ہفتہ، 9 اکتوبر، 2021

کھیتی کے آلات سے متعلق ایک حدیث کی تشریح

سوال :

مفتی صاحب! اس حدیث "حضرت ابوامامہ نے ایک جگہ ہل اور کھیتی باڑی کا کچھ دیگر سامان دیکھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ سامان جس گھر میں داخل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس گھر میں ذلت داخل کر دیتا ہے۔" میں جس آلہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ کون سا آلہ ہے؟ کیا اس کی تخصیص بیان کی گئی یا کوئی بھی آلہ مراد ہے جو انسان احکام الٰہی کے بجا لانے سے غفلت میں ڈالے؟
(المستفتی : مسیب خان، جنتور)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور روایت بخاری شریف میں موجود ہے۔

حضرت ابوامامہ نے ایک جگہ ہل اور کھیتی باڑی کا کچھ دیگر سامان دیکھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ سامان جس گھر میں داخل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس گھر میں ذلت داخل کر دیتا ہے۔

اس حدیث شریف میں کھیتی کرنے کا کوئی مخصوص آلہ مراد نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس حدیث شریف سے اس غلط فہمی میں مبتلا ہونا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ کے نزدیک زراعت کا پیشہ ناپسندیدہ یا معیوب تھا یا اس سے آپ ﷺ کا مقصد کھیتی باڑی کرنیوالوں کی مذمت کرنا تھا بلکہ درحقیقت اس ارشاد گرامی کا منشاء جہاد کی ترغیب دینا ہے اور یہ آگاہ کرنا ہے کہ زراعت میں مشغول ہو کر جہاد کو ترک نہ کر دیا جائے اگر کوئی شخص اپنی معاشی ضروریات کی جائز وحلال تکمیل کے لئے زراعت کے پیشے کو اختیار کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ کوئی غیرپسندیدہ بات نہیں ہے اور نہ ایسا شخص اس وعید میں داخل ہے۔

بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ اس وعید کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو دشمنان دین کے قریب یا ان کے ملک کی سرحدوں سے متصل اقامت پذیر ہوں کہ اگر ایسے لوگ اپنی تمام تر توجہ زراعت کی طرف مبذول کر کے جہاد کی ضرورت واہمیت کو فراموش کر دیں گے تو دشمن ان پر غالب آجائیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اپنے دشمن کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہو جائیں گے۔

خلاصہ یہ کہ کھیتی باڑی اگر حد اعتدال میں کی جائے کہ اس کی وجہ سے فرائض اسلام کی ادائیگی میں کوئی تساہل نہ ہو تو وہ کھیتی قابل تعریف ہے۔ جس کی فضیلت متعدد احادیث میں وارد ہوئی ہے۔ اور اگر کھیتی باڑی میں اس قدر مشغولیت ہو جائے کہ ایک مسلمان اپنے دینی فرائض سے بھی غافل ہو جائے تو پھر یہ کھیتی قابل مذمت ہوگی۔

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ قَالَ وَرَأَى سِكَّةً وَشَيْئًا مِنْ آلَةِ الْحَرْثِ فَقَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " لَا يَدْخُلُ هَذَا بَيْتَ قَوْمٍ إِلَّا أُدْخِلَهُ الذُّلُّ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٢٣٢١)

(وعَنْ أبِي أُمامَةَ: ورَأى سِكَّةً) الواوُ لِلْحالِ والسِّكَّةُ بِكَسْرٍ فَتَشْدِيدٍ الحَدِيدَةُ الَّتِي تُشَقُّ وتُحْرَثُ بِها الأرْضُ (وشَيْئًا) أيْ آخَرَ (مِن آلَةِ الحَرْثِ فَقالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ) وفِي نُسْخَةٍ صَحِيحَةٍ النَّبِيَّ (- ﷺ - يَقُولُ: لا يَدْخُلُ هَذا) أيْ: ما ذُكِرَ مِنَ آلَةِ الحَرْثِ (بَيْتَ قَوْمٍ إلّا أدْخَلَهُ) أيِ: اللَّهُ كَما فِي نُسْخَةٍ صَحِيحَةٍ (الذُّلَّ) بِضَمِّ أوَّلِهِ أيِ: المَذَلَّةَ بِأداءِ الخَراجِ والعُشْرِ، والمَقْصُودُ التَّرْغِيبُ والحَثُّ عَلى الجِهادِ، قالَ التُّورِبِشْتِيُّ: «وإنَّما جَعَلَ آلَةَ الحَرْثِ مَذَلَّةً لِلذُّلِّ لِأنَّ أصْحابَها يَخْتارُونَ ذَلِكَ إمّا بِالجُبْنِ فِي النَّفْسِ، أوْ قُصُورٍ فِي الهِمَّةِ، ثُمَّ إنَّ أكْثَرَهُمْ مَلْزُومُونَ بِالحُقُوقِ السُّلْطانِيَّةِ فِي أرْضِ الخَراجِ، ولَوْ آثَرُوا الخَراجَ لَدَرَّتْ عَلَيْهِمُ الأرْزاقَ واتَّسَعَتْ عَلَيْهِمُ المَذاهِبُ، وجَبى لَهُمُ الأمْوالَ مَكانَ ما يُجْبى عَنْهُمْ. قِيلَ: قَرِيبٌ مِن هَذا المَعْنى حَدِيثُ» «العِزُّ فِي نَواصِي الخَيْلِ والذُّلُّ فِي أذْنابِ البَقَرِ» «، وقالَ بَعْضُ عُلَمائِنا مِنَ الشُّرّاحِ:» ظاهِرُ هَذا الحَدِيثِ أنَّ الزِّراعَةَ تُورِثُ المَذَلَّةَ، ولَيْسَ كَذَلِكَ لِأنَّ الزِّراعَةَ مُسْتَحَبَّةٌ لِأنَّ فِيها نَفْعًا لِلنّاسِ، ولِخَبَرِ: «اطْلُبُوا الأرْضَ مِن جَثاياها»؛ بَلْ إنَّما قالَ ذَلِكَ لِئَلّا يَشْتَغِلَ الصَّحابَةُ بِالعِماراتِ وبِتَرْكِ الجِهادِ فَيَغْلِبَ عَلَيْهِمُ الكُفّارُ. وأيُّ ذُلٍّ أشَدُّ مِن ذَلِكَ. وقِيلَ: هَذا فِي حَقِّ مَن يُقَرِّبُ العَدُوَّ لِأنَّهُ لَوِ اشْتَغَلَ بِالحَرْثِ وتَرَكَ الجِهادَ لَأدّى إلى الإذْلالِ بِغَلَبَةِ العَدُوِّ عَلَيْهِ (رَواهُ البُخارِيُّ)۔ (مرقاۃ المفاتیح : ٥/١٩٨٩)

هَذا مِن إخْبارِهِ ﷺ بِالمُغَيَّباتِ لِأنَّ المُشاهَدَ الآنَ أنَّ أكْثَرَ الظُّلْمِ إنَّما هُوَ عَلى أهْلِ الحَرْثِ وقَدْ أشارَ البُخارِيُّ بِالتَّرْجَمَةِ إلى الجَمْعِ بَيْنَ حَدِيثِ أبِي أُمامَةَ والحَدِيثِ الماضِي فِي فَضْلِ الزَّرْعِ والغَرْسِ وذَلِكَ بِأحَدِ أمْرَيْنِ إمّا أنْ يُحْمَلَ ما ورَدَ مِنَ الذَّمِّ عَلى عاقِبَةِ ذَلِكَ ومَحَلُّهُ ما إذا اشْتَغَلَ بِهِ فَضَيَّعَ بِسَبَبِهِ ما أُمِرَ بِحِفْظِهِ وإمّا أنْ يُحْمَلَ عَلى ما إذا لَمْ يُضَيِّعْ إلّا أنَّهُ جاوَزَ الحَدَّ فِيهِ والَّذِي يَظْهَرُ أنَّ كَلامَ أبِي أُمامَةَ مَحْمُولٌ عَلى مَن يَتَعاطى ذَلِكَ بِنَفْسِهِ أمّا مَن لَهُ عُمّالٌ يَعْمَلُونَ لَهُ وأدْخَلَ دارَهُ الآلَةَ المَذْكُورَةَ لِتُحْفَظَ لَهُمْ فَلَيْسَ مُرادًا ويُمْكِنُ الحَمْلُ عَلى عُمُومِهِ فَإنَّ الذُّلَّ شامِلٌ لِكُلِّ مَن أدْخَلَ عَلى نَفْسِهِ ما يَسْتَلْزِمُ مُطالبَة آخر لَهُ ولا سِيما إذْ كانَ المُطالِبُ مِنَ الوُلاةِ وعَنِ الدّاوُدِيِّ هَذا لِمَن يَقْرُبُ مِنَ العَدُوِّ فَإنَّهُ إذا اشْتَغَلَ بِالحَرْثِ لا يَشْتَغِلُ بِالفُرُوسِيَّةِ فَيَتَأسَّدُ عَلَيْهِ العَدُوُّ فَحَقُّهُمْ أنْ يَشْتَغِلُوا بِالفُرُوسِيَّةِ وعَلى غَيْرِهِمْ إمْدادُهُمْ بِما يَحْتاجُونَ إلَيْهِ۔ (فتح الباری : ٥/٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 ربیع الاول 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں