پیر، 11 مئی، 2020

لاک ڈاؤن میں عام مصلیان کے لیے مسجد کھولنے کے لیے ذمہ داران پر دباؤ بنانا



سوال :

کیا فرماتے ہے علماء دین اس مسئلے پر کے آج پوری دنیا میں کرونا وائرس کی وباء پھیلی ہوئی ہے جو ہمارے ملک میں اور ہمارے شہر مالیگاوں میں بھی یہ وبائ مرض پھیلا ہوا ہے اس وباء کی وجہ سے پورے ملک میں حکومت وقت کی طرف سے لاک ڈاون اور دفعہ 144 لگایا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے دھارمک استھانوں جیسے مسجدوں میں بھی کئی افراد کے ایک ساتھ نماز پڑھنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔صرف پانچ ذمہ دار لوگوں کو  مسجد میں نماز پڑھنے کی ہی اجازت ہیں۔ اس وجہ سے ہمارے علماء کرام نے بھی اعلان کیا ہے کہ مسجدوں میں بھیڑ نہ کی جائے اور صرف پانچ لوگ ہی نماز ادا کرے۔ لیکن ایسے حالات میں کچھ لوگ مسجد کھلی رکھنے کیلئے اور محلے کے لوگوں کو مسجد میں نماز پڑھنے دینے کیلئے مسجد کے ذمہ داران پر دباؤ ڈال رہے ہیں اور ضد کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مسجد میں لوگوں کے نماز پڑھنے پر قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور مسجد پر پولس کی طرف سے کوئی کاروائی ہوتی ہے اور کیس بنتا ہے یا کرونا وائرس سے مسجد میں کوئی متاثر ہوتا ہے تو اس کی پوری ذمہ داری ہم لیتے ہیں۔ مسجد میں نماز پڑھنے سے لوگوں کو روکنا گناہ ہے اور مسجد کے ٹرسٹیان اور ذمہ دار لوگ اس گناہ کے ذمہ دار ہونگے۔
       تو کیا ایسے حالات میں مسجد کے ٹرسٹیان اور ذمہ داروں پر دباؤ ڈال کر لوگوں کا مسجد میں نماز پڑھنا یا پڑھوانا صحیح ہے یا غلط۔
مسجد کے ٹرسٹیان و ذمہ داروں پر دباؤ ڈال کر اور ضد کرکے مسجد میں  نماز پڑھوا رہے ہیں تو اس صورت میں نماز ہوگی یا نہیں؟ مفصل جواب مرحمت فرمائے نوازش ہوگی۔
فقط
1) اقبال احمد جان محمد 
2) حاجی عارف خان یونس خان
 مالیگاوں (ناشک)
---------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کرونا وائرس کو لے کر پورے ہندوستان میں لاک ڈاؤن ہے جس کی وجہ سے مساجد میں پانچ افراد کے نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اور یہ لوگوں کو مسجد سے روکنا نہیں ہے، بلکہ احتیاطی تدابیر کا حصہ ہے جس کی شریعت میں گنجائش موجود ہے۔ لہٰذا مسجد میں پانچ افراد سے زیادہ لوگوں کو نماز پڑھنے سے منع کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔

اسی طرح عام مصلیان کے لیے مسجد کھلوانے کی ضد کرنا اور مصلیان کا مسجد کے ذمہ داران پر دباؤ بنانا بھی درست نہیں ہے، کیونکہ ذمہ داران کوئی غیرشرعی فعل نہیں کررہے ہیں، بلکہ وہ ایک جائز حکم پر عمل پیرا ہیں، جبکہ عام مصلیان کے لئے مسجد کھولنے میں قانوناً گرفت کا بھی خطرہ ہے، جس کی وجہ سے امام و مؤذن نیز ذمہ داران قانونی دشواریوں میں پھنس سکتے ہیں، لہٰذا ایسے مصلیان کی باتوں پر کان دھرنے کی ضرورت کی ضرورت نہیں۔ 

تاہم اگر کسی مسجد میں مصلیان کے دباؤ پر مسجد عام مصلیان کے کھول دی گئی تو ان کی نماز تو مسجد میں بلاکراہت درست ہوجائے گی۔ البتہ خدانخواستہ اگر کوئی قانونی گرفت ہوئی اور مسجد پر کوئی کارروائی ہوئی تو اس کا سارا وبال اور گناہ ان مصلیان پر ہوگا جو عام مصلیان کے لئے مسجد کھلوانے کی ضد کررہے تھے اور ذمہ داران پر دباؤ بنا رہے تھے۔ لہٰذا انہیں اس بے جا ضد سے باز رہنا چاہیے، اور گھروں پر نماز پڑھنا چاہیے کہ یہی حالات کا تقاضا ہے۔


اَلضَّرُورَاتُ تُبِيحُ الْمَحْظُورَاتِ۔ (الاشباہ والنظائر : ۱۴۰، الفن الاول)

عن أبي هريرة، عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: المسلم من سلم الناس من لسانه ويده، والمؤمن من أمنه الناس على دمائهم وأموالهم۔ (سنن النسائي: ۲؍۲۶۶، رقم الحدیث : ۴۹۹۵، کتاب الإیمان و شرائعہ،باب صفۃ المؤمن، دیوبند)

عن تمیم الداري رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن الدین النصیحۃ، إن الدین النصیحۃ، إن الدین النصیحۃ، قالوا لمن یا رسول اللّٰہ! قال: للّٰہ وکتابہ ورسولہ وأئمۃ المسلمین وعامتہم۔ (سنن أبي داؤد ۲؍۶۷۶ رقم: ۴۹۴۴)

والنصیحۃ لعامۃ المسلمین، إرشادہم إلی مصالحہم۔ (بذل المجہود ۱۳؍۳۴۶ دار البشائر الإسلامیۃ) فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 رمضان المبارک 1441

3 تبصرے:

  1. نہایت آسان لفظوں میں اہم مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے آپ نے
    مبارکباد قبول کریں 🌹🌹🌹

    جواب دیںحذف کریں
  2. جزاكم اللّٰہ خيراً و احسن الجزاء ،بہت خوب مفتی صاحب بہترین انداز میں رہنمائی فرمائی، اللّٰہ تبارک و تعالٰی آپ کے علم میں خوب برکت عطا فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں