اتوار، 31 اکتوبر، 2021

حقہ پینے کا شرعی حکم

سوال :

مفتی صاحب ! ایک سوال دریافت کرنا تھا کہ کیا حُقّہ پینا جائز ہے؟ موجودہ دور میں حقے کے الگ الگ فلیورز ملتے ہیں ان فلیورز کے بنانے میں مختلف قسم کے سینٹ اور فلاورز استعمال کیے جاتے ہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟
(المستفتی : حافظ بلال، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جس حقہ میں نشہ آور چیزیں نوش کی جاتی ہیں اس کا استعمال تو بلاشبہ ناجائز اور حرام ہے۔ اور جس حقہ میں صرف تمباکو ہو اس کا پینا مضر صحت ہونے کی وجہ سے مکروہ اور ممنوع ہے۔ اور اگر اس میں نشہ آور یا مضر صحت کوئی شئے نہ ہوتو اس کا استعمال جائز ہوگا۔ چنانچہ سوال نامہ میں بیان کیے گئے ان فلیور والے حقوں میں کوئی نشہ آور یا مضر صحت شئے نہ ہوتو ان کے استعمال کی گنجائش ہوگی۔ لیکن اس بات کا اندیشہ بھی ہے کہ بغیر نشے والا حقہ کہیں پینے والے کو نشہ والے یا پھر مضر صحت حقے تک نہ پہنچادے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ ایسے حقے کے استعمال سے بھی احتراز کیا جائے۔

(قَوْلُهُ فَيُفْهَمُ مِنْهُ حُكْمُ النَّبَاتِ) وَهُوَ الْإِبَاحَةُ عَلَى الْمُخْتَارِ أَوْ التَّوَقُّفُ. وَفِيهِ إشَارَةٌ إلَى عَدَمِ تَسْلِيمِ إسْكَارِهِ وَتَفْتِيرِهِ وَإِضْرَارِهِ۔ (شامی : ٦/٤٦١)

وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ۔ (سورہ بقرہ، آیت : ١٩٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 ربیع الاول 1443

ہفتہ، 30 اکتوبر، 2021

تمباکو کھانے کے بعد یا تمباکو منہ میں رکھ کر نماز پڑھنا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مقتدی یا امام تمباکو یا گٹکا وغیرہ کھا کر بغیر کلی کئے ایسے ہی نماز پڑھ لے یا پڑھادے یا منہ میں تمباکو وغیرہ رکھ کر نماز پڑھ لے یا پڑھا دے تو نماز ہو جائے گی یا نہیں؟ ذرا وضاحت سے بیان فرما دیں۔
(المستفتی : محمد مصروف، سہارنپور)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تمباکو یا گٹکا کھالینے کے فوراً بعد بغیر کلی کیے نماز پڑھنا یا پڑھانا مکروہ ہے، کیونکہ تمباکو اور گٹکے میں بدبو ہوتی ہے، جو فرشتوں کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لئے بھی اَذیت ناک اور تکلیف دہ ہے۔ لہٰذا اچھی طرح کلی کرکے اس کی بو زائل کرکے نماز پڑھنا چاہیے۔

نماز میں کھانا پینا عمل کثیر ہونے کی وجہ سے مفسد صلوۃ ہے۔ لہٰذا گٹکا یا تمباکو منہ میں رکھ کر نماز پڑھنا خواہ اس کو چبایا نہ جائے، تب بھی اس کا رس منہ جائے گا، جس کی وجہ سے نماز فاسد ہوجائے گی۔ اور ایسی نماز کا اعادہ ضروری ہوگا، اور اگر امام ایسا کرے تو اس کی اقتداء کرنے والے مصلیان کی نماز کا بھی اعادہ لازم ہوگا۔

عن جابر قال قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم : من أکل من ہذہ قال أول مرۃ الثوم ثم قال الثوم والبصل والکراث فلا یقربنا فی مساجدنا۔ (ترمذی، رقم : ۱۸۰۶)

ویکرہ لمن أراد حضور الجماعۃ ویلحق بہ کل مالہ رائحۃ کریہۃ ۔ (مرقاۃ : ۸/۱۹۵)

