سوال :
محترم جناب مفتی صاحب ! یہ مسئلہ پوچھنا ہے کہ قرآن مجید میں مذکور صلوة وسطیٰ سے کون سی نماز مراد ہے؟ کیا کسی صحابی سے اس تعیین ثابت ہے؟ ایک صاحب نے اس کی تفسیر یوں کی ہے ہم سنت ونوافل پڑھتے ہیں اس کے درمیان جو فرض نماز ادا کرتے ہیں وہ صلوۃ وسطیٰ ہے۔ ان کا قول درست ہے یا تفسیر بالرائے کے قبیل سے ہے؟مدلل جواب عنایت فرما کر ممنون فرمائیں
(المستفتی : افضال احمد ملّی، جامع مسجد پمپر کھیڑ، چالیسگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم کی سورہ بقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى، وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ۔
ترجمہ : تمام نمازوں کا پورا خیال رکھو، اور (خاص طور پر) بیچ کی نماز کا، اور اللہ کے سامنے باادب فرمانبردار بن کر کھڑے ہوا کرو۔ (بقرہ، آیت : ٢٣٨)
اس آیت کریمہ میں مذکور الصلوۃ الوسطی سے کون سی نماز مراد ہے؟ اس سلسلے میں صحابہ کرام کے زمانہ سے چند اقوال ملتے ہیں، چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں ہم نے بیس سے زائد تفاسير دیکھی ہیں جن میں سے چند تفاسیر کی عبارات من وعن نقل کرتے ہیں۔
تفسیر مظہری میں ہے :
اکثر کا قول یہ ہے اور یہی سب اقوال سے راجح بھی ہے کہ صلوٰۃ وسطی عصر کی نماز ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک جماعت نے نقل کیا ہے اور یہی قول علی ‘ ابن مسعود ‘ ابو ایوب ‘ ابوہریرہ ‘ عائشہ صدیقہ کا ہے اور یہی ابراہیم نخعی ‘ قتادہ ‘ حسن نے کہا ہے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد کا مذہب ہے کیونکہ حضرت علی (رض) روایت کرتے ہیں کہ جنگ احزاب کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے گھروں کو اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر ‘ جیسا کہ انہوں نے ہمیں صلوٰۃ وسطیٰ ( کے پڑھنے) سے روک دیا یہاں تک کہ آفتاب (بھی) غروب ہوگیا یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مسلم کی روایت میں اس طرح ہے کہ انہوں نے ہمیں صلوٰۃ وسطیٰ یعنی عصر کی نماز سے روک دیا خدا ان کے دلوں کو اور ان کے گھروں کو آگ سے بھرے۔ ایک اور حدیث ابن مسعود (رض) کی ہے کہ ( ایک مرتبہ) مشرکین نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کو عصر کی نماز نہیں پڑھنے دی تھی یہاں تک کہ دھوپ میں زردی آگئی یا کہا کہ سرخی آگئی اس وقت حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ انہوں نے ہمیں صلوٰۃ وسطیٰ ( کے پڑھنے) سے روک دیا خدا ان کے پیٹوں میں ا وران کی قبروں میں آگ بھرے یہ حدیث مسلم نے روایت کی ہے ابو یونس (رض) (حضرت عائشہ صدیقہ کے آزاد کردہ) کہتے ہیں کہ مجھے حضرت صدیقہ (رض) نے یہ حکم دیا کہ میرے لیے ایک قرآن مجید لکھ دو پھر فرمایا کہ جب تم اس آیت پر پہنچو تو مجھے اطلاع کردینا چناچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو میں نے اطلاع کردی ام المؤمنین نے فرمایا کہ : حافظوا علی الصلٰوت والصلٰوۃ والوسطٰی وصلٰوۃ العصر اور فرمایا کہ میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ سے یہ اسی طرح سنی ہے یہ روایت مسلم نے نقل کی ہے براء بن عازب کہتے ہیں کہ یہ آیت اس طرح نازل ہوئی تھی۔ حافظوا علی الصلوت وصلوٰۃ العصر اور جب تک اللہ عزو جل کو منظور ہوا ہم اسے اسی طرح پڑھتے رہے پھر اللہ نے اسے منسوخ کردیا اور اس طرح نازل ہوئی۔ حافظوا علی الصلوات والصلٰوۃ والوسطٰی یہ روایت مسلم نے نقل کی ہے امام مالک وغیرہ نے عمرو بن رافع سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوی حفصہ کے لیے قرآن شریف لکھتا تھا تو انہوں نے مجھ سے لکھوایا۔ حافظوا علی الصلوات والصلٰوۃ والوسطٰی و صلٰوۃ العصر۔ ابو داؤد نے عبد بن رافع سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں میں ام سلمہ کے لیے قرآن شریف لکھتا تھا فرمایا کہ ( یہ آیت اس طرح) لکھو : حافظوا علی الصلوات والصلٰوۃ والوسطٰی وصلٰوۃ العصر اور ابو داؤد ہی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ وہ بھی اس آیت کو اسی طرح پڑھتے تھے ابو داؤد نے حضرت حفصہ کے آزاد کردہ ابو رافع سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں قرآن شریف لکھتا تھا حضرت حفصہ نے فرمایا کہ ( یہ آیت اس طرح) لکھو : حافظوا علی الصلوات والصلٰوۃ الوسطٰی وصلٰوۃ العصر پھر میں ابی بن کعب سے ملا اور میں نے ان سے اس کو بیان کیا انہوں نے فرمایا یہ اسی طرح ہے جس طرح وہ کہتی ہیں کیا ہم ظہر کے وقت اپنی بکریاں اور اونٹنیوں میں زیادہ مشغول نہیں ہوتے ؟ حضرت عائشہ (رض) اور حضرت حفصہ کی حدیثوں کو اصحاب شافعی اپنی حجت ٹھہراتے اور یہ کہتے ہیں کہ صلوٰۃ وسطی پر صلوٰۃ عصر کا عطف کرنا مغائرت کی دلیل ہے ( یعنی اس عطف سے معلوم ہوتا ہے کہ صلوٰۃ وسطیٰ اور ہے اور صلوٰۃ عصر اور ہے) ہم کہتے ہیں نہیں بلکہ یہ عطف تفسیری ہے اور بغوی نے اپنی تفسیر میں عائشہ صدیقہ کی حدیث بغیر واؤ کے اس طرح نقل کی ہے : حافظوا علی الصلوات والصلٰوۃ والوسطٰی صلوٰۃ العصروا اللہ اعلم۔ (تفسیر مظہری : ٢٤٦، مکتبہ جبریل)
تفسیر ابن کثیر میں ہے :
اکثر علماء صحابہ وغیرہ کا یہی قول ہے، جمہور تابعین کا بھی یہی قول ہے اور اکثر اہل اثر کا بھی، بلکہ جمہور لوگوں کا، حافظ ابو محمد عبدالمومن دمیاطی نے اس بارے میں ایک مستقل رسالہ تصنیف فرمایا ہے جس کا نام کشف الغطاء فی تبیین الصلوۃ الوسطیٰ ہے اس میں ان کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ صلوۃ وسطیٰ عصر کی نماز ہے۔ حضرت عمر، حضرت علی، ابن مسعود، ابو ایوب، عبداللہ بن عمرو، سمرہ بن جندب، ابوہریرہ، ابو سعید، حفصہ، ام حبیبہ، ام سلمہ، ابن عمر، ابن عباس، عائشہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) وغیرہ کا فرمان بھی یہی ہے اور ان حضرات سے یہی مروی ہے اور بہت سے تابعین سے یہ منقول ہے۔ امام احمد اور امام شافعی کا بھی یہی مذہب ہے۔ امام ابوحنیفہ کا بھی صحیح مذہب یہی ہے۔ ابو یوسف، محمد سے بھی یہی مروی ہے۔ ابن حبیب مالکی بھی یہی فرماتے ہیں۔ اس قول کی دلیل سنیئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ احزاب میں فرمایا اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کے دلوں کو اور گھر کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں صلوۃ وسطیٰ یعنی نماز عصر سے روک دیا (مسند احمد) حضرت علی فرماتے ہیں کہ ہم اس سے مراد صبح یا عصر کی نماز لیتے ہیں یہاں تک کہ جنگ احزاب میں میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنا، اس میں قبروں کو بھی آگ سے بھرنا وارد ہوا ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ عصر کی نماز ہے۔ (تفسیر ابن کثیر : ٢٤٦)
تفسیر قرطبی میں ہے :
” والصلوۃ الوسطی “ سے مراد نماز عصر ہے، کیونکہ اس سے پہلے دن کی دو نمازیں ہیں اور اس کے بعد رات کی دو نمازیں ہیں، نحاس نے کہا ہے : اس استدلال میں سے عمدہ اور اعلی یہ ہے کہ یہ نماز ہے جس کے لئے وسطی کہا گیا ہے کیونکہ یہ دو نمازوں کے در میان ہے ان میں سے ایک وہ ہے جو سب سے اول فرض کی گئی اور دوسری وہ نماز ہے جو دوسرے نمبر پر فرض کی گئی۔
اور جنہوں نے کہا ہے کہ یہی نماز صلوۃ وسطی ہے ان میں سے حضرت علی بن ابی طالب، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں (٤) (صحیح بخاری باب : الدعاء علی المشرکین، حدیث نمبر : ٥٩١٧، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہی امام ابوحنیفہ اور آپ کے اصحاب رحمۃ اللہ علہیم کا مختار ہے۔ امام شافعی (رح) اور اکثر اہل الاثر نے یہی کہا ہے اور عبدالملک بن حبیب نے بھی یہی موقف اپنایا ہے اور ابن عربی نے بھی قبس میں اور ابن عطیہ نے اپنی تفسیر میں اسے ہی اختیار کیا ہے اور کہا ہے : اسی قول پر جمہور لوگ ہیں اور یہی میں بھی کہتا ہوں۔ (تفسیر قرطبی : ٢٤٦)
حضرت مولانا غلام اللہ خان لکھتے :
صلوۃ وسطیٰ کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ اکثر صحابہ، تابعین اور ائمہ دین اس طرف گئے گئے ہیں کہ اس سے مراد نماز عصر ہے۔ الثانی انھا العصر لانھا بین صلاتی النھار وصلاتی اللیل وھو المروی عن علی والحسن وابن عباس وابن مسعود وخلق کثیر وعلیہ الشافعیة والاکثرون صححوا انھا صلوۃ العصر (روح ص 156 ج 2) ۔ اکثریت کی رائے یہ ہے کہ اس سے نماز عصر مراد ہے کیونکہ وہ دن کی دو نمازوں اور رات کی دو نمازوں کے درمیان ہے۔ (جواہر القرآن : ٢٤٦)
مفتی شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے حکیم الامت حضرت علامہ تھانوی رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھا ہے :
کثرت سے علماء کا قول بعض احادیث کی دلیل سے یہ ہے کہ بیچ والی نماز سے مراد نماز عصر ہے کیونکہ اس کے ایک طرف دو نمازیں دن کی ہیں فجر اور ظہر اور ایک طرف دو نمازیں رات کی ہیں مغرب اور عشاء، اس کی تاکید خصوصیت کے ساتھ اس لئے کی گئی کہ اکثر لوگوں کو یہ وقت کام کی مصروفیت کا ہوتا ہے اور عاجزی کی تفسیر حدیث میں سکوت کے ساتھ آئی ہے۔(معارف القرآن : ٢٤٦)
مفتی محمد عاشق الہی بلند شہری لکھتے ہیں :
احادیث صحیحہ میں اس کی تصریح ہے کہ صلاۃ وسطیٰ ، (درمیان والی نماز) سے عصر کی نماز مراد ہے۔ اس نماز کا خصوصی دھیان رکھنے کے لیے اس لیے ارشاد فرمایا کہ عموماً تجارتی امور اور کاروبار اور بہت سے کام ایسے وقت میں سامنے آجاتے ہیں جبکہ نماز عصر کا وقت ہوتا ہے۔ مالوں کی خریدو فروخت کی گرم بازاری عصر ہی کے وقت ہوتی ہے، اس وقت میں نمازوں کی پابندی کرنے والے بھی نماز عصر سے غافل ہوجاتے ہیں۔ (انوار البیان : ٢٤٦)
