جمعرات، 1 دسمبر، 2022

آدھی اور ایک طلاق دے تو کتنی طلاق ہوگی؟

سوال :

مفتی صاحب امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔
میرا ایک سوال ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو اس طرح کہے کہ "تجھے آدھی اور ایک طلاق" تو بیوی پر کتنی طلاق واقع ہوگی؟
(المستفتی : حافظ سفیان، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو آدھی یا تہائی طلاق دے تو یہ آدھی طلاق یا تہائی طلاق مکمل طلاق ہوتی ہے۔ اس لئے کہ طلاق کا ٹکڑا نہیں ہوتا اور بعض کا ذکر کرنا کُل کے ذکر کرنے کی طرح ہوتا ہے۔

متعدد آثار اور فقہی جزئیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ طلاق میں تجزی اور ٹکرا نہیں ہوتا، لہٰذا اگر کوئی اسے ٹکڑا کرکے کہے مثلاً آدھی یا تہائی کہے تب بھی پوری ایک طلاق شمار ہوتی ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر کسی نے اپنی بیوی کو آدھی اور ایک طلاق کہا ہے تو اس کی بیوی پر دو طلاق رجعی واقع ہوجائیں گی۔

حَدَّثَنا أبُو بَكْرٍ قالَ : نا أبُو عِصامٍ رَوّادُ بْنُ جَرّاحٍ، عَنِ الأوْزاعِيِّ، قالَ : قِيلَ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ العَزِيزِ : الرَّجُلُ يُطَلِّقُ امْرَأتَهُ نِصْفَ تَطْلِيقَةٍ، قالَ : «هِيَ تَطْلِيقَةٌ»۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم : ١٨٠٥٩)

عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أبِي سَهْلٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ قالَ : إذا طَلَّقَ الرَّجُلُ بَعْضَ تَطْلِيقَةٍ قالَ : «لَيْسَ فِيهِ كُسُورٌ، هِيَ تَطْلِيقَةٌ تامَّةٌ»، وقالَهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ العَزِيزِ۔ (مصنف عبدالرزاق، رقم : ١١٢٥٠)

عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتادَةَ قالَ : «إنْ قالَ: أنْتِ طالِقٌ ثُلُثَ تَطْلِيقَةٍ، أوْ رُبُعَ تَطْلِيقَةً، أوْ خُمُسَ تَطْلِيقَةٍ، أوْ سُدُسَ تَطْلِيقَةٍ فَهِيَ واحِدَةٌ»۔ (مصنف عبدالرزاق، رقم : ١١٢٥١)

فَإِذَا طَلَّقَ الْمَرْأَةَ نِصْفَ تَطْلِيقَةٍ وَقَعَتْ وَاحِدَةً۔ (الموسوعۃ الفھیۃ : ١٠/١٤٣)

وَإِنْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ: أَنْتِ طَالِقٌ نِصْفَ تَطْلِيقَةٍ فَهِيَ تَطْلِيقَةٌ كَامِلَةٌ عِنْدَنَا۔ (المبسوط للسرخسی : ٦/١٣٩)

«وإن طلقها نصف تطليقة أو ثلثها كانت طالقا تطليقة واحدة» لأن الطلاق لا يتجزأ وذكر بعض ما لا يتجزأ كذكر الكل وكذا الجواب في كل جزء سماه لما بينا۔ (ہدایہ : ١/٢٢٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 جمادی الاول 1444

2 تبصرے:

  1. مفتی صاحب کیا اسطرح شریعت کے احکام کا مذاق اڑانا نہی ہے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. لاعلم لوگ اس طرح کی حرکت کرتے ہیں، عموماً جان بوجھ کر کوئی اس طرح نہیں کرتا۔ اگر جان بوجھ کر بطور استہزاء اس طرح کی حرکت کرے گا تو مسلمان ہی کہاں رہ جائے گا۔

      حذف کریں