قال العلماء : ویلحق بالثوم کل مالہ رائحۃ کریہۃ من المأکولات وغیرہا ۔ (شرح الطیبی ،کتاب الصلوٰۃ ، باب المساجد، ۲/۲۳۳، تحت رقم الحدیث /۷۰۷)

عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَمَّنْ سَمِعَ عَطاءً قالَ: «لا يَأْكُلْ ولا يَشْرَبْ وهُوَ يُصَلِّي، فَإنْ فَعَلَ أعادَ۔ (المصنف لعبد الرزاق، رقم : ۳۵۷۹)

(و) يفسدها أيضًا (أكله وشربه) ولو ناسيًا لأن كل واحد منهما عمل كثير۔ (النہر الفائق : ١/٢٧٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 ربیع الاول 1443

جمعہ، 29 اکتوبر، 2021

ولادت پر ہونے والا خرچ شوہر یا والدین پر؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ شادی کے بعد پہلی ولادت کے لئے لڑکی کا اپنے والدین کے گھر جانے کا جو رواج ہے اسکی کیا شرعی حیثیت ہے؟ نیز اگر وہ چلی جاتی ہے یا اسکو بھیجا جاتا ہے تو کیا اس ولادت کا سارا خرچ لڑکی کے والدین کے ذمہ واجب ہے یا اسکے شوہر کی ذمہ داری رہے گی؟
(المستفتی : مولوی اویس، پونے)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : پہلے بچے کی ولادت کے وقت حاملہ کا میکہ جانا ایک تکلیف دہ رسم ہے۔ جس کا قرآن و حدیث سے کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اگر والدین برضا ورغبت اپنی بچی کی ولادت کا خرچ خود برداشت کرلیں تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن عوام کے ایک طبقہ میں اس رسم کو ضروری سمجھ لیا گیا ہے، والدین کی استطاعت ہو یا نہ ہو وہ اس رسم کو ادا کرنے کے لیے قرض بھی لے لیتے ہیں، اور لڑکے والے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ جبکہ شرعاً ولادت کے وقت اور اس کے بعد ہونے والے اخراجات کی ذمہ داری شوہر پر ہی ہے نہ کہ بچی کے والدین پر۔ لہٰذا شوہر کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا چاہیے۔ اور معاشرہ سے اس قبیح رسم کو ختم کرنا چاہیے۔ 

وَفِيهِ أُجْرَةُ الْقَابِلَةِ عَلَى مَنْ اسْتَأْجَرَهَا مِنْ زَوْجَةٍ وَزَوْجٍ وَلَوْ جَاءَتْ بِلَا اسْتِئْجَارٍ، قِيلَ عَلَيْهِ وَقِيلَ عَلَيْهَا. (قَوْلُهُ قِيلَ عَلَيْهِ إلَخْ) عِبَارَةُ الْبَحْرِ عَنْ الْخُلَاصَةِ: فَلِقَائِلٍ أَنْ يَقُولَ عَلَيْهِ؛ لِأَنَّهُ مُؤْنَةُ الْجِمَاعِ، وَلِقَائِلٍ أَنْ يَقُولَ عَلَيْهَا كَأُجْرَةِ الطَّبِيبِ .... وَيَظْهَرُ لِي تَرْجِيحُ الْأَوَّلِ؛ لِأَنَّ نَفْعَ الْقَابِلَةِ مُعْظَمَهُ يَعُودُ إلَى الْوَلَدِ فَيَكُونُ عَلَى أَبِيهِ تَأَمَّلْ۔ (شامی : ٣/٥٧٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 ربیع الاول 1443

بدھ، 27 اکتوبر، 2021

کرونا ویکسین لینے کا شرعی حکم

سوال :
کرونا نامی وائرس نے گذشتہ سال سے تباہی مچائی ہے جس کا نتیجہ ہم سب نے دیکھا کہ کیا نکلا؟ تعلیمی سال کا آغاز ہوچکا ہے اور خاص کر سینئر کالج کے طلبہ کی کلاسیس شروع ہوچکی ہیں۔ اس درمیان طلباء سے کہا جارہا ہے کہ جنہوں نے کورونا ویکسین نہیں لی ہے وہ ڈوز ضرور لیں۔
بہت سے طلباء ڈر سے اور کچھ نے یہ کہا کہ مولانا لوگ منع کررہے ہیں، تو کیا ویکسین لیا جاسکتا ہے؟ ویکسین کا نہ لینا کتنا نقصان دہ ہے اور ویکسین کا لینا کتنا نقصان دہ ہے اس پر تفصیلی نوٹ ڈالئے۔ کیونکہ طلباء تذبذب کا شکار ہیں اور آئندہ دو تین دنوں میں ہی ویکسین کا کیمپ کالج میں لگنے والا ہے۔
(المستفتی : عمار انصاری، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعت اور حالات پر نظر رکھنے والے علماء كرونا وائرس کے دفاع کے لیے ویکسین لینے کو مطلقاً ناجائز نہیں کہہ رہے ہیں، بلکہ اس کی درج ذیل صورتیں بیان کی جاتی ہیں۔

١)    اگر کرونا ویکسین پیشگی علاج کے طور پر لگائی جائے تو اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر کوئی ماہر دین دار ڈاکٹر اس بات کی تصدیق کردے کہ  یہ مضر صحت نہیں ہے اور تجربے سے اس کا مفید ہونا ثابت ہوجائے، نیز  اس میں کوئی  حرام  یا ناپاک چیز کے شامل ہونے کا علم نہ ہو تو اس کا لگانا جائز ہے۔ 

٢) اگر اس میں حرام یا ناپاک اجزاء کے شامل ہونے اور اس کی اپنی اصل ہیئت پر باقی رہنے کا علم ہوتو اس صورت میں پیشگی علاج کے طور پر اس کا استعمال جائز نہ ہوگا۔

٣)   اگر کرونا وائرس سے متاثر مریض کی دوا کے لیے ویکسین ہو  اور کوئی ماہر دین دار ڈاکٹر اس بات کی تصدیق کردے کہ یہ مضر صحت نہیں ہے اور نہ  ہی اس میں حرام یا ناپاک اجزاء شامل ہیں تو مریض کے علاج کے لیے اس کا لگانا جائز ہے۔ اور اگر حرام یا ناپاک اجزاء کے شامل ہونے اور اس کی اپنی اصلی ہیئت پر باقی رہنے کا علم ہوتو پھر اس کا لگانا جائز نہیں۔

٤) اور اگر اس میں حرام یا ناپاک اجزاء شامل ہوں تو اس صورت میں اگر  مسلمان  ماہر دین دار ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ   اس بیماری کا علاج کسی بھی حلال چیز سے ممکن نہیں ہے، بلکہ یہی حرام یا ناپاک اجزاء ملی دوا ضروری ہے  اور تجربے سے اس کا مفید ہونا ثابت ہوجائے تو مجبوراً ایسی ویکسین لینا جائز ہوگا۔

ہمارے یہاں فی الحال جو ویکسین لگائی جارہی ہے اس کا حکم اوپر بیان کی گئی پہلی صورت کا ہے۔ یعنی اس کا لگانا صرف جائز ہے۔ فرض یا واجب نہیں۔ نیز اس کے سائڈ ایفیکٹ بھی سامنے آئے ہیں، لہٰذا اسے پیش نظر رکھتے ہوئے اگر کوئی نہ لگائے تو شرعاً اس پر کوئی گناہ بھی نہیں، چنانچہ اس کے لیے کسی کو مجبور کرنا بھی درست نہیں۔

(لِانْقِلَابِ الْعَيْنِ) فَإِذَا صَارَ مِلْحًا تَرَتَّبَ حُكْمُ الْمِلْحِ. وَنَظِيرُهُ فِي الشَّرْعِ النُّطْفَةُ نَجِسَةٌ وَتَصِيرُ عَلَقَةً وَهِيَ نَجِسَةٌ وَتَصِيرُ مُضْغَةً فَتَطْهُرُ، وَالْعَصِيرُ طَاهِرٌ فَيَصِيرُ خَمْرًا فَيَنْجُسُ وَيَصِيرُ خَلًّا فَيَطْهُرُ، فَعَرَفْنَا أَنَّ اسْتِحَالَةَ الْعَيْنِ تَسْتَتْبِعُ زَوَالَ الْوَصْفِ الْمُرَتَّبِ عَلَيْهَا۔ (شامی : ١/٣٢٧)

الْيَقِينُ لاَ يَزُول بِالشَّكِّ۔ (الاشباہ والنظائر : ۱/۲۲۰)

مَعْنَى هَذِهِ الْقَاعِدَةِ أَنَّ مَا ثَبَتَ بِيَقِينٍ لاَ يَرْتَفِعُ بِالشَّكِّ، وَمَا ثَبَتَ بِيَقِينٍ لاَ يَرْتَفِعُ إِلاَّ بِيَقِينٍ، وَدَلِيلُهَا قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ فِي بَطْنِهِ شَيْئًا فَأَشْكَل عَلَيْهِ، أَخَرَجَ مِنْهُ شَيْءٌ أَمْ لاَ؟ فَلاَ يَخْرُجَنَّ مِنَ الْمَسْجِدِ حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا۔
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَال: قَال رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلاَتِهِ فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى أَثَلاَثًا أَمْ أَرْبَعًا؟ فَلْيَطْرَحِ الشَّكَّ، وَلْيَبْنِ عَلَى مَا اسْتَيْقَنَ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ : ٤٥/٥٧٩)

الاستشفاء بالمحرم إنما لا یجوز إذا لم یعلم أن فیہ شفائً، أما إذا علم أن فیہ شفائً، ولیس لہ دواء آخر غیرہ، فیجوز الاستشفاء بہ۔ (المحیط البرہاني، کتاب الاستحسان، الفصل التاسع عشر في التداوي، ۶؍۱۱۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 ربیع الاول 1443

پیر، 25 اکتوبر، 2021

کھونچر کی رسم کا شرعی حکم

سوال :

امید ہے آپ بخیر ہوں گے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ شادی کے دن دلہن جب اپنے گھر سے رخصت ہونے لگتی ہے تو اسے پانچ مٹھی چاول، ہلدی اور کچھ سکّے اور لوہے کی چند چیزیں ایک کپڑے میں باندھ کر دی جاتی ہیں۔ اس سے نیک شگون لیا جاتا ہے۔ (جو ایسا نا کرے اسے برا سمجھا جاتا ہے۔) جسے عرف عام میں کھونچر کہا جاتا ہے۔ شریعت میں اس طرح کی رسم کا کیا حکم ہے؟ کیا آپﷺ اور صحابہ کے زمانے میں اس قسم کی رسم ادا کی گئی ہے؟ بینوا وتوجروا۔
(المستفتی : حافظ ساجد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور عمل کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بالکل نہیں ہے۔ بلکہ ماضی قریب میں یہ فضول رسم کم پڑھے لکھے عوام کی طرف سے گھڑی گئی ہے۔ چونکہ اس پر عمل نہ کرنے پر برا بھی سمجھا جاتا ہے اور بدشگونی لی جاتی ہے۔ لہٰذا اس میں بدعقیدگی بھی پائی جارہی ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا اس جاہلانہ اور احمقانہ رسم کا ترک کردینا ضروری ہے۔

قال اللہ تعالٰی : وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ۔ (سورۃ التکویر، آیت : ۲۹)

وَكَانَ الْقَفَّال يَقُول بَعْدَهَا : أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ الأُْمُورَ كُلَّهَا بِيَدِ اللَّهِ، يَقْضِي فِيهَا مَا يَشَاءُ، وَيَحْكُمُ مَا يُرِيدُ، لاَ مُؤَخِّرَ لِمَا قَدَّمَ وَلاَ مُقَدِّمَ لِمَا أَخَّرَ۔ (الموسوعۃ الفھیۃ : ١٩/٣٩٨)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا عَدْوَی وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ۔ (صحیح البخاري، رقم : ۵۵۳۴)

عَنْ عَائِشَة، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ۔ (صحیح المسلم، رقم : ١٧١٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 ربیع الاول 1443

بچوں کی پیدائش پر حکومت کی طرف سے ملنے والی رقم کا حکم

سوال :

مفتی صاحب! گزشتہ کچھ مہینوں سے مستورات کو ڈیلیوری ہوتی ہے تو حکومت کی طرف سے پانچ ہزار روپیہ اکاؤنٹ میں آتا ہے۔ وہ پیسہ اپنے استعمال میں لینا کیسا ہے؟ رہنمائی فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : محمد مصطفی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حکومت کے فرائض میں سے ہے کہ وہ بوقت ضرورت غریب اور نادار رعایا کا تعاون کرے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں بچوں کی پیدائش کے بعد امداد کے نام پر حکومت کی جانب سے جو بھی تعاون مل رہا ہے اسے قبول کرنا شرعاً جائز ہے۔ اور جب یہ مال متعلقہ شخص کی ملکیت میں آجائے تو اس کا اپنے استعمال میں لینا یا کسی اور کو ہدیہ کردینا سب درست ہے۔

قَالَ الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي أَخْذِ الْجَائِزَةِ مِنْ السُّلْطَانِ قَالَ بَعْضُهُمْ يَجُوزُ مَا لَمْ يَعْلَمْ أَنَّهُ يُعْطِيهِ مِنْ حَرَامٍ قَالَ مُحَمَّدٌ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَبِهِ نَأْخُذُ مَا لَمْ نَعْرِفْ شَيْئًا حَرَامًا بِعَيْنِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَأَصْحَابِهِ، كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٤٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 ربیع الاول 1443

ہفتہ، 23 اکتوبر، 2021

کال ریکارڈ کرنے کا شرعی حکم

سوال :

سوال یہ ہیکہ کیا موبائل کال کی ریکارڈنگ کر سکتے ہیں؟ بعض مرتبہ سامنے والے کو پتہ نہیں ہوتا کہ اس کے کال کی ریکارڈنگ ہو رہی ہے۔ کیا اس کی اجازت لینا چاہیے؟ بعض لوگ اسے گناہ کبیرہ کہ رہے ہیں۔
(المستفتی : حافظ سلمان، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مخاطب کی اجازت کے بغیر کال ریکارڈنگ کرنا ہر صورت میں ناجائز نہیں ہے۔ اس نیت سے کسی کی کال ریکارڈ کرنا کہ بوقت ضرورت ثبوت کے طور پر کام آئے گی، شرعاً جائز ہے۔ اور اس وقت بھی صرف ان ہی لوگوں کو سنایا جائے جنہیں سنانا ضروری ہو، عام تشہیر نہ کی جائے۔ لہٰذا مطلقاً کال ریکارڈنگ کو کبیرہ گناہ کہنا درست نہیں۔ البتہ کسی کو بدنام کرنے کی غرض سے کال ریکارڈ کرکے سوشل میڈیا پر وائرل کر دینا جائز نہیں۔

قال اللہ تعالٰی : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ۔ (سورۃ الحجرات، آیت :۱۲)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ ؛ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ، وَلَا تَحَسَّسُوا ، وَلَا تَجَسَّسُوا، وَلَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَدَابَرُوا ، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا۔ (صحیح البخاری، رقم : ٦٠٦٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 ربیع الاول 1443

جمعہ، 22 اکتوبر، 2021

دیوالی کی مٹھائی کھانے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب ! دیوالی کے موقع پر بیوپاری لوگ پان سپاری کے نام پر کچھ مٹھائی وغیرہ کھلاتے ہیں اور کاروباری سمبندھ کی وجہ سے وہاں جانا پڑتا ہے تو ایسے میں کیا کرنا چاہیے؟
(المستفتی : محمد اسامہ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : دیوالی کے موقع پر ہندوؤں کی دعوت قبول کرنا اور اس میں شرکت کرنا جائز ہے۔ البتہ اس میں کھلائی جانے والی مٹھائی کے بارے میں اگر علم ہو کہ وہ دیوی دیوتاؤں پر چڑھائی گئی ہے تو اس کا کھانا ما اہل لغیر اللہ ہونے کی وجہ سے مطلقاً ناجائز اور حرام ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں چڑھاوے کی چیزوں کا حرام ہونا صراحتاً مذکور ہے۔

اور اگر اس مٹھائی کے چڑھاوے کے ہونے یا اس میں کسی حرام چیز کے ملے ہونے کا علم نہ ہوتو اس کے لینے اور کھانے کی گنجائش ہے۔ کیونکہ صحیح روایات سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا غیرمسلموں کے تحائف اور دعوت قبول کرنا ثابت ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
غیر مسلم کاروباری شخص کی طرف سے دیوالی کے موقع پر جو تحفہ دیا جائے، اگر وہ کسی حرام اور ناجائز چیز پر مشتمل نہ ہو، مثلاً : تحفے میں اگر مٹھائی ہو، تو وہ دیوی دیوتاؤں پر چڑھاوے کی نہ ہو، تو ایسا تحفہ قبول کرنے کی گنجائش ہے، لیکن غیر مسلم کے مذہبی تہوار کے موقع پر اُس کو تحفہ وغیرہ دینا جائز نہیں ہے، اس میں ایک گونہ مذہبی تہوار کی حمایت ہے۔ والإعطاء بسام النیروز والمہرجان لا یجوز، أی الہدایا باسم ہٰذین الیومین حرام۔ (الدر المختار ۴۸۵/۱۰زکریا)۔ (رقم الفتوی : 155931)

صورتِ مسئولہ میں آپ اوپر کی ہدایات کے مطابق عمل کرتے ہوئے ان کی دعوت قبول کرسکتے ہیں۔

قال اللہ تعالیٰ : حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ۔ (سورۃ المائدۃ : ۳)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ يَهُودِيَّةً أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَاةٍ مَسْمُومَةٍ، فَأَكَلَ مِنْهَا فَجِيءَ بِهَا فَقِيلَ أَلاَ نَقْتُلُهَا. قَالَ: (لاَ)  فَمَا زِلْتُ أَعْرِفُهَا فِي لَهَوَاتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ (صحيح البخاري، رقم : ٢٦١٧)

وَقَالَ سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ إِنَّ أُكَيْدِرَ دُومَةَ أَهْدَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ (صحيح البخاري، رقم : ٢٦١٦)

وَلَا بَأْسَ بِطَعَامِ الْمَجُوسِ كُلِّهِ إلَّا الذَّبِيحَةَ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٤٧)

الاصل فی الاشیاء الاباحۃ۔ (الاشباہ والنظائر : ۱؍۲۲۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 ربیع الاول 1443

خطبہ نکاح کا پڑھنا یا سننا واجب ہے؟

سوال :

خطبہ نکاح واجب ہے، اس جملے کی وضاحت فرمادیں نوازش ہوگی۔ لوگوں میں چہ میگوئیاں ہورہی ہیں کوئی کہتا ہے سنت ہے کوئی کہتا ہے واجب ہے۔
(المستفتی : حافظ مجتبی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : دو گواہوں کی موجودگی میں صرف ایجاب وقبول کرلینے سے نکاح  منعقد ہو جاتا ہے۔ خطبہ کی حیثیت نکاح میں مسنون ومستحب کی ہے۔ اس لئے بغیر خطبہ کے بھی نکاح درست ہو جاتا ہے، جیسا کہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک صحابی کا نکاح اور ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی پھوپھی حضرت امامہ کا نکاح بغیر خطبہ کے پڑھایا۔

معلوم ہوا کہ نکاح میں خطبہ کا پڑھنا واجب نہیں ہے۔ بلکہ جو لوگ مجلس نکاح میں موجود ہوں ان کے لیے خاموشی سے خطبہ نکاح کا سننا واجب ہے، اور بغیر کسی شرعی عذر کے اس دوران باتیں کرنا اور شور وغل کرنا ناجائز اور گناہ ہے۔

وقالَ التِّرْمِذِيّ : وقد قالَ بعض أهل العلم : إن النِّكاح جائِز بِغَيْر خطْبَة، وهُوَ قَول سُفْيان الثورى وغَيره من أهل العلم، قلت : وأوجبها أهل الظّاهِر فرضا واحْتَجُّوا بِأنَّهُ ﷺ خطب عِنْد تزوج فاطِمَة، رَضِي الله تَعالى عَنْها، وأفعاله على الوُجُوب، واسْتدلَّ الفُقَهاء على عدم وُجُوبها بقوله فِي حَدِيث سهل بن سعد : قد زوجتها بِما مَعَك من القُرْآن۔ (عمدۃ القاری : ٢٠/١٣٤)

فإن عقد الزواج من غير خطبة جاز، فالخطبة مستحبة غير واجبة، لما روى سهل بن سعد الساعدي أن النبي ﷺ قال للذي خطب الواهبة نفسها للنبي ﷺ: «زوجتكها بما معك من القرآن» ولم يذكر خطبة، وروى أبو داود بإسناده عن رجل من بني سليم قال : «خطبت إلى النبي ﷺ أمامة بنت عبد المطلب، فأنكحني من غير أن يتشهد» ولأن الزواج عقد معاوضة، فلم تجب فيه  خطبة  كالبيع۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ : ٩/٦٦١٨)

وَكَذَا يَجِبُ الِاسْتِمَاعُ لِسَائِرِ الْخُطَبِ كَخُطْبَةِ نِكَاحٍ وَخُطْبَةِ عِيدٍ وَخَتْمٍ عَلَى الْمُعْتَمَدِ۔ (شامی : ٢/١٥٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 ربیع الاول 1443

جمعرات، 21 اکتوبر، 2021

تمباکو، گٹکا وغیرہ کے استعمال اور اس کی تجارت کا حکم

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلے کے بارے میں جیسا کہ آج کل گٹکا تمباکو پان کھانا بیڑی سگریٹ پینا اور دوسری وہ چیزیں جن میں تمباکو کا استعمال ہوتا ہے انہیں استعمال کرنا عام سی بات ہوگئی ہے اور اس کا کاروبار بھی عام ہوگیا ہے شہر کے ہر چوک چوراہوں پر پان کی دوکانیں ہیں۔ آپ سے مسئلہ یہ پوچھنا ہیکہ کیا پان گٹکا تمباکو سگریٹ وغیرہ پان دوکان سے بیچنا یعنی کی ان کے ذریعہ سے روزی روٹی کرنا کاروبار کرنا کیسا ہے۔ اور اس کمائی کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیکر شکریہ کا موقع دیں۔
(المستفتی : محمد اسلم عبدالرزّاق شاہ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تمباکو، گٹکا، بیڑی، سگریٹ نشہ آور اشیاء میں سے نہیں ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اُن کی تیزی کی وجہ سے کبھی سر چکرانے لگتا ہے، لیکن عقل خبط اور ماؤف نہیں ہوتی، لہٰذا ان کے استعمال کو شرعاً حرام نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ یہ اشیاء مضرِ صحت ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان کا استعمال اور ان کی تجارت بھی شرعاً مکروہ ہے، تاہم ان کی آمدنی پر حرام کا حکم نہیں ہے۔

بالخصوص ان میں گٹکا زیادہ مضرِ صحت ہے، لہٰذا اس کی کراہت بھی سخت ہوگی۔ اور چونکہ اس کی تجارت پر حکومت کی طرف سے پابندی بھی لگی ہوئی ہے، اس لیے اس کاروبار میں جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کی خلاف ورزی بھی ہے، جو کہ شریعت کے مقاصد میں سے ہے، اسی طرح اس کاروبار کو آسانی سے چلانے کے لیے رشوت جیسے گناہ کا ارتکاب بھی کیا جاتا ہے۔ لہٰذا گٹکا کھانے اور اس کی تجارت سے بطور خاص بچنا چاہیے۔

نیز اگر خدانخواستہ ان اشیاء کے بے تحاشہ استعمال سے اگر کوئی بیمار پڑجائے اور کوئی ماہر ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ اب اس کا استعمال آپ کی جان لے لے گا تو ایسی صورت میں ان اشیاء کا استعمال حرام ہوجائے گا۔ کیونکہ جان بچانا شرعاً فرض ہے۔

(قَوْلُهُ فَيُفْهَمُ مِنْهُ حُكْمُ النَّبَاتِ) وَهُوَ الْإِبَاحَةُ عَلَى الْمُخْتَارِ أَوْ التَّوَقُّفُ. وَفِيهِ إشَارَةٌ إلَى عَدَمِ تَسْلِيمِ إسْكَارِهِ وَتَفْتِيرِهِ وَإِضْرَارِهِ۔ (شامی : ٦/٤٦١)

وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ۔ (سورہ بقرہ، آیت : ١٩٥)

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ۔ (سنن الترمذی، رقم : ١٣٣٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 ربیع الاول 1443