اتوار، 17 مئی، 2020

لاک ڈاؤن میں نمازِ عیدالفطر کیسے پڑھیں؟



✍ محمد عامر عثمانی ملی 
  (امام و خطیب مسجد کوہ نور) 

قارئین کرام ! وطنِ عزیز ہندوستان بالخصوص صوبۂ مہاراشٹر میں کرونا وائرس کو لے کر لاک ڈاؤن کا سلسلہ بڑھا دیا گیا جس کی وجہ سے ہمیں نمازِ عیدالفطر کی ادائیگی کے لئے عیدگاہوں پر جمع ہونے کی اجازت نہ ملے۔ اور ہمیں نماز جمعہ کی طرح نماز عیدالفطر بھی گھروں میں ادا کرنا پڑے۔ لہٰذا ایسی صورت میں نمازِ عید الفطر کیسے ادا کی جائے؟ اسی کے جواب میں پیشِ نظر مضمون ترتیب دیا گیا ہے تاکہ عوام سہولت اور آسانی کے ساتھ اس اہم عبادت کو انجام دے سکیں۔

        عام حالات میں نمازِ عیدین آبادی سے دور عیدگاہ میں ادا کرنا سنت مؤکدہ ہے۔ لیکن موجودہ لاک ڈاؤن کے حالات میں جبکہ مجمع جمع کرنے کی ممانعت ہے۔ لہٰذا جن علاقوں میں جمعہ اور عیدین کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں وہاں گھروں میں بھی نمازِ عیدالفطر ادا کی جاسکتی ہے۔ (دارالعلوم دیوبند سے بھی یہی فتوی آج جاری ہوا ہے) کیونکہ نماز عیدالفطر کے لیے بھی تقریباً وہی شرائط ہیں جو جمعہ کے لیے ہیں یعنی اس کی ادائیگی کے لئے مسجد یا عیدگاہ کا ہونا شرط نہیں ہے۔ نمازِ عید میں بھی امام کے علاوہ تین بالغ مرد ہوں۔ نمازِ عید کا وقت طلوع آفتاب سے تقریباً ۲۰؍ منٹ بعد  شروع ہو جاتا ہے اور نصف النہار عرفی یعنی زوال تک باقی رہتا ہے۔ لیکن اسے زوال کے قریب پڑھنا مکروہ ہے۔ 

*نمازِ عید کا طریقہ* 
نمازِ عید دو رکعت بغیر اذان واقامت کے ادا کی جاتی ہے۔ اس  کا  طریقہ  یہ ہے کہ نیت کے بعد تکبیرِ تحریمہ اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیں، ثنا پڑھیں، اس کے بعد دونوں ہاتھ اللہ اکبر کہتے ہوئے کانوں تک اٹھائیں اور چھوڑ دیں، دو مرتبہ ایسا کریں اور تیسری تکبیر کے بعد ہاتھوں کو کانوں تک اٹھائیں اور باندھ لیں۔ اس کے بعد تعوذ تسمیہ کرکے سورہ فاتحہ اور کوئی سورۃ پڑھیں، پھر رکوع سجدہ کرکے رکعت مکمل کرلیں۔ دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ اور کوئی سورۃ پڑھنے کے بعد رکوع میں نہ جائیں بلکہ یکے بعد دیگرے تین تکبیرات اس طرح ہوں کہ ہر مرتبہ ہاتھوں کو کانوں تک لے جاکر چھوڑ دیں، اس کے بعد چوتھی تکبیر میں ہاتھوں کو اٹھائے بغیر رکوع میں چلے جائیں اور بقیہ نماز  حسبِ معمول پوری کریں۔

عموماً نیت کے لیے لوگ بڑے پریشان ہوتے ہیں جبکہ دل میں یہ خیال لے آنا کافی ہے کہ میں امام کی اقتداء میں نماز عیدالفطر ادا کرتا/ کرتی ہوں۔ مزید کچھ کہنا ضروری نہیں۔

اگر جماعت میں عورت بھی ہوتو امام کے لیے عورت کی امامت کی نیت بھی کرنا ضروری ہے، اور اس کے لیے باقاعدہ الفاظ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ دل میں ارادہ ہونا کافی ہے۔

جس طرح مرد امام کی اقتداء میں قرأت کی جگہ خاموش رہتے ہیں اسی طرح عورتوں کے لیے بھی یہی حکم ہے، اور جہاں مردوں کے لئے دعا اور تسبیحات پڑھنے کا حکم ہے وہی حکم عورتوں کے لیے بھی ہے۔ 

نماز ودعا سے فراغت کے بعد دو خطبے دینا مسنون ہے، لہٰذا کرسی یا اسٹول وغیرہ رکھ لیا جائے، اور دونوں خطبوں کے درمیان اسی پر تین چھوٹی آیات کی تلاوت کے بقدر بیٹھ جایا جائے۔ ملحوظ رہے کہ عیدین میں جمعہ کی طرح خطبہ دینا شرط نہیں ہے، بلکہ مسنون ہے، یعنی اگر خطبہ نہ ہو تب بھی نماز عید ادا ہوجائے گی۔ لیکن قصداً خطبہ ترک کرنا مکروہ ہے۔

صاحبین ؒ کے نزدیک خطبہ کی کم سے کم مقدار تشہد کے بقدر ہے اس سے کم مکروہ ہے۔ لہٰذا حاضرین میں کوئی عالم یا خطبہ دینے کے  لائق شخص نہ ہوتو وہ دونوں خطبوں میں آیت الکرسی یا سورہ فاتحہ پڑھ لے تو خطبہ کی سنت ادا ہوجائے گی۔ نیز جب خطبہ ہورہا ہو اس وقت وہاں موجود افراد کا اسے خاموشی سے سننا واجب ہے۔

*عورتوں کے لیے نمازِ عید* 
عورتوں پر نمازِ جمعہ وعیدین واجب نہیں ہے، اور عام حالات میں انہیں عیدگاہوں اور مساجد میں جاکر نمازِ عید میں شریک ہونا بھی مکروہ اور سخت فتنہ کا سبب ہے، البتہ حرمین شریفین میں یا کسی ایسی جگہ جہاں فتنہ سے مکمل حفاظت ہو، اگر عورتیں عید کی جماعت میں شامل ہوجائیں تو جائز ہے۔ لہٰذا جہاں گھروں میں نمازِ عید ادا کی جارہی ہو، اس گھر کی خواتین اگر نماز میں شامل ہوجائیں تو یہ درست ہے۔ اگر نماز عید میں شریک نہ ہوسکیں تو نماز عید ہوجانے کے بعد تنہا تنہا بطور شکرانہ دو رکعت نفل نماز پڑھ سکتی ہیں۔

*نمازِ عید کا بدل* 
اگر کوئی تنہا ہو اور اُس کی نمازِ عید فوت ہوجائے اور کسی جگہ ملنے کی امید بھی نہ ہوتو اس کا بدل فقہاء نے لکھا ہے کہ وہ دو دو رکعت کرکے چار رکعت یا پھر صرف دو رکعت نماز چاشت عام نمازوں کی طرح ادا کرلے۔ خیال رہے کہ اس نماز کا پڑھنا مستحب ہے، واجب نہیں۔

*نماز عید سے متعلق اہم مسائل* 
اگر کوئی شخص ایک جگہ نمازِ عید پڑھا چکا ہے تو اب وہ دوسری جگہ جاکر عید کی نماز میں امامت نہیں کرسکتا ہے، اس لیے کہ اس کا واجب ادا ہوچکا ہے اب اگر وہ دوبارہ عید کی نماز پڑھے گا تو یہ نماز نفل ہوگی، جبکہ اس کی اقتداء کرنے والوں کی نماز واجب ہے تو یہ اقتداء المفترض خلف المتنفل کی قبیل سے ہوگا جو درست نہیں ہے۔ 

نماز عید میں مجمع زیادہ ہونے کے سبب سجدۂ سہو واجب ہوجانے پر بھی انتشار سے بچنے کے لیے سجدۂ سہو نہ کرنے کا حکم فقہاء نے لکھا ہے۔ لیکن لاک ڈاؤن میں جبکہ مجمع زیادہ نہ ہو اور سجدۂ سہو کرنے میں کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو اور سجدہ سہو واجب ہو جائے تو سجدۂ سہو کیا جائے گا، کیونکہ یہاں رخصت کا سبب باقی نہیں رہا۔

*خطبہ نمازِ عیدالفطر* 
ذیل میں دو م‍ختصر اور آسان خطبات نقل کیے جارہے ہیں، جنہیں پی ڈی ایف کی شکل میں بھی ارسال کیا جائے گا۔ اگر کوئی اسے آسانی سے پڑھ سکتا ہوتو سنت پر عمل ہوجائے گا، اگر اس کی استطاعت نہ ہوتو اوپر کی ہدایات کے مطابق عمل کرے۔

 *خطبہ اولٰی* 
اَللهُ أَکْبَرْاَللّٰهُ أَکْبَرْ لَآ اِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَکْبَرْ اَللّٰهُ أَکْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ۞الْحَمْدُ لِلَّهِ الْمُنْعِمِ الْاَکْبَرِ، وَفَّی الاُجُوْرَ وَبَثَّ السُّرُوْرَ بِیَوْمِ عِیْدٍ مُّنَوَّرٍ، اَللهُ أَکْبَرْاَللّٰهُ أَکْبَرْ لَآ اِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَکْبَرْ اَللّٰهُ أَکْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ، ۞ اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ، وَاَشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ ۞ اَمَّا بَعْدُ ! قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  :  إِنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا، وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ : فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَکَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَی الْحُرِّ وَالْعَبْدِ وَالذَّکَرِ وَالْأُنْثَی وَالصَّغِيرِ وَالْکَبِيرِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدّٰی قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاةِ ۞ اَللهُ أَکْبَرْاَللّٰهُ أَکْبَرْ لَآ اِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَکْبَرْ اَللّٰهُ أَکْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ ۞ فَأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم ۞ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِْ ۞ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ۞ اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ لِيْ وَلَكُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ فَاسْتَغْفِرُوْہُ، اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيمِْ ۞

*خطبہ ثانیہ* 
اَللهُ أَکْبَرْاَللّٰهُ أَکْبَرْ لَآ اِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَکْبَرْ اَللّٰهُ أَکْبَرْ وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ ۞ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُهٗ وَنَسْتَغْفِرُهٗ وَنُؤْمِنُ بِهٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئاٰتِ اَعْمَالِنَا مَن یَّهْدِهِ اللهُ فَلاَ مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ یُّضْلِلْهُ فَلاَ هَادِیَ لَهُ ۞ وَنَشْهَدُ أَنْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهٗ  لَا شَرِیْکَ لَهٗ ۞ وَنَشْهَدُ اَنَّ سَیِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ ۞ أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْم ۞ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِِْ۞ إِنَّ اللهَ وَمَلٰئِكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۞اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاَزْوَاجِهٖ وَذُرِّیَّتِهٖ وَصَحْبِهٖ اَجْمَعِیْن۞قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه و سلم، خَیْرُ اُمَّتِیْ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَهُمْ ۞ اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِکَ مِنْ الْجُنُونِ وَالْجُذَامِ وَالْبَرَصِ وَسَيِّئِ الْأَسْقَامِ۞ اَللَّهُمَّ ادْفَعْ عَنَّا الْبَلاَءَ وَالوَبَاءَ ۞ اِنَّ اللهَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْيِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ۞ سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ۞ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ۞ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۞

*عید کے دن معانقہ کرنا* 
عیدالفطر اور عیدالاضحٰی کے دن خصوصی طور پر معانقہ کرنا شریعت سے ثابت نہیں ہے، لہٰذا خاص عید کی نماز کے بعد گلے ملنے کو ضروری اور سنت سمجھنا اور اس پر مداومت اختیار کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی ضروری اور سنت سمجھے بغیر کرے تو اسے غلط بھی نہیں کہا جائے گا، گنجائش ہوگی۔ چنانچہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہی ہے جو محض عید کی خوشی اور مسرت کی وجہ سے آپس میں معانقہ و مصافحہ کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دیتے ہیں وہ اس کو عید کی سنت نہیں سمجھتے بلکہ محض محبت اور تعلق کا اظہار مقصود ہوتا ہے، جس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ البتہ موجودہ حالات میں جبکہ معانقہ اور مصافحہ سے وبائی مرض کے پھیلنے کا اندیشہ ہے، لہٰذا معانقہ اور مصافحہ سے اجتناب کیا جائے اور عید کے دن ملاقات ہونے پر " تقبل اللہ منا ومنکم" یا آپ کو "عید مبارک ہو" کہنے پر اکتفا کیا جائے۔


واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

2 تبصرے: