منگل، 19 مئی، 2020

مسجد کا کولر کرایہ پر دینا



سوال : 

محترم مفتی صاحب ! ان دنوں لاک ڈاؤن کے باعث مساجد میں صرف پانچ سات لوگ نماز ادا کر رہے ہیں جبکہ دیگر مصلیان الگ الگ مکانات یا جگہوں پر پانچ سات لوگوں کا گروپ بنا کر با جماعت نماز ادا کر رہے ہیں۔ ایک مسجد میں پانچ سات مصلی ہونے کے باعث صرف ایک ہی کولر استعمال ہو رہا تھا بقیہ رکھا تھا۔
دیگر مصلی حضرات جو کسی کے مکان یا کسی اور جگہ با جماعت نماز پڑھ رہے تھے وہ مسجد کا ایک ایک کولر لے کر چلے گئے اور پنج وقتہ نمازوں میں اسے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کو دیکھ کر اور لوگ بھی مساجد کے ذمہ داران سے تقاضہ کر رہے ہیں کہ ہم کو مسجد کا کولر عاریۃ دیا جائے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے ان ایام میں جب مصلی بٹ گئے ہیں تو کیا ان کو اس بات کی اجازت ہوگی کہ وہ مسجد کے لئے وقف شدہ کولر کو کسی دوسری جگہ لے جاکر پنج وقتہ نمازوں کے دوران استعمال کریں اور لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد اسے واپس کر دیں۔ کیا مساجد کے ذمہ داران کو اس طرح کی اجازت دینے کا اختیار ہے؟ اگر اس کا کچھ کرایہ مسجد کو دے دیا جائے تو اس صورت میں کیا حکم ہوگا؟ بینو و توجرو۔
(المستفتی : محمد عبداللہ، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسئلہ ھذا میں ایک بات اچھی طرح سمجھ لی جائے کہ مسجد کے لیے وقف کی ہوئی اشیاء مسجد کی حدود میں ہی استعمال کی جائے گی۔  اسے مسجد کے باہر کسی جگہ خواہ مسجد کے مصلیان کی راحت وآسانی کے لیے ہو دینا درست نہیں ہے۔ یعنی اگر کوئی یہ سمجھے کہ مسجد کا کولر مصلیان کی راحت کے لیے ہے، لیکن موجودہ حالات میں جبکہ مسجد میں نمازیوں کی تعداد کم ہے تو گھروں میں نماز پڑھنے والے مصلیان اسے گھر نہیں لے جاسکتے۔

 البتہ مسجد کی ایسی اشیاء جن کی مسجد کو ہر وقت ضرورت نہیں پڑتی، اگر متولی یا کمیٹی مناسب سمجھے، تو اِن چیزوں کو کرایہ پر دے کر مسجد کی آمدنی میں اِضافہ کرسکتی ہے۔

صورتِ مسئولہ میں جبکہ مسجد کے کولر کی ابھی ضرورت نہیں ہے، تو اسے دیگر مصلیان کو کرایہ پر دیا جاسکتا ہے۔ مفت میں دینے کی اجازت نہیں ہے۔ لہٰذا جنہیں مفت میں دیا گیا ہے ان سے کرایہ وصول کیا جائے اور آئندہ کسی کو بغیر کرایہ کے نہ دیا جائے، ورنہ ذمہ داران وقف کی املاک میں غیر شرعی تصرف کے گناہ گار ہوں گے۔ البتہ اگر موجودہ حالات میں اس کا مطالبہ کرنے والے افراد زیادہ ہوجائیں جس کی وجہ سے تنازعہ کا اندیشہ ہوتو پھر کسی کو نہ دیا جائے۔


قال الفقیہ أبو جعفر: إذا لم یذکر الواقف في صک الوقف إجارۃ الوقف، فرأی القیم أن یواجرہا ویدفعہا مزارعۃ فما کان أدر علی الوقف وأنفع للفقراء فعل۔ (خانیہ ۳؍۳۳۲ زکریا)

وإنما یملک الإجارۃ المتولي أو القاضي۔ (فتح القدیر / کتاب الوقف ۶؍۲۲۴ بیروت)

القیم إذا اشتری من غلۃ المسجد حانوتًا أو دارًا أن یستغل ویباع عند الحاجۃ جاز إن کان لہ ولایۃ الشراء۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الوقف / الفصل الثاني في الوقف علی المسجد وتصرف القیم وغیرہ في حال الوقف علیہ ۲؍۴۶۲، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۸؍۱۷۸ زکریا/بحوالہ کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 رمضان المبارک 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں