اس بلاگ پر موجود تمام جوابات، مضامین و مقالات حنفی مسلک اور علماء دیوبند کی تشریحات کی روشنی میں لکھے گئے ہیں۔
اتوار، 31 مئی، 2020
نکاح خواں کا خود گواہ بننا
قضا روزے میں نفل کی نیت کرنا
شوال کے چھ روزوں کے بعد عید؟
ہفتہ، 30 مئی، 2020
غیرمسلم کی اَرتھی لے جانے کا حکم
جمعرات، 28 مئی، 2020
نابالغ اولاد کی عیدی اور انعامات کی رقم استعمال کرلی گئی تو اب اس کی تلافی کی صورت؟
بدھ، 27 مئی، 2020
والدین کا نابالغ بچوں کی عیدی استعمال کرنا
منگل، 19 مئی، 2020
مسجد کا کولر کرایہ پر دینا
پیر، 18 مئی، 2020
زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے رقم نہ ہوتو کیا کرے؟
اتوار، 17 مئی، 2020
لاک ڈاؤن میں نمازِ عیدالفطر کیسے پڑھیں؟
جمعرات، 14 مئی، 2020
قبلہ کی طرف پیر کرنا، تھوکنا اور استنجا کرنا
سوال :
قبلہ کی جانب پیر کرنا، تھوکنا، استنجاء کرنا اور اسی طرح قبلہ کی جانب کا احترام اس تعلق سے مفصل و مدلل جواب عنایت فرمائیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپکو بہترین جزاے خیر عطا فرمائے۔
(المستفتی : ڈاکٹر اسامہ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قبلہ کی طرف پیر کرکے سونا خلافِ ادب اور مکروہ تنزیہی ہے۔ یعنی اگر معمولی اور ہلکا سمجھتے ہوئے نہ ہو تو پھر گناہ تو نہیں ہے۔ تاہم احتراز بہرحال کیا جائے گا۔
حدیث شریف میں ہے :
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جس شخص نے قبلہ رخ تھوک دیا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا تھوک اس کی دنوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) ہوگا ۔
لہٰذا قبلہ کی طرف تھوکنا مکروہ (تحریمی) ہے۔ البتہ اگر قبلہ کی طرف منہ ہو مگر نیچے زمین کی طرف تھوکے تو اس میں کوئی کراہت نہیں، چنانچہ حدیث میں ہے کہ نماز میں تھوکنے کی ضرورت پیش آئے تو پاؤں کے نیچے تھوک دے، حالانکہ اسوقت نمازی قبلہ رُخ ہے اسکے باوجود نیچے کی طرف تھوکنے کی اجازت دی گئی ہے۔ (احسن الفتاوی : ٢/١٨)
قضائے حاجت کے وقت چہرہ یا پیٹھ قبلہ کی طرف کرنے کی متعدد احادیث میں ممانعت آئی ہے، جس کی وجہ سے فقہاء نے اسے مکروہ تحریمی لکھا ہے، قضائے حاجت خواہ عمارت میں کی جائے یا میدان میں دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ البتہ جب میدان میں قضائے حاجت کے لیے بیٹھیں تو اس کا بھی خیال رکھا جائے گا کہ ہوا کہ رُخ پر نہ بیٹھیں کیونکہ اس کی وجہ سے پیشاب کے چھینٹوں سے ملوث ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ قبلہ کی طرف پیر کرنے کی بہ نسبت اس کی طرف تھوکنا اور بوقت قضائے حاجت اس طرف رُخ یا پیٹھ کرنا زیادہ سخت ہے۔
يُكْرَهُ أنْ يَمُدَّ رِجْلَيْهِ فِي النَّوْمِ وغَيْرِهِ إلى القِبْلَةِ أوْ المُصْحَفِ أوْ كُتُبِ الفِقْهِ إلّا أنْ تَكُون عَلى مَكان مُرْتَفِعٍ عَنْ المُحاذاةِ۔ (فتح القدیر : ١/٤٢٠)
عَنْ حُذَیْفَةَ رضي الله عنه أظُنُّهُ عَنْ رَسُولِ الله صلي الله عليه وسلم قَالَ مَنْ تَفَلَ تُجَاهَ الْقِبْلَةِ جَاء یَوْمَ الْقِیَامَةِ تَفْلُهُ بَیْنَ عَیْنَیْهِ۔ (أبوداؤد، رقم ١٦٨)
(كَمَا كُرِهَ) تَحْرِيمًا (اسْتِقْبَالُ قِبْلَةٍ وَاسْتِدْبَارُهَا لِ) أَجْلِ (بَوْلٍ أَوْ غَائِطٍ) .... (وَلَوْ فِي بُنْيَانٍ) لِإِطْلَاقِ النَّهْيِ۔ (شامی : ١/٣٤١)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا جلس أحدکم علی حاجتہ فلا یستقبل القبلۃ ولا یستدبرہا۔ (صحیح بن خزیمۃ، رقم : ۱۳۱۳)
ویکرہ استقبال … مہب الریح لعودہ بہ فینجسہ۔ (مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي : ۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 رمضان المبارک 1441
منگل، 12 مئی، 2020
روزے کا فدیہ کب دینا ہوگا؟