مولانا عبدالحق حقانی دہلوی لکھتے ہیں :
الصلواۃ الواسطیٰ کی تعین میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض ظہر بعض نماز صبح کہتے ہیں مگر احادیث قویہ سے عصر کی نماز معلوم ہوتی ہے جیسا کہ صحیحین میں آیا ہے کہ مشرکوں نے ہم کو صلوٰۃ الوسطیٰ سے روک دیا۔ خدا ان کی قبر آگ سے بھرے اور یہ واقعہ جنگ احزاب میں نماز عصر کا ہے۔ (تفسیر حقانی : ٢٤٧)
مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم لکھتے ہیں :
بیچ کی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے، اس کا خاص طور پر اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ عام طور سے اس وقت لوگ اپنا کاروبار سمیٹنے میں مشغول ہوتے ہیں اور اس مشغولیت میں بے پروائی ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ (توضیح القرآن : ١٨١)
درج بالا تمام تفاسیر سے اصح اور راجح قول یہی معلوم ہوتا ہے کہ صلوۃ وسطی سے مراد عصر کی نماز ہے۔ لہٰذا سوال نامہ میں مذکور صاحب کی بات کہ " ہم سنت ونوافل پڑھتے ہیں اس کے درمیان جو فرض نماز ادا کرتے ہیں وہ صلوۃ وسطیٰ ہے" اس طرح کی کوئی بات کسی بھی معتبر تفسیر میں نہیں ملتی، لہٰذا یہ بات تفسیر بالرائے ہی معلوم ہوتی ہے جو شرعاً درست نہیں ہے۔
وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالُوا : حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ، عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَكَلٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ : " شَغَلُونَا عَنِ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى صَلَاةِ الْعَصْرِ، مَلَأَ اللَّهُ بُيُوتَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا، ثُمَّ صَلَّاهَا بَيْنَ الْعِشَاءَيْنِ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٦٢٧)
عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأَ۔ (سنن الترمذي، رقم : ۲۹۵۲)
قال السیوطي : اخْتَلَفَ النّاسُ فِي تَفْسِيرِ القُرْآنِ هَلْ يَجُوزُ لِكُلِّ أحَدٍ الخَوْضُ فِيهِ؟ فَقالَ قَوْمٌ: لا يَجُوزُ لِأحَدٍ أنْ يَتَعاطى تَفْسِيرَ شَيْءٍ مِنَ القُرْآنِ وإنْ كانَ عالِمًا أدِيبًا متسما فِي مَعْرِفَةِ الأدِلَّةِ والفِقْهِ والنَّحْوِ والأخْبارِ والآثارِ ولَيْسَ لَهُ إلّا أنْ يَنْتَهِيَ إلى ما رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي ذَلِكَ۔ (الإتقان في علوم القرآن : ٤/٢١٣)
(مَن قالَ) أيْ: مَن تَكَلَّمَ (فِي القُرْآنِ) أيْ: فِي مَعْناهُ أوْ قِراءَتِهِ (بِرَأْيِهِ) أيْ: مِن تِلْقاءِ نَفْسِهِ مِن غَيْرِ تَتَبُّعِ أقْوالِ الأئِمَّةِ مِن أهْلِ اللُّغَةِ والعَرَبِيَّةِ المُطابِقَةِ لِلْقَواعِدِ الشَّرْعِيَّةِ، بَلْ بِحَسَبِ ما يَقْتَضِيهِ عَقْلُهُ، وهُوَ مِمّا يَتَوَقَّفُ عَلى النَّقْلِ بِأنَّهُ لا مَجالَ لِلْعَقْلِ فِيهِ۔ (مرقاۃ المفاتیح : ۱/٣٠٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 جمادی الاول 1444