منگل، 5 مئی، 2020

نمازِ تہجد باجماعت کا حکم

*نمازِ تہجد باجماعت کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ہماری مسجد میں تہجد کی نماز جماعت سے ہوتی ہے جسمیں اعتکاف کے ساتھی اور بستی کے کچھ ساتھی شریک ہوتے ہیں، یہ معمول دس بارہ سالوں سے جاری ہے، جس کی اجازت شہر کے ایک بڑے عالم دین سے لی گئی تھی، لیکن اب کچھ لوگوں کا اعتراض ہے کہ یہ مکروہ ہے، اس لئے تہجد با جماعت کو بند کیا جائے،
براہ کرم تفصیل کے ساتھ مدلل جواب عنایت فرمائیں کہ کیا تہجد باجماعت مکروہ ہے؟ اللہ تعالٰی آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔
(المستفتی : اسماعیل جمالی، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احناف کے نزدیک کوئی بھی نفل نماز بشمول تھجد باجماعت باالتداعی مکروہ ہے۔ (1)

تداعی کا مطلب یہ ہے کہ اس جماعت میں امام کے علاوہ تین افراد سے زیادہ شامل ہوں۔ (2)

مسئلہ ھذا میں علماء دیوبند میں سوائے شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی علیہ الرحمۃ کے بقیہ تمام حضرات کا اتفاق ہے، لہٰذا اسے حضرت مدنی علیہ الرحمۃ کا تفرد کہا جائے گا۔

چنانچہ اکابر علماء دیوبند کے فتاوی یہاں نقل کئے جاتے ہیں تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ یہ مسئلہ اختلافی نہیں بلکہ اس پر اتفاق ہے۔

علماء دیوبند کے سرخیل مفتی رشید احمد صاحب گنگوہی رحمہ اللہ اس مسئلہ میں تحریر فرماتے ہیں : نوافل کی جماعت تہجد ہو یا غیر تہجد سوائے تراویح و کسوف واستسقاء کے اگر چار مقتدی ہوں تو حنفیہ کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے، خواہ خود جمع ہوں خواہ بطلب آویں اور تین میں خلاف (اختلاف) ہے، اور دو میں کراہت نہیں، کذافی کتب الفقہ۔ (فتاوی رشیدیہ، جلد دوم ص۵۵)

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس اللہ سرہ شبینہ کے مفاسد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : مثلاً اگر تراویح کے بعد یہ عمل ہو تو نفل کی جماعت مجمع کثیر کے ساتھ ہونا، جو کہ مکروہ ہے۔ (امداد الفتاوی 300/1)

مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : نفل نماز باجماعت حنفیہ کے نزدیک سوائے ان چند نمازوں کے جن کی تصریح کردی گئی ہے (مثلا ً تراویح و نماز کسوف) مکروہ ہیں۔ (کفایت المفتی، 386/3)

فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں۔
۱) ایک امام ہواس کے پیچھے ایک یا دو مقتدی ہوں تو بلاتکلف درست ہے، تین مقتدی ہوں تب بھی گنجائش ہے، اس سے زیادہ مقتدی ہوں تو یہی تداعی ہے.
۲) بلا دعوت واعلان کے بھی، یہ صورت تداعی کی ہے۔ (فتاوی محمودیہ 209/9، مکتبہ جبریل)

مفتی عبدالرحیم صاحب لاجپوری رحمہ اللہ نے اس مسئلہ کو شرح و بسط کے ساتھ تحریر فرمایا ہے : تہجد کی نماز رمضان یا غیر رمضان میں باجماعت پڑھنے کا اہتمام نبی کریم ﷺاور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے منقول نہیں ہے، رمضان المبارک میں حضور اکرم ﷺکا معمول اعتکاف کا تھا لیکن آپﷺ نے صحابۂ کرام کے ساتھ تہجد باجماعت پڑھی ہو یہ ثابت نہیں، اس لئے فقہاء کرام لکھتے ہیں کہ تہجد وغیرہ نفل نماز باجماعت پڑھنا مکروہ ہے۔ بلا تداعی ایک دو مقتدیوں کے ساتھ مکروہ نہیں ہے، اس لئے کہ یہ حدیث سے ثابت ہے، اس سے زیادہ کا ثبوت وارد نہیں ہے. لہٰذا فقہاء لکھتے ہیں کہ امام کے ساتھ تین مقتدی ہونے میں اختلاف ہے اور چار یا اس سے زیادہ مقتدی ہوں تو بالاجماع نفل نماز باجماعت مکروہ ہے۔

یکرہ ذلک علیٰ سبیل التداعی بان یقتدی ارٍبعۃ بواحد (درمختار) (قولہ اربعۃ بواحد) اما اقتداء واحد بواحد اواثنین بواحد فلا یکرہ وثلاثۃ بواحد فیہ خلاف (السنن والنوافل مطلب فی کراھیۃ الا قتدآء علی سبیل التداعی الخ درمختار مع الشامی ص ۶۶۴ ج۱)

انوار الباری شرح صحیح بخاری میں حضرت علامہ محدث انور شاہ کشمیری قدس سرہ‘ کے شاگرد رشید مولانا سید احمد رضا بجنوری صاحب دامت فیوضھم تحریر فرماتے ہیں : فقہاء نے لکھا ہے کہ نوافل کی جماعت مکروہ ہے بجز رمضان کے اور اس سے مراد سنن تراویح ہیں، حضرت شاہ صاحب ؒ نے فرمایا کہ فقہاء کی اس عبارت سے جس نے مطلق نوافل رمضان سمجھا غلطی کی، لہٰذا تہجد کی جماعت تین سے زیادہ کی رمضان میں مکروہ ہوگی۔ (انوارالباری ج ۱ ص ۱۹۱۷حاشیہ)

اور شمس الائمہ سرخسی رحمہ اللہ نے تو وضاحت کی ہے۔
ان الجماعۃ لوکانت مستحبۃً فی حق النوافل لفعلہ المجتھدون القائمون باللیل لان کل صلوٰۃ جوزت علیٰ وجہ الا نفراد وبالجماعۃ کانت الجماعۃ فیھا افضل ولم ینقل اد اؤھا بالجماعۃ فی عصرہ ﷺولا فی زمن الصحابۃ رضوان اﷲ علیہم اجمعین ولا فی زمن غیرھم من التابعین وفالقول بھا مخالف للامۃ اجمع وھذا باطل۔
یعنی ! اگر نوافل باجماعت مستحب ہوتی تو رات میں عبادت کرنے والے تہجد گذار مجتہدین کا اس پر عمل ہوتا کہ وہ نماز جو تنہا اور باجماعت دونوں طریقہ سے ادا کرنا جائز ہے، اس کو باجماعت ادا کرنا افضل ہے۔ حالانکہ نوافل (تہجد وغیرہ) باجماعت ادا کرنا نہ تو آنحضرت ﷺ کے مبارک زمانہ میں منقول ہے نہ صحابہ رضوان ﷲ علیہم اجمعین کے زمانہ میں نہ تابعین وغیرھم کے زمانہ میں. لہٰذا یہ قول (کہ تراویح کی طرح تہجد وغیرہ دوسری نوافل رمضان المبارک میں بلا کراہت جائز ہے (یہ قول) تمام فقہاء کے خلاف ہے اور باطل ہے۔ (مبسوط سرخسی کتاب التراویح فی بحث رکعات التراویح ج۲ ص ۱۴۴)

حضرت مولانا مفتی یوسف صاحب لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے فتاوی میں تحریر فرماتے ہیں : امام ابوحنیفہ کے نزدیک نوافل کی جماعت (جبکہ مقتدی دو تین سے زیادہ ہوں) مکروہ ہے، اس لئے تہجد کی نماز میں بھی جماعت دُرست نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کی جماعت کرائی تھی، لیکن تہجد کی نماز باجماعت ادا کرنے کا معمول نہیں تھا۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل 2/62 مکتبہ جبریل)

صاحب نظام الفتاوی مفتی نظام الدین صاحب اعظمی تھجد باجماعت کے مسئلہ کو اختلافی کہنے والوں کے متعلق لکھتے ہیں : فتاویٰ رشیدہ ص:۲۹۹، میں لکھا ہوا مسئلہ بالکل صحیح ہے پس جب چار مصلی یا اس سے زیادہ مصلیوں کے ساتھ تہجد کی جماعت کی جائے گی تو یہ جماعت و نماز بکراہت تحریمی مکروہ ہوگی، اور یہ مسئلہ جمہور احناف کا ہے، اسے اختلافی کہنا صحیح نہیں ہے، کما صرح بہ فی الشامیۃ وغیرہا من کتب الفقہیۃ المعتبرۃ عندالاحناف۔ (نظام الفتاوی 22/6 مکتبہ جبریل)

جنوبی افریقہ کے مشہور عالم دین اور مفتی مولانا رضاء الحق صاحب سے حضرت مدنی علیہ الرحمۃ کے معمول کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : فتاویٰ رشیدیہ : ۲۹۹ ، میں امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی قدس سرہٗ نے لکھا ہے : نوافل کی جماعت تہجد ہو یا غیر تہجد سوائے تراویح وکسوف واستسقاء کے، اگر چار مقتدی ہوں تو حنفیہ کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے، خواہ خود جمع ہوں یا بطلب آویں، اور تین میں اختلاف ہے، اور دو میں کراہت نہیں ہے، کذا في کتب الفقہ۔
علامہ شامیؒ نے بھی تداعی ممنوعہ کا معیار تعداد کو بتایا ہے، جیسا کہ حضرت گنگوہیؒ نے لکھا ہے، بلانے نہ بلانے کو معیار نہیں بنایا ہے۔
حجت شرعیہ فقط چار ہیں : کتاب اللہ، سنت رسول اللہ، اجماع امت اور مجتہد کا قیاس، اس کے علاوہ کسی عالم کا قول وغیرہ حجت نہیں ہے۔ (فتاوی ریاض العلوم 225/2 مکتبہ جبریل)

ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر یہ جواب دیا گیا ہے جس کا فتوی نمبر 18453 ہے۔
تراویح، استسقاء اور کسوف کے علاوہ نوافل کی جماعت اگر علی سبیل التداعی ہو تو مکروہ تحریمی ہے، اور فقہائے کرام نے تداعی کا معیار مقرر فرمادیا ہے کہ ایک امام ہو اس کے پیچھے چار مقتدی یا اس سے زائد ہوں تو تداعی ہے۔
وحکي عن شمس الأئمة السرخسي أن التطوع بالجماعة علی سبیل التداعي مکروہ (فتاوی تاتارخانیة: ۱/۴۸۷)

بعض حضرات اس مسئلہ میں خانقاہوں کا حوالہ دیتے ہیں کہ فلاں خانقاہ میں اس کا معمول ہے، حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمہ ﷲ کیا فرماتے ہیں ملاحظہ فرمائیں :
’’افسوس ہزار افسوس!! بعضے از بدعتہا کو در سلاسل دیگر اصلاً موجودنیست دریں طریقہ علیہ احداث نمودہ اندو نماز تہجد جماعت میگزارند اطرا و جوانب درآں وقت مردم از برائے نماز تہجد جمع می گردند و بجمیعۃ تمام ادامی نمازیند وایں عمل مکروہ است بکراہت تحریمی ، جمعے از فقہا کہ تداعی شرط کراہت واشتہ اند جواز جماعت نفل رامقید بناحیۂ مسجد ساختہ زیادہ از سہ کس راباتفاق مکروہ گفتہ اند ۔
یعنی افسوس صد افسوس کہ جن بدعتوں کا دوسرے سلسلوں میں نام و نشان تک نہیں پایا جاتا وہ اس طریقہ عالیہ (مشائخ نقشبندیہ) میں نمودار ہوگئی ہیں۔ نماز تہجد کو جماعت سے ادا کرتے ہیں، اور گرد و نواح سے اس وقت لوگ تہجد کے واسطے جمع ہوجاتے ہیں، اور بڑی جمعیت سے ادا کرتے ہیں اور یہ عمل مکروہ ہے بکراہت تحریمی۔ حضرات فقہاء کی ایک جماعت جن کے نزدیک تداعی (یعنی ایک دوسرے کو بلانا) کراہت کی شرط ہے، ان کے نزدیک جواز جماعت کے لئے یہ قید ہے کہ وہ مسجد کے کونے میں ہو تین آدمیوں سے زیادہ کی جماعت کو بالا تفاق مکروہ کہا ہے۔ (مکتوبات امام ربانی جلد اول مکتوب ۱۳۱ ص ۱۴۴)

موجودہ زمانہ کے مشہور محقق اور جید عالم دین مفتی شبیر احمد صاحب قاسمی دامت برکاتہم نے اس مسئلہ کے ہر پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا ہے : حضرت سید الکونین علیہ الصلاۃ والسلام کی پوری زندگی میں صلاۃ کسوف، صلاۃ استسقاء اور حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے زمانہ سے صلاۃ التراویح کے علاوہ کسی بھی نفل نماز کا تین سے زائد مقتدیوں کے ساتھ باجماعت پڑھنا ثابت نہیں ہے، چنانچہ حضرت عتبان بن مالک کی روایت میں دو مقتدیوں کے ساتھ نفل پڑھنا ثابت ہے، جس میں حضرت ابوبکر اور حضرت عتبان بن مالک رضی اﷲ عنہم مقتدی بنے. اور حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی دو روایتیں ہیں، ایک میں عجوزہ یعنی بڑھیا اور خود حضرت انس رضی اﷲ عنہ اور ایک نابالغ یتیم بچے نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی اقتدا میں نفل نماز باجماعت پڑھی۔ اوردوسری روایت میں ان کی والدہ حضرت ام سلیم، حضرت انس رضی اﷲ عنہ اور یتیم بچہ کی اقتدا کا ذکر ہے، اب اگر نابالغ کو شمار کیا جائے تو تین مقتدی ہوں گے۔ اور اگر نابالغ کا اعتبار نہ کیا جائے تو دو مقتدی ہیں، اس لئے امام اعظم ابوحنیفہؒ کے نزدیک اگر دو مقتدی ہوں تو بلا تردد جائز ہے، اور اگر تین مقتدی ہوں تو حنفی فقہاء کے درمیان اختلاف ہے، بعض جائز کہتے ہیں، اس لئے کہ انہوں نے نابالغ کا بھی اعتبار کیا ہے۔ اور بعض مکروہ کہتے ہیں، اس لئے کہ انہوں نے نابالغ کا اعتبار نہیں کیا ہے، اس کے علاوہ پورے ذخیرۂ حدیث میں نفل نماز تین سے زائد مقتدیوں کے ساتھ باجماعت ادا کرنا پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام سے ثابت نہیں ہے، لہٰذا تین سے زائد مقتدی ہونے کی صورت میں علی سبیل التداعی میں شامل ہوگا، اور علی سبیل التداعی نفل نماز باجماعت باتفاق فقہائے احناف مکروہ ہے، صرف علامہ شامی علیہ الرحمہ نے بحث کرتے ہوئے اپنی رائے میں مکروہ تنزیہی لکھا ہے، جس کے پیش نظر مولانا ابوالوفاء افغانی نے بھی مکروہ تنزیہی لکھا ہے، ان کے علاوہ باقی کسی بھی حنفی مسلک کے فقیہ نے مکروہ تنزیہی نہیں کہا ہے، یا تو مطلقاً مکروہ کہا یا مکروہ تحریمی کہا ہے، جیسا کہ علامہ طحطاوی علیہ الرحمہ نے ’’طحطاوی علی الدر‘‘ میں مکروہ تحریمی لکھا ہے. اسی طرح مجدد الف ثانیؒ نے بھی مکروہ تحریمی لکھا ہے۔ اور اسی طرح حضرت گنگوہیؒ نے بھی مکروہ تحریمی لکھا ہے. اور مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند مفتی عزیز الرحمن صاحبؒ نے بھی مکروہ تحریمی لکھا ہے۔ اور اسی وجہ سے حضرت مفتی شفیع صاحبؒ اور ان کے صاحبزادہ مولانا مفتی تقی عثمانی مد ظلہ العالی نے بھی مکروہ تحریمی لکھا ہے، لہٰذا تہجد اور صلاۃ التسبیح کی نماز باجماعت پڑھنا جس میں تین سے زائد مقتدی ہوں مشروع نہیں ہے، بلکہ اکثر فقہاء کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے، اس لئے اس سے گریز کرکے اپنے آپ کو دور رکھنا ضروری ہے۔(3)

ذکر کردہ تمام فتاوی سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ تھجد باجماعت میں تین مقتدیوں سے زیادہ ہونا بالاتفاق مکروہ ہے، اور اس میں بھی تقریباً تمام علماء کرام کراہت تحریمی کے قائل ہیں، لہٰذا جن مساجد میں رمضان المبارک میں تھجد باجماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے انھیں چاہیے کہ یہ سلسلہ بند کردیں، اور اس مسئلہ میں حضرت مدنی علیہ الرحمۃ کے معمول کا حوالہ قطعاً نہ دیں، اس لئے کہ حضرت مدنی علیہ الرحمۃ محقق عالم تھے اور اپنے اس موقف پر انھوں نے براہ راست احادیث مبارکہ سے استدلال فرمایا تھا۔ لہٰذا یہ چیز ان کے لیے تو درست ہوسکتی ہے، لیکن ہم عوام کے لئے ضروری یہ ہے کہ ہم  اپنے اکابر میں سے ان کی اقتداء کریں جن کی رائے سلف سے منحرف نہ ہو اور اگر ان کی رائے سلف کی رائے سے الگ ہو تو ان کی اقتداء نہیں کرنا ہے چاہے وہ کتنے ہی بڑے عالم ہوں۔

