بدھ، 13 اکتوبر، 2021

پھٹے نوٹ اور ریزگاری کے لین دین کا شرعی حکم

سوال :

مفتی صاحب ! آج میری ایک شخص سے ملاقات ہوئی جو کہ خراب پھٹے ہوئے اور ایسے نوٹ جو کے چلتے نہیں مکمل طور سے خراب ہو چکے ہو وہ شخص اسے 50 سے 60 فیصد سے لے کر (اگر 100 روپے کے خراب نوٹ دیے تو وہ 60 روپے یہ 50 روپے دیگا) اچھے نوٹ دیتا ہے میں نے اسے پُوچھا کے آپ اسکا کیا کروگے تو اسنے کہا کے میں اسے ممبئی میں جاکے ایک بینک میں جمع کر دونگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے معاملات کر سکتے ہیں؟ میرے پاس 430 روپے کے خراب نوٹ تھے وہ 215 روپے کے اچّھے نوٹ دینے بول رہا تھا، اور اسی طرح کے کچھ معاملات چلّر (سکّے) کے بھی ہوتے ہے جہاں کچھ فیصد کم کرکے نوٹ اور سکوں کی تبدیلی کی جاتی ہے۔
(المستفتی : محمد یاسین، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عصر حاضر میں نوٹوں نے ذریعۂ تبادلہ ہونے میں مکمل طور پرثمن خلقی (سونا چاندی) کی جگہ لے لی ہے اور باہمی لین دین نوٹ کے ذریعہ انجام پاتا ہے اس لئے کرنسی نوٹ  بھی احکام میں ثمن حقیقی کے مشابہ ہے، لہٰذا ایک ملک کی کرنسی کا تبادلہ اسی ملک کی کرنسی سے کمی و بیشی کے ساتھ نہ تو نقد جائز ہے نہ ادھار۔ (اہم فقہی فیصلے : ۱۷)

لہٰذا جب نوٹوں کا تبادلہ کرنا ہو اور ایک ہی ملک کی کرنسی ہو، تو اس میں برابری ضروری ہے، زیادتی سود میں شمار ہوگی، چاہے نوٹ نئے ہوں یا پرانے، اچھے ہوں یا پھٹے اور بوسیدہ۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
اگر پرانے پھٹے نوٹوں کی مالیت ختم نہیں ہوئی ہے، تو ان کو کم قیمت پر فروخت کرنا جائز نہیں ہے، اس کی آمدنی حلال نہیں ہوگی۔ (رقم الفتوی : 165143)

لیکن چونکہ پھٹے نوٹوں کی تبدیلی کے پیچھے باقاعدہ محنت درکار ہوتی ہے، نیز اس کے لیے سفر بھی کرنا پڑتا جس میں مال بھی خرچ کرنا پڑے گا جیسا کہ سوال نامہ سے بھی معلوم ہوتا ہے، لہٰذا ایسی صورت میں جو شخص نوٹوں کو تبدیل کرتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اس کام کی باقاعدہ اجرت طے کرے کہ میں آپ کی نوٹ کو فلاں مقام کی فلاں بینک سے تبدیل کرکے لاکر دوں گا، اس پر آپ مجھے اتنا اتنا محنتانہ دیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ آدمی پہلے ہی ان نوٹوں کو خرید لے، اور دونوں کا معاملہ ایک ہی نشست میں ختم ہوجائے، بلکہ ایک نشست میں وہ پھٹے نوٹوں کو قبضہ میں لے لے اور نوٹوں کو تبدیل کرلینے کے بعد دوسری نشست میں ان نوٹوں کا بدل لاکر دے دے اور اپنی اجرت لے لے۔ ایسا کرلینے سے ساری قباحت اور کراہت ختم ہوجائے گی۔

البتہ ریزگاری (چلر) میں ایسا کوئی معاملہ نہیں ہوتا کہ اس کے پیچھے باقاعدہ کوئی محنت اور مال خرچ کرنا پڑے، لہٰذا ریزگاری کو اسی قیمت میں دینا چاہیے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ۔ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ۔ (سورۃ البقرة، آیت : ٢٧٨- ٢٧٩)

عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ. وَقَالَ : " هُمْ سَوَاءٌ "۔ (صحیح المسلم، رقم : ١٥٩٨)

الصرف هو البيع إذا كان كل واحد من عوضيه من جنس الأثمان ۔۔۔ قال : فإن باع فضة بفضة أو ذهبا بذهب لا يجوز إلا مثلا بمثل وإن اختلفا في الجودة والصياغة" لقوله عليه الصلاة والسلام: الذهب بالذهب مثلا بمثل وزنا بوزن يدا بيد والفضل ربا" الحديث. وقال عليه الصلاة والسلام : جيدها ورديئها سواء" وقد ذكرناه في البيوع۔ (ھدایہ : ٣/٨١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 ربیع الاول 1443

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں