جمعرات، 7 اکتوبر، 2021

طلاق کے بعد شوہر سے ایک بڑی رقم کا مطالبہ کرنا

سوال :

مفتی صاحب! ایک مسئلہ تھا کہ طلاق کے بعد لڑکی والوں نے لڑکے سے یہ کہا کہ تو نے میری بیٹی کو طلاق دیا ہے اس وجہ سے پانچ لاکھ روپے تجھے دینا ہوں گے۔ کیا ان کا یہ مطالبہ درست ہے؟
(المستفتی : انور بھائی، ویجاپور)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : طلاق کے بعد شریعتِ مطہرہ نے شوہر پر کچھ ذمہ داری عائد کی ہے، چنانچہ بیوی کی عدت (تین ماہواری اور اگر حاملہ ہوتو وضع حمل) کی مدت میں اس کے رہنے سہنے کھانے پینے کا خرچ شوہر پر واجب کیا گیا ہے، شوہر اپنی حیثیت کے اعتبار سے  عدت کا خرچہ ادا کرے گا، شریعت کی طرف سے اس کی کوئی مخصوص مقدار متعین نہیں ہے۔ اسی طرح اگر اولاد ہوں تو ان کے خرچ کا ذمہ دار بھی والد ہی ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں لڑکی والوں کا عدت کے خرچ اور بچے ہوں تو ان کے خرچ کے علاوہ شوہر سے مزید کسی چیز کا مطالبہ کرنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے جس پر قرآن و حدیث میں سخت ممانعت اور وعید وارد ہوئی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا۔ (سورۃ النساء، آیت : 29)
ترجمہ: اے ایمان والوں نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کے آپس میں ناحق مگر یہ کہ تجارت ہو آپس کی خوشی سے اور نہ خون کرو آپس میں بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔

اس کے بعد کی آیت میں ارشاد ربانی ہے :
وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا۔ (سورۃ النساء، آیت : 30)
ترجمہ: اور جو کوئی یہ کام کرے تعدی سے اور ظلم سے تو ہم اس کو ڈالیں گے آگ میں اور یہ اللہ پر آسان ہے۔

یعنی قرآنی ہدایت کے باوجود اگر کوئی شخص اس کی خلاف ورزی کرے اور جان بوجھ کر تعدی اور ظلم کی راہ سے کسی کا مال ناحق لے لے تو ایسا شخص جہنم کی آگ کا مستحق ہوگا۔

حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا خبردار کسی پر ظلم نہ کرنا جان لو کسی بھی دوسرے شخص کا مال لینا یا استعمال کرنا اس کی مرضی وخوشی کے بغیر حلال نہیں ہے۔ (دارقطنی)

ایک جگہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے لہٰذا وہ اس کے ساتھ خیانت کا معاملہ نہ کرے، جھوٹ نہ بولے اور اسے اپنی مدد و نصرت سے محروم نہ کرے، ہر مسلمان کی دوسرے مسلمان پر عزت، ومال اور خون حرام ہے۔ (ترمذی)

ذکر کردہ آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ ظلماً کسی کا مال لے لینا کبیرہ گناہ ہے اور ایسے لوگ سخت وعید کے حامل ہیں۔ لہٰذا لڑکی والوں کو اس سے بچنا ضروری ہے۔ اور اگر خدانخواستہ ایسا کرلیا گیا اور ناجائز طریقہ سے لڑکے سے مال لے لیا گیا تو اس مال کا لڑکے کو واپس کرنا ضروری ہے، ورنہ آخرت میں ان کی گرفت یقینی ہے جہاں مال کے بجائے نیکیوں اور برائیوں سے حساب برابر کیا جائے گا۔

وإذا طلق الرجل امرأتہ فلہا النفقۃ والسکنی۔ (ہدایہ، اشرفی دیوبند ۲/۴۴۳)

عَنْ أنَسِ بْنِ مالِكٍ، أنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قالَ : لا يَحِلُّ مالُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إلّا بِطِيبِ نَفْسِهِ۔ (سنن الدارقطني، رقم : ٢٨٨٥)

لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ أَخْذُ مَالِ أَحَدٍ بِغَيْرِ سَبَبٍ شَرْعِيٍّ۔ (شامی : ٤/٦١)

وَيَرُدُّونَهَا عَلَى أَرْبَابِهَا إنْ عَرَفُوهُمْ، وَإِلَّا تَصَدَّقُوا بِهَا لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ عَلَى صَاحِبِهِ۔ (شامی : ٩/٣٨٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 صفر المظفر 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں