ہفتہ، 30 مئی، 2020

غیرمسلم کی اَرتھی لے جانے کا حکم



سوال :

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام بیچ اس مسئلے کے کہ ابھی لاک ڈاؤن کے سبب تبلیغی جماعت کو نشانہ بنا کر مسلمانوں کو بدنام کیا جارہا ہے جسکا اثر یہ ہیکہ غیروں میں نفرت بڑھ رہی ہے ایسے وقت میں شہر کھرگون میں ایک غیر مسلم کا انتقال ہوا مگر اسکے مذہب کا کوئی شخص آگے نہیں آیا تو پندرہ سولہ مسلمانوں نے اسکی ارتھی اٹھاکر شمشان گھاٹ پہنچایا (انہیں دیکھ کر کچھ غیر مسلم بھی آگئے) مگر مسلمانوں نے یہ سوچ کر کہ اس سے اچھا میسیج جائے گا نفرت ختم ہوگی انکا یہ عمل خالص اللہ واسطے تھا۔ پھر یہ ہوا کہ واٹس ایپ پر انکی تصویریں وائرل ہوئی اخبار میں آیا دوسرے ضلعوں سے اپنے اور پرائے بھی اس کام کی سراہنا کرنے لگے، تو کیا اخلاص کے ساتھ اس کام کی شریعت اجازت دیتی ہے؟
مالیگاؤں میں کافی وقت پہلے ایسے ہی عمل پر دوبارہ کلمہ اور نکاح پڑھوایا گیا ہے۔ مالیگاؤں میں اسکول کے بچوں کا ڈرامہ ہوا جسمیں مسلم بچوں کو غیروں کی مذہبی عبادت کرتے ہوئے دکھایا گیا ختم پر انکے والدین اور عوام تالی بجا کر ان بچوں کی سراہنا کی اور تعریف کی    تو ان تعریف کرنے والوں کو بھی دوبارہ کلمہ اور نکاح پڑھوایا گیا۔
پوچھنا یہ ہیکہ
1) ایسے حالات میں جبکہ نیت بھی خالص ہو شریعت اس کام کی اجازت دیتی ہے؟
2) اگر نہیں تو ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ 
3) جنہوں نے سراہنا اور تعریف کی ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟
4) اگر بے عزتی کے ڈر یا خاندانی حالات بگڑنے کے ڈر یا بیوی نا مانے تو کیا حکم ہے؟
5) اس عمل کے کرنے والے شخص کا پوچھنا ہے کہ جو لوگ پڑوسی یا دیہات کے رہنے والے یا غیروں کے وہاں نوکری کرنے والے کچھ خود کی رضا یا مجبوری سے جاتے ہیں انکا کیا؟
6) جناب کا یہ بھی پوچھنا ہے کہ سیاسی بڑے لیڈران یا وزیر(اندرا گاندھی راجیو گاندھی) وغیرہ کی موت پر تو بہت سارے مسلم کی شرکت اور مولانا لوگوں کوقرآن کی تلاوت کرتے ہوئے ٹی وی پر بتایا گیا تھا جسے دنیا کے لوگوں نے دیکھا۔

مفتیان کرام سے درخواست ہے کہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خوب باریک بینی سے مدلل مفصل مکمل شریعت کی روشنی میں اس مسئلے پر رہنمائی فرمائیں اور اللہ کے غضب اور آخرت کی پکڑ سے بچنے کا آسان راستہ بتاکر ممنون و مشکور ہوں۔
(المستفتی : حافظ محسن، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی مسلمان برضا ورغبت اور بشاشتِ قلبی کے ساتھ غیرمسلموں کا لباس پہنے، غیروں کی مشابہت اختیار کرے، اور ان کے جیسا کام کرے تو وہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں تجديدِ ایمان وتجديدِ نکاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ اگر اس عمل کی عظمت دل میں نہ ہو اور دینِ اسلام کی پوری عظمت قلب میں موجود ہو تو اس کے کفر کا فتوی تو نہیں دیا جائے گا، لیکن یہ صورت بھی ناجائز اور حرام ہے۔