واضح رہے کہ فقہاء کی نظر اس بات پر رہی ہے کہ جس چیز کو شریعت نے زیادہ اہمیت نہیں دی تو اس کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے سے بدعت کا دروازہ کھلتا ہے، اس لیے جس حد تک اجازت ہے اسی حد تک رہنا چاہیے اس سے تجاوز نہ کرنا چاہیے، مثلاً حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے تھجد کی جماعت میں تین سے زیادہ افراد کی امامت نہیں فرمائی ہے، اس لئے اس سے تجاوز کرنا بدعت کے دروازے کو کھولنے والا ہے۔

1) واعلم أن النفل بالجماعۃ علی سبیل التداعي مکروہ علی ما تقدم ما عدا التراویح وصلاۃ الکسوف والاستسقاء۔ (حلبي کبیر ۴۳۲ لاہور، ومثلہ في البحر الرائق ۲؍۵۲ کوئٹہ، بزازیۃ علی الفتاویٰ الہندیۃ ۴؍۲۹)

2) قال شمس الأئمۃ الحلواني: إن اقتدیٰ بہ ثلاثۃ لا یکون تداعیاً فلا یکرہ اتفاقاً، وإن اقتدیٰ بہ أربعۃ فالأصح الکراہۃ۔ (طحطاوي علی مراقي الفلاح ۱۵۶ کراچی)

3) وفي حدیث طویل عن عتبان بن مالک الأنصاري -رضي اﷲ عنہ- قال: فغدا علي رسول اﷲ ﷺ وأبوبکر معہ، بعد ما اشتد النہار، فاستأذن النبي ﷺ، فأذنت لہ، فلم یجلس حتی قال: أین تحب أن أصلي من بیتک؟ فأشار إلیہ من المکان الذي أحب أن یصلي فیہ، فقام، فصففنا خلفہ، ثم سلم وسلمنا حین سلم۔ (بخاري شریف، الصلاۃ، باب من لم یرد السلام علی الإمام واکتفی بتسلیم الصلاۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۱۱۶، رقم: ۸۳۲، ف: ۸۴۰، مسلم، المساجد، باب الرخصۃ في التخلف عن الجماعۃ بعذر، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۲۳۳، بیت الأفکار، رقم: ۲۶۳)

عن أنس -رضي اﷲ عنہ- قال: صلی النبي صلی اﷲ علیہ وسلم في بیت أم سلیم، فقمت ویتیم خلفہ، وأم سلیم خلفنا۔ (بخاري، شریف، الأذان، باب صلاۃ النساء خلف الرجال، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۱۲۰، رقم: ۸۶۳، ف: ۸۷۱، مسلم شریف، المساجد، باب جواز الجماعۃ في النافلۃ والصلاۃ علی حصیر وخمرۃ وثوب وغیرہا من الطہارۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۲۳۴، بیت الأفکار، رقم: ۶۵۸)

عن أنس بن مالک -رضي اﷲ عنہما- أن جدتہ ملیکۃ دعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم لطعام صنعتہ، فأکل منہ، فقال: قوموا فلأصلي بکم، فقمت إلی حصیر لنا قد اسود من طول مالبس، فنضحتہ بماء، فقام رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم والیتیم معي والعجوز من ورائنا، فصلی بنا رکعتین۔ (صحیح البخاري، کتاب الأذان، باب وضوء الصبیان، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۱۱۹، رقم: ۸۵۲، ف: ۸۶۰، صحیح مسلم ، المساجد، باب جواز الجماعۃ في النافلۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۲۳۴، بیت الأفکار، رقم: ۶۵۸)

وتطوع علی سبیل التداعي مکروہۃ۔ (درمختار) قال الطحطاوي: والتداعي أن یجتمع أربعۃ، فأکثر علی إمام ودون ذلک لا یکرہ إذا صلوا في ناحیۃ من المسجد کذا في القہستاني، ونقلہ في البحر عن الصدر الشہید، وظاہر إطلاقہ الکراہۃ أنہا التحریمیۃ۔ (طحطاوي علی الدر، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، کوئٹہ ۱/ ۲۴۰)

التطوع بالجماعۃ إذا کان علی سبیل التداعي یکرہ۔ (ہندیۃ، الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، زکریا قدیم ۱/ ۸۳، جدید ۱/ ۱۴۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
5 رجب المرجب 1439

1 تبصرہ:

  1. ماشاءاللہ بہت محنت اور شرح و بسط سے مسئلہ واضح کیا گیا ہے۔
    جزاکم اللہ خیرا الجزاء

    جواب دیںحذف کریں