جمعرات، 14 مئی، 2020

قبلہ کی طرف پیر کرنا، تھوکنا اور استنجا کرنا

سوال :

قبلہ کی جانب پیر کرنا، تھوکنا، استنجاء کرنا اور اسی طرح قبلہ کی جانب کا احترام اس تعلق سے مفصل و مدلل جواب عنایت فرمائیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپکو بہترین جزاے خیر عطا فرمائے۔
(المستفتی : ڈاکٹر اسامہ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قبلہ کی طرف پیر کرکے سونا خلافِ ادب اور مکروہ تنزیہی ہے۔ یعنی اگر معمولی اور ہلکا سمجھتے ہوئے نہ ہو تو پھر گناہ تو نہیں ہے۔ تاہم احتراز بہرحال کیا جائے گا۔

حدیث شریف میں ہے :
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جس شخص نے قبلہ رخ تھوک دیا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا تھوک اس کی دنوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) ہوگا ۔

لہٰذا قبلہ کی طرف تھوکنا مکروہ (تحریمی) ہے۔ البتہ اگر قبلہ کی طرف منہ ہو مگر نیچے زمین کی طرف تھوکے تو اس میں کوئی کراہت نہیں، چنانچہ حدیث میں ہے کہ نماز میں تھوکنے کی ضرورت پیش آئے تو پاؤں کے نیچے تھوک دے، حالانکہ اسوقت نمازی قبلہ رُخ ہے اسکے باوجود نیچے کی طرف تھوکنے کی اجازت دی گئی ہے۔ (احسن الفتاوی : ٢/١٨)

قضائے حاجت کے وقت چہرہ یا پیٹھ  قبلہ کی طرف کرنے کی متعدد احادیث میں ممانعت آئی ہے، جس کی وجہ سے فقہاء نے اسے مکروہ تحریمی لکھا ہے، قضائے حاجت خواہ عمارت میں کی جائے یا میدان میں دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ البتہ جب میدان میں قضائے حاجت کے لیے بیٹھیں تو اس کا بھی خیال رکھا جائے گا کہ ہوا کہ رُخ پر نہ بیٹھیں کیونکہ اس کی وجہ سے پیشاب کے چھینٹوں سے ملوث ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ قبلہ کی طرف پیر کرنے کی بہ نسبت اس کی طرف تھوکنا اور بوقت قضائے حاجت اس طرف رُخ یا پیٹھ کرنا زیادہ سخت ہے۔

يُكْرَهُ أنْ يَمُدَّ رِجْلَيْهِ فِي النَّوْمِ وغَيْرِهِ إلى القِبْلَةِ أوْ المُصْحَفِ أوْ كُتُبِ الفِقْهِ إلّا أنْ تَكُون عَلى مَكان مُرْتَفِعٍ عَنْ المُحاذاةِ۔ (فتح القدیر : ١/٤٢٠)

عَنْ حُذَیْفَةَ رضي الله عنه أظُنُّهُ عَنْ رَسُولِ الله صلي الله عليه وسلم قَالَ مَنْ تَفَلَ تُجَاهَ الْقِبْلَةِ جَاء یَوْمَ الْقِیَامَةِ تَفْلُهُ بَیْنَ عَیْنَیْهِ۔ (أبوداؤد، رقم ١٦٨)

(كَمَا كُرِهَ) تَحْرِيمًا (اسْتِقْبَالُ قِبْلَةٍ وَاسْتِدْبَارُهَا لِ) أَجْلِ (بَوْلٍ أَوْ غَائِطٍ) .... (وَلَوْ فِي بُنْيَانٍ) لِإِطْلَاقِ النَّهْيِ۔ (شامی : ١/٣٤١)

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا جلس أحدکم علی حاجتہ فلا یستقبل القبلۃ ولا یستدبرہا۔ (صحیح بن خزیمۃ، رقم : ۱۳۱۳)

ویکرہ استقبال … مہب الریح لعودہ بہ فینجسہ۔ (مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي : ۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 رمضان المبارک 1441

3 تبصرے:

  1. ایک صاحب حیثیت شخص نے عیدالاضحی کے موقعے پر دو جانور خریدے ۔ اور دل میں یہ طٸے کر لیا کہ اس میں سے ایک جانور اپنے ایک غریب دوست کو بطور صدقہ یا ہدیہ دے دونگا ۔ تاکہ دوست کے گھر بھی قربانی ہںو جاٸے ۔ تو کیا اس طرح سے غریب دوست کی قربانی قبول ہںوگی ؟

    جواب دیںحذف کریں