1) تعلق کی بنیاد پر نیز حکمت، مصلحت اور مجبوری کے تحت غیرمسلم میت کے گھر والوں کو دلاسہ اور تسلی دینے کے لئے اُس کے گھر جانے اسی طرح براہ راست شمشان پہنچ کر دور کھڑے رہنے کی بھی گنجائش ہے، بشرطیکہ مزید کوئی اور فعل انجام نہ دے۔ البتہ اس کی تجہیز وتکفین اور جنازہ کو کاندھا دینے، اس کے ساتھ چلنے اور اُس کے جلانے میں شرکت کرنے یا اِس سلسلہ میں اُس کا مالی تعاون کرنے کی شرعاً اِجازت نہیں ہے، اِس لئے کہ یہ چیزیں اُن کے مذہبی شعائر میں داخل ہیں، اگر کوئی مسلمان اس میں شرکت کرے تو وہ سخت گناہ گار ہوگا، جس کے لیے اس پر توبہ و استغفار ضروری ہوگا۔ لہٰذا مسئولہ صورت میں بھی ان اعمال کے کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔

یہاں ایک مسئلہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمانوں کو اگر کوئی غیرمسلم میت ملے اور اس کی آخری رسومات ادا کرنے والا کوئی غیرمسلم نہ ہو تب بھی مسلمانوں کے لیے حکم یہی ہے وہ اسے مسلمانوں کے قبرستان کے علاوہ کسی اور جگہ مسنون کفن اور نماز جنازہ کے بغیر گڑھا کھود کر دفن کردیں۔ مسلمانوں کے لیے کسی بھی میت کو جلانا جائز نہیں ہے کہ یہ انسانی عظمت اور کرامت کے خلاف ہے۔


2) جن لوگوں نے یہ عمل کرلیا ہے ان پر ندامت کے ساتھ توبہ و استغفار لازم ہے، اور آئندہ اس ناجائز فعل سے دور رہنا ضروری ہے۔

3) جن لوگوں نے اس ناجائز عمل کی سراہنا اور تعریف کی ہے وہ بھی سخت گناہ گار ہوئے ہیں، لہٰذا ان پر بھی توبہ و استغفار ضروری ہے۔

4) جب تجدیدِ ایمان ونکاح ضروری نہیں رہا تو پھر اس سوال کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔

5) جواب نمبر ایک کا بغور مطالعہ اسی میں جواب موجود ہے۔

6) جواب نمبر ایک کے تحت جن اعمال میں شرکت کو ناجائز کہا گیا ہے اس کا اطلاق یہاں بھی ہوگا، نیز کسی غیرمسلم کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ 
   

کما استفید من عبارۃ الہندیۃ یکفر بوضع قلنسوۃ المجوس علی رأسہ علی الصحیح إلا لضرورۃ دفع الحر والبرد…خدیعۃ في الحرب وطلیعۃ للمسلمین۔ (ہندیۃ، الباب التاسع، فصل في أحکام المرتدین، جدید ۲/۲۸۷) 

ولو شبہ نفسہ بالیہود والنصاریٰ أی صورۃ أو سیرۃ علی طریق المزاح والہزل أي: ولوعلی ہذا المنوال کفر۔ (شرح الفقہ الأکبر،ص : ۲۲۷، ۲۲۸، فصل في الکفر صریحا وکنایۃ، یاسر ندیم، دیوبند)

وإن كانت نيته الوجه الذي يوجب التكفير لا تنفعه فتوى المفتي، ويؤمر بالتوبة والرجوع عن ذلك وبتجديدالنكاح بينه وبين امرأته كذا في المحيط۔ (الفتاوی الہندیۃ : ۲؍۲۸۳، کتاب السیر، الباب العاشر في البغاۃ)

عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من کثر سواد قوم فہو منہم، ومن رضي عمل قوم کان شریکًا في عملہ۔ (کنز العمال / کتاب الصحبۃ من قسم الأقوال ۲؍۱۱ رقم: ۲۴۷۳۰)

ویجوز عیادۃ الذمي، کذا في التبیین۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الرابع عشر ۵؍۳۴۸)

وقال علیہ السلام : من تشبہ بقوم فہو منہم وفي البذل: قال القاري أي: من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار فہو منہم أي في الإثم أو الخیر عند اللہ تعالی (بذل المجہود: ۱۲/ ۵۹ باب في لبس الشہرة)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی
16 شوال المکرم 1441

3 تبصرے:

  1. ماشاء اللہ بہت خوب جناب مفتی صاحب
    اللہ تعالیٰ حضرت کے علم و عمل میں خوب برکت عطا فرمائے آمین یارب العالمین

    جواب دیںحذف کریں