اتوار، 25 دسمبر، 2022

اسکولوں میں ہونے والی گیدرنگ کی شرعی حیثیت

سوال :

محترم مفتی صاحب ! سال کا اختتام ہورہا ہے اور بہت ساری اسکولوں میں سال کےآخر میں گیدرنگ پروگرام ہوتے ہیں، اور پروگرام میں جو آخری پروگرام ہوتا ہے وہ ثقافتی پروگرام کے نام سے اسکولوں میں ڈرامہ بھی ہوتا ہے اس ڈرامہ میں ایکشن سانگ (جس گانے میں فلم ایکٹر جیسے ناچتا ہے) اسی طرز پر ہمارے بچوں سے کروایا جاتا ہے۔ اس معاملے میں آپ شرعی رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد صالح، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اسکولوں میں ہونے والے ثقافتی پروگرام (گیدرنگ) اگر شرعی حدود میں ہوں تو بلاشبہ اس کی اجازت ہوگی۔ یعنی اس میں تقریر، نعت، حمد اور نظمیں پڑھی جائیں اور اس میں ہاتھ سے کچھ ایکشن ہوں جسے دیکھتے ہی یہ محسوس نہ ہو کہ یہ ڈانس ہے تو اس کی گنجائش ہوگی۔ البتہ دن بدن ان پروگراموں میں شرعی قباحتیں در آرہی ہیں جیسا کہ سوال نامہ میں مذکور ہے کہ اب باقاعدہ اس میں Singing اور Dancing کا مظاہرہ بھی ہورہا ہے۔ حب الوطنی یا دیگر گیتوں کے Music اور Lyrics پر چھوٹے اور بڑے بچے بچیاں باقاعدہ تھرک رہے ہیں، اسے دیکھتے ہی یہی محسوس ہوگا کہ یہ رقص اور ڈانس ہی ہے۔ لہٰذا اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ موسیقی (Music) اور گانوں کا سننا، سنانا اور ناچ (Dance) کرنا، دیکھنا اور سیکھنا سکھانا سب ناجائز اور حرام ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں :
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ  لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ۔
ترجمہ: اور وہ لوگ ہیں کہ خریدار ہیں کھیل کی باتوں کے تاکہ بچلائیں اللہ کی راہ سے بن سمجھے اور ٹھہرائیں اس کو ہنسی وہ جو ہیں ان کو ذلت کا عذاب ہے۔ (سورۃ لقمان، آیت : ۶)

چنانچہ ’’لہو الحدیث‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ :
’’ان لہو الحدیث ہو الغناء واشباہہ‘‘
یعنی ’’لہو الحدیث‘‘ سے مراد گانا بجانا اور اسی قسم کی اور بہت سی چیزیں جو گانے بجانے اور موسیقی کے مشابہ ہوں۔

در مختار میں ہے :
’’وفی السراج: ودلت المسألۃ ان الملاہی کلہا حرام‘ ویدخل علیہم بلا اذنہم لانکار المنکر۔قال ابن مسعود: صوت اللہو والغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء النبات‘‘
ترجمہ: سراج میں ہے مسئلہ دلالت کرتا ہے کہ ملاہی (لہو لعب کی چیزیں) ساری حرام ہیں، حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ لہوو لعب کی آواز اور گانے کی آواز دل میں نفاق اگاتی ہے، جیساکہ پانی پودوں کو اگاتا ہے۔

اگر یہ بچے بالغ ہیں تو اس کا گناہ خود ان پر اور انہیں تیار کرنے والے ٹیچرس پر ہوگا، اور اگر نابالغ ہوں تو ان کا گناہ انہیں برضا ورغبت اس کام کی اجازت دینے والے والدین کو اور انہیں تیار کرنے والے ٹیچرس کو ملے گا۔ لہٰذا اسکولوں کے ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے آرڈر جاری کریں کہ فنون لطیفہ اور گیدرنگ کے نام پر غیرشرعی افعال کا صدور قطعاً نہ ہو، ورنہ اس طرح کی غیرشرعی تعلیم آخرت میں تو وبال ہوگی ہی اور دنیا میں بھی اس کا نقصان دیکھنے کو ملے گا۔

استماع الملاھی و الجلوس علیہا وضرب المزامیر والرقص کلہا حرام ‘‘ ومستحلہا کافر وفی الحمادیۃ من النافع اعلم ان التغنی حرام فی جمیع الادیان۔ (جامع الفتاوی، ۱/ ۷۳، رحیمیہ، دیوبند)

(قَوْلُهُ وَمَنْ يَسْتَحِلُّ الرَّقْصَ قَالُوا بِكُفْرِهِ) الْمُرَادُ بِهِ التَّمَايُلُ وَالْخَفْضُ وَالرَّفْعُ بِحَرَكَاتٍ مَوْزُونَةٍ كَمَا يَفْعَلُهُ بَعْضُ مَنْ يَنْتَسِبُ إلَى التَّصَوُّفِ۔ وَقَدْ نَقَلَ فِي الْبَزَّازِيَّةِ عَنْ الْقُرْطُبِيِّ إجْمَاعَ الْأَئِمَّةِ عَلَى حُرْمَةِ هَذَا الْغِنَاءِ وَضَرْبِ الْقَضِيبِ وَالرَّقْصِ. قَالَ وَرَأَيْتُ فَتْوَى شَيْخِ الْإِسْلَامِ جَلَالِ الْمِلَّةِ وَالدِّينِ الْكَرْمَانِيِّ أَنَّ مُسْتَحِلَّ هَذَا الرَّقْصِ كَافِرٌ، وَتَمَامُهُ فِي شَرْحِ الْوَهْبَانِيَّةِ. وَنَقَلَ فِي نُورِ الْعَيْنِ عَنْ التَّمْهِيدِ أَنَّهُ فَاسِقٌ لَا كَافِرٌ۔ (شامی : ٤/٢٥٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 جمادی الآخر 1444

2 تبصرے: