سوال :
کرونا نامی وائرس نے گذشتہ سال سے تباہی مچائی ہے جس کا نتیجہ ہم سب نے دیکھا کہ کیا نکلا؟ تعلیمی سال کا آغاز ہوچکا ہے اور خاص کر سینئر کالج کے طلبہ کی کلاسیس شروع ہوچکی ہیں۔ اس درمیان طلباء سے کہا جارہا ہے کہ جنہوں نے کورونا ویکسین نہیں لی ہے وہ ڈوز ضرور لیں۔
بہت سے طلباء ڈر سے اور کچھ نے یہ کہا کہ مولانا لوگ منع کررہے ہیں، تو کیا ویکسین لیا جاسکتا ہے؟ ویکسین کا نہ لینا کتنا نقصان دہ ہے اور ویکسین کا لینا کتنا نقصان دہ ہے اس پر تفصیلی نوٹ ڈالئے۔ کیونکہ طلباء تذبذب کا شکار ہیں اور آئندہ دو تین دنوں میں ہی ویکسین کا کیمپ کالج میں لگنے والا ہے۔
(المستفتی : عمار انصاری، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعت اور حالات پر نظر رکھنے والے علماء كرونا وائرس کے دفاع کے لیے ویکسین لینے کو مطلقاً ناجائز نہیں کہہ رہے ہیں، بلکہ اس کی درج ذیل صورتیں بیان کی جاتی ہیں۔
١) اگر کرونا ویکسین پیشگی علاج کے طور پر لگائی جائے تو اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر کوئی ماہر دین دار ڈاکٹر اس بات کی تصدیق کردے کہ یہ مضر صحت نہیں ہے اور تجربے سے اس کا مفید ہونا ثابت ہوجائے، نیز اس میں کوئی حرام یا ناپاک چیز کے شامل ہونے کا علم نہ ہو تو اس کا لگانا جائز ہے۔
٢) اگر اس میں حرام یا ناپاک اجزاء کے شامل ہونے اور اس کی اپنی اصل ہیئت پر باقی رہنے کا علم ہوتو اس صورت میں پیشگی علاج کے طور پر اس کا استعمال جائز نہ ہوگا۔
٣) اگر کرونا وائرس سے متاثر مریض کی دوا کے لیے ویکسین ہو اور کوئی ماہر دین دار ڈاکٹر اس بات کی تصدیق کردے کہ یہ مضر صحت نہیں ہے اور نہ ہی اس میں حرام یا ناپاک اجزاء شامل ہیں تو مریض کے علاج کے لیے اس کا لگانا جائز ہے۔ اور اگر حرام یا ناپاک اجزاء کے شامل ہونے اور اس کی اپنی اصلی ہیئت پر باقی رہنے کا علم ہوتو پھر اس کا لگانا جائز نہیں۔
٤) اور اگر اس میں حرام یا ناپاک اجزاء شامل ہوں تو اس صورت میں اگر مسلمان ماہر دین دار ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ اس بیماری کا علاج کسی بھی حلال چیز سے ممکن نہیں ہے، بلکہ یہی حرام یا ناپاک اجزاء ملی دوا ضروری ہے اور تجربے سے اس کا مفید ہونا ثابت ہوجائے تو مجبوراً ایسی ویکسین لینا جائز ہوگا۔
ہمارے یہاں فی الحال جو ویکسین لگائی جارہی ہے اس کا حکم اوپر بیان کی گئی پہلی صورت کا ہے۔ یعنی اس کا لگانا صرف جائز ہے۔ فرض یا واجب نہیں۔ نیز اس کے سائڈ ایفیکٹ بھی سامنے آئے ہیں، لہٰذا اسے پیش نظر رکھتے ہوئے اگر کوئی نہ لگائے تو شرعاً اس پر کوئی گناہ بھی نہیں، چنانچہ اس کے لیے کسی کو مجبور کرنا بھی درست نہیں۔
(لِانْقِلَابِ الْعَيْنِ) فَإِذَا صَارَ مِلْحًا تَرَتَّبَ حُكْمُ الْمِلْحِ. وَنَظِيرُهُ فِي الشَّرْعِ النُّطْفَةُ نَجِسَةٌ وَتَصِيرُ عَلَقَةً وَهِيَ نَجِسَةٌ وَتَصِيرُ مُضْغَةً فَتَطْهُرُ، وَالْعَصِيرُ طَاهِرٌ فَيَصِيرُ خَمْرًا فَيَنْجُسُ وَيَصِيرُ خَلًّا فَيَطْهُرُ، فَعَرَفْنَا أَنَّ اسْتِحَالَةَ الْعَيْنِ تَسْتَتْبِعُ زَوَالَ الْوَصْفِ الْمُرَتَّبِ عَلَيْهَا۔ (شامی : ١/٣٢٧)
الْيَقِينُ لاَ يَزُول بِالشَّكِّ۔ (الاشباہ والنظائر : ۱/۲۲۰)
مَعْنَى هَذِهِ الْقَاعِدَةِ أَنَّ مَا ثَبَتَ بِيَقِينٍ لاَ يَرْتَفِعُ بِالشَّكِّ، وَمَا ثَبَتَ بِيَقِينٍ لاَ يَرْتَفِعُ إِلاَّ بِيَقِينٍ، وَدَلِيلُهَا قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ فِي بَطْنِهِ شَيْئًا فَأَشْكَل عَلَيْهِ، أَخَرَجَ مِنْهُ شَيْءٌ أَمْ لاَ؟ فَلاَ يَخْرُجَنَّ مِنَ الْمَسْجِدِ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا۔
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَال: قَال رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلاَتِهِ فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى أَثَلاَثًا أَمْ أَرْبَعًا؟ فَلْيَطْرَحِ الشَّكَّ، وَلْيَبْنِ عَلَى مَا اسْتَيْقَنَ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ٤٥/٥٧٩)
الاستشفاء بالمحرم إنما لا یجوز إذا لم یعلم أن فیہ شفائً، أما إذا علم أن فیہ شفائً، ولیس لہ دواء آخر غیرہ، فیجوز الاستشفاء بہ۔ (المحیط البرہاني، کتاب الاستحسان، الفصل التاسع عشر في التداوي، ۶؍۱۱۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 ربیع الاول 1443