پیر، 11 مئی، 2020
لاک ڈاؤن میں عام مصلیان کے لیے مسجد کھولنے کے لیے ذمہ داران پر دباؤ بنانا
اتوار، 10 مئی، 2020
مسجد کے بینک اکاؤنٹ کی سودی رقم غریبوں میں تقسیم کرنا
سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ مسجد کے بینک اکاؤنٹ میں سود کی رقم تقریباً بیس ہزار روپے جمع ہے۔ کیا ہم اس رقم سے موجودہ حالات میں مستحقین کو راشن دے سکتے ہیں؟ کیا اسے مسجد کے طہارت خانے اور بیت الخلاء میں استعمال کرنا چاہیے؟ برائے مہربانی مفصل جواب عنایت فرمائیں اورعنداللہ ماجور ہوں۔
مخصوص نفل نمازیں اور ان کی رکعتوں کی تعداد
ہفتہ، 9 مئی، 2020
آیتِ سجدہ تلاوت کرنے کے بعد رکوع کردے
*آیتِ سجدہ تلاوت کرنے کے بعد رکوع کردے*
سوال :
سجدے کی آیت تلاوت کرنے بعد امام نے سجدہ کرنے کی بجائے رکوع کردیا۔ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : خلیل احمد، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں اگر امام صاحب نے سجدہ کی آیت پڑھ کر فوراً یعنی تین آیتوں سے زائد فصل کئے بغیر رکوع کردیا تو نماز کے سجدہ میں سجدۂ تلاوت ادا ہوجائے گا، خواہ امام صاحب نے اس کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو۔ البتہ افضل یہی ہے کہ سجدۂ تلاوت مستقل ادا کیا جائے تاکہ مقتدی حضرات تشویش میں مبتلا نہ ہوں اور یہ عمل انتشار کا سبب نہ بنے۔
ولو تلاھا في الصلاة سجدھا فیھا لا خارجھا، وتوٴدی برکوع صلاة إذا کان الرکوع علی الفور، إن نواہ، وتوٴدی بسجودھا کذالک أي علی الفور وإن لم ینو۔ (الدر المختار مع الشامي : ۲ /۵۸۵- ۵۸۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 رمضان المبارک 1441
جمعہ، 8 مئی، 2020
باسی کھانا کھانے کا شرعی حکم
*باسی کھانا کھانے کا شرعی حکم*
سوال :
مفتی صاحب! گھروں میں بچنے والے باسی کھانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کسی نے مجھ سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی باسی کھانا نہیں کھایا اس لیے ہمیں بھی نہیں کھانا چاہئے۔ میں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی دو وقت پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا مطلب کہ کھانا اتنا ہوتا ہی نہیں تھا کہ دوسرے دن کے لئے محفوظ کیا جاتا۔ برائے مہربانی اس تعلق سے وضاحت فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : ضیاء الرحمن، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شمائل ترمذی میں حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر جَو کی روٹی کبھی نہیں بچتی تھی۔
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب رحمہ اللہ خصائل نبوی میں فائدہ تحریر فرماتے ہیں، یعنی جو کی روٹی اگر کبھی پکتی تھی تو وہ مقدار میں اتنی ہوتی ہی نہیں تھی کہ بچتی، اس لیے کہ پیٹ بھرنے کو بھی کافی نہیں ہوتی تھی۔ (خصائل نبوی : ۸۵)
البتہ بعض روایات میں آپ کا باسی چربی جو کی روٹی کے ساتھ تناول فرمانا ثابت ہے۔
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ جو کی روٹی اور کئی دن کی باسی پُرانی چکنائی کی دعوت کی جاتی۔ تو آپ ﷺ (اس کو بھی بے تکلف) قبول فرما لیتے۔ (شمائل ترمذی)
معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں مذکور آپ کو کہی گئی بات بالکل بھی درست نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے باسی کھانا تناول نہیں فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو باسی کھانا بھی میسر نہیں تھا، اگر ہوتا تو آپ ضرور تناول فرماتے۔ لہٰذا باسی کھانا کھانے کو ناجائز یا خلافِ سنت سمجھنا قطعاً درست نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی باسی کھانا مُضر صحت ہوتو ظاہر ہے اس کے کھانے سے احتراز کیا جائے گا۔
حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ أَبِي بُکَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَرِيزُ بْنُ عُثْمَانَ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ يَقُولُ مَا کَانَ يَفْضُلُ عَنِ أَهْلِ بَيْتِ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم خُبْزُ الشَّعِيرِ۔ (شمائل ترمذی)
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَی الْکُوفِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم يُدْعَی إِلَی خُبْزِ الشَّعِيرِ وَالإِهَالَةِ السَّنِخَةِ فَيُجِيبُ وَلَقَدْ کَانَ لَهُ دِرْعٌ عِنْدَ يَهُودِيٍّ فَمَا وَجَدَ مَا يَفُکُّهَا حَتَّی مَاتَ۔ (شمائل ترمذی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 رمضان المبارک 1441
صلوٰۃ التسبیح میں دیگر نوافل کی نیت کرنا
*صلوٰۃ التسبیح میں دیگر نوافل کی نیت کرنا*
سوال :
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ھذا کے بارے میں کہ تہجد کے وقت اگر صلاۃ التسبیح پڑھیں گے تو تہجد کا بھی ثواب مل جائے گا یا تہجد کے لئے الگ سے نفل نماز پڑھنی پڑے گی؟
(المستفتی : عباد اللہ، تھانہ)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ضابطہ یہ ہے کہ نوافل میں ایک سے زائد نفل نمازوں کی نیت کرنا درست ہے۔ صلوٰۃ التسبیح بھی چونکہ نفل نماز ہے، لہٰذا اس میں بھی ایک سے زائد نیت کرنا درست ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص مغرب کے بعد صلوٰۃ التسبیح پڑھتے ہوئے اس میں اوابین کی نیت بھی کرے تو چار رکعت اوابین ادا ہوجائیں گی۔لیکن اوابین کا افضل طریقہ یہ ہے کہ دو، دو رکعت کرکے مغرب کے بعد چھ رکعتیں ادا کی جائیں جب کہ صلوٰۃ التسبیح میں چار رکعت ایک سلام کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں صلوٰۃ التسبیح میں تہجد کی نیت کی جاسکتی ہے، صلوٰۃ التسبیح کے ساتھ تہجد کا ثواب بھی ملے گا، البتہ تہجد میں بھی افضل یہی ہے کہ دو دو رکعتیں ادا کی جائیں۔
عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ علی المنبر یقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول انما الاعمال بالنیات و انما لامری ما نوی۔ ( الصحیح البخاری، حدیث نمبر : ١)
ثم انہ ان جمع بین عبادات الوسائل فی النیۃ صح کما لو اغتسل لجنابۃ و عید وجمعۃ اجتمعت و نال ثواب الکل و کما لو توضا لنوم و بعد غیبۃ واکل لحم جزور و کذا یصح لو نوی نافلتین او اکثر کما لو نوی تحیۃ مسجد و سنۃ وضوء و ضحی و کسوف۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص ٢١٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 رمضان المبارک 1441
بدھ، 6 مئی، 2020
حائضہ صبح صادق سے پہلے پاک ہوئی تو اس کے روزہ کا مسئلہ
سوال :
عورت کو ماہواری آنے کے بعد اگر خون بند ہو گیا ہے اور وہ صبح صادق کے بعد غسل کرے تو اس کا وہ روزہ ہوگا کہ اس روزے کی قضاء لازم آئے گی؟
(المستفتی : اسامہ عثمانی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی عورت صبح صادق سے پہلے حیض سے پاک ہوگئی تو اس میں درج ذیل تفصیل ہے :
الف : اگر وہ دس دن مکمل حیض میں رہ کر پاک ہوئی ہے تو اب خواہ صبح صادق سے قبل اسے غسل کا موقع اور وقت ملا ہو یا نہ ملا ہو بہرحال وہ اس دن کا روزہ رکھے گی۔
ب : اور اگر دس دن سے کم میں پاک ہوئی ہے تو یہ دیکھا جائے گا کہ صبح صادق سے پہلے پہلے وہ غسل کرکے پاک ہوسکتی ہے یا نہیں؟ اگر اتنا وقت ہے کہ پاک ہوسکے تو اس پر اس دن کا روزہ رکھنا ضروری ہوگا، اور اگر اتنا وقت نہیں ہے کہ غسل کرسکے گویا کہ عین صبح صادق کے وقت پاک ہوئی ہے تو اب اس پر اس دن کا روزہ رکھنا درست نہیں ہے، بلکہ بعد میں قضاء کرنی ہوگی۔
معلوم ہوا کہ دونوں صورتوں میں صبح صادق سے پہلے غسل کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ دوسری صورت میں صرف غسل کا وقت مل جانا کافی ہے۔ لہٰذا وہ اسی حالت میں سحری کرے گی۔ اور صبح صادق کے بعد غسل کرکے نماز فجر پڑھ لے گی۔ غسل میں بلاعذر شرعی اتنی تاخیر کرنا کہ نماز قضا ہوجائے سخت گناہ کی بات ہے۔ لہٰذا اس کا خیال رکھا جائے۔
ولو طہرت لیلاً صامت الغد إن کانت أیام حیضہا عشرۃ۔ (عالمگیری ۱؍۲۰۷)
وإن کانت أیام حیضہا دون عشرۃ فإن أدرکت من اللیل مقدار الغسل وزیادۃ ساعۃ لطیفۃ تصوم، وإن طلع الفجر مع فراغہا من الغسل لا تصوم لأن مدۃ الاغتسال من جملۃ الحیض فیمن کانت أیامہا دون العشرۃ۔ (عالمگیری ۱؍۲۰۷، ومثلہ فی التاتارخانیۃ زکریا ۳؍۴۲۹/بحوالہ کتاب المسائل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 رمضان المبارک 1441
منگل، 5 مئی، 2020
ہاف آستین کی شرٹ میں نماز کا حکم
*ہاف آستین کی شرٹ میں نماز کا حکم*
سوال :
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ پینٹ شرٹ اور ہاف آستین کی ٹی شرٹ پہن کر نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : انصاری محمد عاکف، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آدھی آستین کی شرٹ یا ٹی شرٹ پہننا خلاف اولٰی ہے، اس لئے کہ یہ مسنون لباس نہیں ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آستین گٹوں تک تھی۔ (شمائل الترمذی : ۸۸، باب ما جاء في صفة إزار، زاد المعاد : ۱/۱۴۲-۱۳۵)
آستین کہنی سے اوپر ہو تو اس صورت میں نماز پڑھنے کو فقہاء نے مکروہ تنزیہی قرار دیا ہے، اس لئے کہ یہ نماز کے احترام اور تقاضۂ ادب کے خلاف ہے۔ تاہم اس صورت میں بھی نماز ادا ہوجاتی ہے، اعادہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔
وَلَوْ صَلَّى رَافِعًا كُمَّيْهِ إلَى الْمِرْفَقَيْنِ كُرِهَ. كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١٠٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 جمادی الآخر 1440
تراويح ایک سلام سے چار یا آٹھ رکعت پڑھنا
*تراويح ایک سلام سے چار یا آٹھ رکعت پڑھنا*
سوال :
مفتی صاحب ایک سوال ہے کہ کیا تراویح کی نماز چار رکعت ایک سلام سے ۔ یا آٹھ رکعت ایک سلام سے پڑھی جا سکتی ہے؟ مع حوالہ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : ضیاء الرحمن، مالیگاؤں)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نمازِ تراويح بیس رکعتیں دس سلام کے ساتھ پڑھنا مسنون ومستحب ہے۔ اور اسی پر شروع سے عمل ہوتا آرہا ہے۔ البتہ اگر چار یا آٹھ رکعت ایک سلام سے پڑھ لی گئیں اور ہر دو رکعت پر تشہد کی مقدار قعدہ کیا گیا تو یہ تمام رکعتیں درست ہوجائیں گی اور تراويح میں شمار ہوں گی۔ لیکن بلا کسی عذر کے قصداً ایسا کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔
لہٰذا موجودہ حالات میں بھی صرف چند سیکنڈ کی تخفیف کے لیے خیر القرون سے چلے آرہے عمل کو ترک کرنا اور عوام کو تشویش میں مبتلا کرنا کراہت سے خالی نہیں ہے۔ لہٰذا اس سے احتراز کرنا چاہیے۔
(بعشر تسلیمات)فلو فعلھا بتسلیمة؛ فإن قعد لکل شفع صحت بکراھة وإلا نابت عن شفع واحد، بہ یفتی اھ، وفی الرد: قولہ: (وصحت بکراھة)أي: صحت عن الکل وتکرہ إن تعمد، وھذا ھو الصحیح کما فی الحلبة عن النصاب وخزانة الفتاوی خلافاً لما فی المنیة من عدم الکراھة؛ فإنہ لا یخفی ما فیہ لمخالفتہ المتوارث الخ، قولہ : (بہ یفتی) لم أر من صرح بھذا اللفظ ھنا، وإنما صرح بہ فی النھر عن الزاھدي فیما لو صلی أربعاً بتسلیمة وقعدة واحدة الخ۔ (الدر مع الرد، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲/ ۴۹۵، ۴۹۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 رمضان المبارک 1441