اتوار، 17 اکتوبر، 2021

پانی میں کرنٹ دے کر ماری گئی مچھلی کا حکم

سوال :

کیا پانی میں کرنٹ لگا کر ماری گئی مچھلی کھانا جائز ہے؟ اور پانی میں ہی مر جانے والی مچھلی کا کیا حکم ہے؟
(المستفتی : شمس العارفین، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حلال جانوروں میں سے دو جانور ایسے ہیں جنہیں مردہ ہونے کے باوجود کھانا جائز ہے، ایک جَراد جسے اردو میں ٹِدی کہتے ہیں، دوسرے مچھلی، ان دو جانوروں کے علاوہ اور کوئی حلال جانور ذبح کیے بغیر کھانا جائز نہیں ہے۔

چنانچہ ایسی مچھلی جو پانی میں کسی آفت کی وجہ سے مرگئی ہو مثلاً پانی کی گرمی، ٹھنڈک یا دوا کے چھڑکاؤ یا شکاری کے ہتھیار کی ضرب کی وجہ سے تو ایسی مچھلی کو مُردہ ہونے کے باوجود بھی کھانا درست ہے، اور پانی میں کرنٹ دے کر ماری گئیں مچھلیاں بھی اسی حکم میں ہیں، گویا کہ کرنٹ کے ذریعہ شکار کی جانے والی مچھلی   کو آفت کے ذریعہ  مارا گیا ہے، بالفاظِ دیگر  کرنٹ دینے میں انسان کا عمل دخل شامل ہوتا ہے، لہٰذا اس کا کھانا جائز ہے، خواہ یہ مچھلیاں مرنے کے بعد پانی کے اوپر آجائیں۔

البتہ ایسی مچھلی جو پانی میں اپنی طبعی موت مری ہو اس کا کھانا جائز نہیں، ایسی مچھلی (جسے سمک طافی کہا جاتا ہے) کی پہچان فقہاء نے یہ لکھی ہے کہ پانی میں اس کی پیٹھ نیچے اور پیٹ اوپر ہوجاتا ہے۔ اور اگر اس طرح نہ اُلٹی ہو تو وہ آفت کی وجہ سے مرنے والی سمجھی جائے گی اور اس کا کھانا درست ہوگا۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : أُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ : الْحُوتُ، وَالْجَرَادُ۔ (سنن ابن ماجہ، رقم : ٣٢١٨)

و لا يحل حيوان مائي إلا السمك الذي مات بآفة ۔۔۔۔ غير الطافي على وجه الماء الذي مات حتف أنفه و هو ما بطنه من فوق فلو ظهره من فوق فليس بطاف فيؤكل۔ (الدر المختار، كتاب الذبائح، ٢٢٩/٢ )فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 ربیع الاول 1443

1 تبصرہ: