جمعرات، 21 اکتوبر، 2021

معتدہ کا حمل ساقط ہوجائے تو عدت کا حکم

سوال :

مفتی صاحب ایک مسئلہ در پیش ہے کہ ایک مطلقہ عورت
جس کو اسکے پہلے شوہر نے حالت حمل میں تیسری طلاق دی ہے اب اس عورت نے اپنا ابورشن کرایا ہے اور بغیر عدت گذارے دوسرا نکاح کر رہی ہیں اور نکاح کے ایک ہفتے بعد اس کی رخصتی ہے تو کیا اس عورت کا نکاح ہوگا؟
نوٹ : اس عورت کا نکاح کل ہی ہے اس لیے جلد رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : زید یوسفی، پونے)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم کے بیان کے مطابق معتدہ خواہ بیوہ ہو یا مطلقہ اس کی عدت وضع حمل ہے، یعنی جیسے ہی بچے کی ولادت ہوگی اس کی عدت مکمل ہوجائے گی۔ البتہ اگر حمل ضائع ہوجائے یا ضائع کرایا جائے تو اس کی درج ذیل دو صورتیں بنیں گی۔

پہلی یہ کہ اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی عضو مثلاً : ہاتھ، پیر، انگلی یا ناخن وغیرہ کی بناوٹ ظاہر ہوچکی ہو تو ایسی صورت میں حمل ضائع کیا جائے یا حمل ضائع ہوجائے تو حاملہ کی عدت مکمل ہوجائے گی۔ اور بچے کے اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہاء نے چار مہینے لکھی ہے، لہٰذا جو حمل چار مہینے پورے ہونے کے بعد ضائع ہوجائے یا ضائع کیا جائے تو ایسی حالت میں عدت مکمل ہونے کا حکم لگے گا، اس کے بعد مطلقہ یا بیوہ نکاح کرسکتی ہے۔ البتہ چار مہینے مکمل ہونے بعد اگر حمل ضائع کیا جائے تو یہ بڑا سنگین گناہ ہے، جس کی بہر صورت گنجائش نہیں ہے، لہٰذا اس سے بچنا بہت ضروری ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی بھی عضو کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، یعنی یہ حمل چار ماہ سے پہلے ضائع ہوجائے یا ضائع کیا جائے تو عدت کے گزرنے کا حکم نہیں لگے گا۔ لہٰذا اگر یہ عورت مطلقہ ہوتو تین ماہواری اور بیوہ ہوتو چار مہینہ دس دن اس کے لیے عدت گزارنا ضروری ہوگا، اس سے پہلے اس کا نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا، اور اگر نکاح کرلیا گیا تو نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا۔ نیز بلا کسی شرعی عذر کے حمل ضائع کیا گیا ہے تو اس کا گناہ الگ ہوگا۔

قال اللہ تعالیٰ : وَاُوْلَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلَہُنَّ اَنْ یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ۔ (سورۃ الطلاق، جزء آیت : ۴)

قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالیٰ : (وَسِقْطٌ) مُثَلَّثُ السِّينِ : أَيْ مَسْقُوطٌ (ظَهَرَ بَعْضُ خَلْقِهِ كَيَدٍ أَوْ رِجْلٍ) أَوْ أُصْبُعٍ أَوْ ظُفُرٍ أَوْ شَعْرٍ، وَلَا يَسْتَبِينُ خَلْقُهُ إلَّا بَعْدَ مِائَةٍ وَعِشْرِينَ يَوْمًا (وَلَدٌ) حُكْمًا ..... وَتَنْقَضِي بِهِ الْعِدَّةُ۔

وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ : (قَوْلُهُ أَيْ مَسْقُوطٌ) الَّذِي فِي الْبَحْرِ التَّعْبِيرُ بِالسَّاقِطِ وَهُوَ الْحَقُّ لَفْظًا وَمَعْنًى ...... وَأَمَّا مَعْنًى فَلِأَنَّ الْمَقْصُودَ سُقُوطُ الْوَلَدِ سَوَاءٌ سَقَطَ بِنَفْسِهِ أَوْ أَسْقَطَهُ غَيْرُهُ۔ (شامی : ١/٣٠٢)

وقال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالیٰ : وَإِذَا أَسْقَطَتْ سِقْطًا اسْتَبَانَ بَعْضُ خَلْقِهِ انْقَضَتْ بِهِ الْعِدَّةُ؛ لِأَنَّهُ وُلِدَ وَإِنْ لَمْ يَسْتَبِنْ بَعْضُ خَلْقِهِ لَمْ تَنْقَضِ؛ لِأَنَّ الْحَمْلَ اسْمٌ لِنُطْفَةٍ مُتَغَيِّرَةٍ بِدَلِيلِ أَنَّ السَّاقِطَ إذَا كَانَ عَلَقَةً أَوْ مُضْغَةً لَمْ تَنْقَضِ بِهِ الْعِدَّةُ؛ لِأَنَّهَا لَمْ تَتَغَيَّرْ فَلَا يُعْرَفُ كَوْنُهَا مُتَغَيِّرَةً بِيَقِينٍ إلَّا بِاسْتِبَانَةِ بَعْضِ الْخَلْقِ كَذَا فِي الْمُحِيطِ۔ (البحر الرائق : ٤/١٤٧)

وقال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ : وَفِي كَرَاهَةِ الْخَانِيَّةِ: وَلَا أَقُولُ بِالْحِلِّ إذْ الْمُحْرِمُ لَوْ كَسَرَ بَيْضَ الصَّيْدِ ضَمِنَهُ لِأَنَّهُ أَصْلُ الصَّيْدِ فَلَمَّا كَانَ يُؤَاخَذُ بِالْجَزَاءِ فَلَا أَقَلَّ مِنْ أَنْ يَلْحَقَهَا إثْمٌ هُنَا إذَا سَقَطَ بِغَيْرِ عُذْرِهَا۔ (شامی : ٣/١٧٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 ربیع الاول 1443

1 تبصرہ: