیت تلاوت کرنے بعد امام نے سجدہ کرنے کی بجائے رکوع کردیا۔ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : خلیل احمد، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں اگر امام صاحب نے سجدہ کی آیت پڑھ کر فوراً یعنی تین آیتوں سے زائد فصل کئے بغیر رکوع کردیا تو نماز کے سجدہ میں سجدۂ تلاوت ادا ہوجائے گا، خواہ امام صاحب نے اس کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو۔ البتہ افضل یہی ہے کہ سجدۂ تلاوت مستقل ادا کیا جائے تاکہ مقتدی حضرات تشویش میں مبتلا نہ ہوں اور یہ عمل انتشار کا سبب نہ بنے۔

ولو تلاھا في الصلاة سجدھا فیھا لا خارجھا، وتوٴدی برکوع صلاة إذا کان الرکوع علی الفور، إن نواہ، وتوٴدی بسجودھا کذالک أي علی الفور وإن لم ینو۔ (الدر المختار مع الشامي : ۲ /۵۸۵- ۵۸۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 رمضان المبارک 1441

جمعہ، 8 مئی، 2020

باسی کھانا کھانے کا شرعی حکم

*باسی کھانا کھانے کا شرعی حکم*

سوال :

مفتی صاحب! گھروں میں بچنے والے باسی کھانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کسی نے مجھ سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی باسی کھانا نہیں کھایا اس لیے ہمیں بھی نہیں کھانا چاہئے۔ میں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی دو وقت پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا مطلب کہ کھانا اتنا ہوتا ہی نہیں تھا کہ دوسرے دن کے لئے محفوظ کیا جاتا۔ برائے مہربانی اس تعلق سے وضاحت فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : ضیاء الرحمن، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شمائل ترمذی میں حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر جَو کی روٹی کبھی نہیں بچتی تھی۔

اس روایت کو نقل کرنے کے بعد شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب رحمہ اللہ خصائل نبوی میں فائدہ تحریر فرماتے ہیں، یعنی جو کی روٹی اگر کبھی پکتی تھی تو وہ مقدار میں اتنی ہوتی ہی نہیں تھی کہ بچتی، اس لیے کہ پیٹ بھرنے کو بھی کافی نہیں ہوتی تھی۔ (خصائل نبوی : ۸۵)

البتہ بعض روایات میں آپ کا باسی چربی جو کی روٹی کے ساتھ تناول فرمانا ثابت ہے۔

حضرت انس ؓ  کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ جو کی روٹی اور کئی دن کی باسی پُرانی  چکنائی کی دعوت کی جاتی۔ تو آپ ﷺ (اس کو بھی بے تکلف) قبول فرما لیتے۔ (شمائل ترمذی)

معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں مذکور آپ کو کہی گئی بات بالکل بھی درست نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے باسی کھانا تناول نہیں فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو باسی کھانا بھی میسر نہیں تھا، اگر ہوتا تو آپ ضرور تناول فرماتے۔ لہٰذا باسی کھانا کھانے کو ناجائز یا خلافِ سنت سمجھنا قطعاً درست نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی باسی کھانا مُضر صحت ہوتو ظاہر ہے اس کے کھانے سے احتراز کیا جائے گا۔

حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَبِي بُکَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَرِيزُ بْنُ عُثْمَانَ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ يَقُولُ مَا کَانَ يَفْضُلُ عَنِ أَهْلِ بَيْتِ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم خُبْزُ الشَّعِيرِ۔ (شمائل ترمذی)

حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَی الْکُوفِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم يُدْعَی إِلَی خُبْزِ الشَّعِيرِ وَالإِهَالَةِ السَّنِخَةِ فَيُجِيبُ وَلَقَدْ کَانَ لَهُ دِرْعٌ عِنْدَ يَهُودِيٍّ فَمَا وَجَدَ مَا يَفُکُّهَا حَتَّی مَاتَ۔ (شمائل ترمذی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 رمضان المبارک 1441

صلوٰۃ التسبیح میں دیگر نوافل کی نیت کرنا

*صلوٰۃ التسبیح میں دیگر نوافل کی نیت کرنا*

سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ھذا کے بارے میں کہ تہجد کے وقت اگر صلاۃ التسبیح پڑھیں گے تو تہجد کا بھی ثواب مل جائے گا یا تہجد کے لئے الگ سے نفل نماز پڑھنی پڑے گی؟
(المستفتی : عباد اللہ، تھانہ)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ضابطہ یہ ہے کہ نوافل میں ایک سے زائد نفل نمازوں کی نیت کرنا درست ہے۔ صلوٰۃ التسبیح بھی چونکہ نفل نماز ہے، لہٰذا اس میں بھی ایک سے زائد نیت کرنا درست ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص مغرب کے بعد صلوٰۃ التسبیح پڑھتے ہوئے اس میں اوابین کی نیت بھی کرے تو چار رکعت اوابین ادا ہوجائیں گی۔لیکن اوابین کا افضل طریقہ یہ ہے کہ دو، دو رکعت کرکے مغرب کے بعد چھ رکعتیں ادا کی جائیں جب کہ صلوٰۃ التسبیح میں چار رکعت ایک سلام کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں صلوٰۃ التسبیح میں تہجد کی نیت کی جاسکتی ہے، صلوٰۃ التسبیح کے ساتھ تہجد کا ثواب بھی ملے گا، البتہ تہجد میں بھی افضل یہی ہے کہ دو دو رکعتیں ادا کی جائیں۔

عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ علی المنبر یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول انما الاعمال بالنیات و انما لامری ما نوی۔ ( الصحیح البخاری، حدیث نمبر : ١)

ثم انہ ان جمع بین عبادات الوسائل فی النیۃ صح کما لو اغتسل لجنابۃ و عید وجمعۃ اجتمعت و نال ثواب الکل و کما لو توضا لنوم و بعد غیبۃ واکل لحم جزور و کذا یصح لو نوی نافلتین او اکثر کما لو نوی تحیۃ مسجد و سنۃ وضوء و ضحی و کسوف۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص ٢١٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 رمضان المبارک 1441

بدھ، 6 مئی، 2020

حائضہ صبح صادق سے پہلے پاک ہوئی تو اس کے روزہ کا مسئلہ

سوال :

عورت کو ماہواری آنے کے بعد اگر خون بند ہو گیا ہے اور وہ صبح صادق کے بعد غسل کرے تو اس کا وہ روزہ ہوگا کہ اس روزے کی قضاء لازم آئے گی؟
(المستفتی : اسامہ عثمانی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی عورت صبح صادق سے پہلے حیض سے پاک ہوگئی تو اس میں درج ذیل تفصیل ہے :

الف : اگر وہ دس دن مکمل حیض میں رہ کر پاک ہوئی ہے تو اب خواہ صبح صادق سے قبل اسے غسل کا موقع اور وقت ملا ہو یا نہ ملا ہو بہرحال وہ اس دن کا روزہ رکھے گی۔

ب : اور اگر دس دن سے کم میں پاک ہوئی ہے تو یہ دیکھا جائے گا کہ صبح صادق سے پہلے پہلے وہ غسل کرکے پاک ہوسکتی ہے یا نہیں؟ اگر اتنا وقت ہے کہ پاک ہوسکے تو اس پر اس دن کا روزہ رکھنا ضروری ہوگا، اور اگر اتنا وقت نہیں ہے کہ غسل کرسکے گویا کہ عین صبح صادق کے وقت پاک ہوئی ہے تو اب اس پر اس دن کا روزہ رکھنا درست نہیں ہے، بلکہ بعد میں قضاء کرنی ہوگی۔

معلوم ہوا کہ دونوں صورتوں میں صبح صادق سے پہلے غسل کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ دوسری صورت میں صرف غسل کا وقت مل جانا کافی ہے۔ لہٰذا وہ اسی حالت میں سحری کرے گی۔ اور صبح صادق کے بعد غسل کرکے نماز فجر پڑھ لے گی۔ غسل میں بلاعذر شرعی اتنی تاخیر کرنا کہ نماز قضا ہوجائے سخت گناہ کی بات ہے۔ لہٰذا اس کا خیال رکھا جائے۔

ولو طہرت لیلاً صامت الغد إن کانت أیام حیضہا عشرۃ۔ (عالمگیری ۱؍۲۰۷)

وإن کانت أیام حیضہا دون عشرۃ فإن أدرکت من اللیل مقدار الغسل وزیادۃ ساعۃ لطیفۃ تصوم، وإن طلع الفجر مع فراغہا من الغسل لا تصوم لأن مدۃ الاغتسال من جملۃ الحیض فیمن کانت أیامہا دون العشرۃ۔ (عالمگیری ۱؍۲۰۷، ومثلہ فی التاتارخانیۃ زکریا ۳؍۴۲۹/بحوالہ کتاب المسائل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 رمضان المبارک 1441

منگل، 5 مئی، 2020

ہاف آستین کی شرٹ میں نماز کا حکم

*ہاف آستین کی شرٹ میں نماز کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے  میں کہ پینٹ شرٹ اور ہاف آستین کی ٹی شرٹ پہن کر نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : انصاری محمد عاکف، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آدھی آستین کی شرٹ یا ٹی شرٹ پہننا خلاف اولٰی ہے، اس لئے کہ یہ مسنون لباس نہیں ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آستین گٹوں تک تھی۔ (شمائل الترمذی : ۸۸، باب ما جاء في صفة إزار، زاد المعاد : ۱/۱۴۲-۱۳۵)

آستین کہنی سے اوپر ہو تو اس صورت میں نماز پڑھنے کو فقہاء نے مکروہ تنزیہی قرار دیا ہے، اس لئے کہ یہ نماز کے احترام اور تقاضۂ ادب کے خلاف ہے۔ تاہم اس صورت میں بھی نماز ادا ہوجاتی ہے، اعادہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔

وَلَوْ صَلَّى رَافِعًا كُمَّيْهِ إلَى الْمِرْفَقَيْنِ كُرِهَ. كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١٠٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 جمادی الآخر 1440

تراويح ایک سلام سے چار یا آٹھ رکعت پڑھنا

*تراويح ایک سلام سے چار یا آٹھ رکعت پڑھنا*

سوال :

مفتی صاحب ایک سوال ہے کہ کیا تراویح کی نماز چار رکعت ایک سلام سے ۔ یا آٹھ رکعت ایک سلام سے پڑھی جا سکتی ہے؟ مع حوالہ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : ضیاء الرحمن، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نمازِ تراويح بیس رکعتیں دس سلام کے ساتھ پڑھنا مسنون ومستحب ہے۔ اور اسی پر شروع سے عمل ہوتا آرہا ہے۔ البتہ اگر چار یا آٹھ رکعت ایک سلام سے پڑھ لی گئیں اور ہر دو رکعت پر تشہد کی مقدار قعدہ کیا گیا تو یہ تمام رکعتیں درست ہوجائیں گی اور تراويح میں شمار ہوں گی۔ لیکن بلا کسی عذر کے قصداً ایسا کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔

لہٰذا موجودہ حالات میں بھی صرف چند سیکنڈ کی تخفیف کے لیے خیر القرون سے چلے آرہے عمل کو ترک کرنا اور عوام کو تشویش میں مبتلا کرنا کراہت سے خالی نہیں ہے۔ لہٰذا اس سے احتراز کرنا چاہیے۔

(بعشر تسلیمات)فلو فعلھا بتسلیمة؛ فإن قعد لکل شفع صحت بکراھة وإلا نابت عن شفع واحد، بہ یفتی اھ، وفی الرد: قولہ: (وصحت بکراھة)أي: صحت عن الکل وتکرہ إن تعمد، وھذا ھو الصحیح کما فی الحلبة عن النصاب وخزانة الفتاوی خلافاً لما فی المنیة من عدم الکراھة؛ فإنہ لا یخفی ما فیہ لمخالفتہ المتوارث الخ، قولہ : (بہ یفتی) لم أر من صرح بھذا اللفظ ھنا، وإنما صرح بہ فی النھر عن الزاھدي فیما لو صلی أربعاً بتسلیمة وقعدة واحدة الخ۔ (الدر مع الرد، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲/ ۴۹۵، ۴۹۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 رمضان المبارک 1441