ہفتہ، 31 دسمبر، 2022

کھانے کے فوراً بعد پانی پینے کا حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب! کیا کھانا کھانے کے فوراً بعد پانی پینا خلاف سنت ہے؟ کیا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھانا کھانے کے تقریباً آدھے گھنٹے بعد پانی پیتے تھے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عمران، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کھانے کے فوراً بعد پانی پینے سے متعلق کوئی حکم یا ترغیب وارد نہیں ہوئی ہے۔ اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس سلسلے میں مستقل کوئی ایک پہلو پر عمل کرنا ثابت ہے۔ بلکہ پانی پینا ثابت ہے اور نہ پینا بھی، دونوں طرح کاعمل نقل کیا گیا ہے۔

مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکروعمررضی اللہ عنہما کے ہمراہ ایک انصاری صحابی کے گھرتشریف لے گئے انہوں نے بکری ذبح کی اور کھانے کا اہتمام کیا، ان حضرات نے بکری کا گوشت اور کھجوریں تناول فرمائی اور پانی پیا۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھانے کے بعد پانی پیا ہے۔

امام ابن القیم جوزیؒ نے زاد المعاد میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ نبی اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کھانے کے فوراً بعد پانی نوش نہیں فرماتے تھے، اور اُس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ کھانے سے پہلے یا کھانے کے بعد پانی پینے سے ہضم میں دشواری ہوتی ہے، تقریباً یہی بات شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے مدارج النبوۃ ۱؍۵۱۵ میں بھی تحریر فرمائی ہے؛ لیکن دوسری طرف بعض صحیح احادیث میں نبی اکرم علیہ الصلاۃ والسلام کا کھانے کے بعد پانی اور مشروب نوش فرمانا ثابت ہے اور خود علامہ ابن القیمؒ نے اپنی دوسری کتاب ’’طبِ نبوی‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ اگر پیاس محسوس ہو تو کھانے کے بعد پانی پینے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ ایک دم سے بہت زیادہ نہ پیا جائے؛ بلکہ تھوڑا تھوڑا گھونٹ لے کر پیا جائے، اس طرح پینے سے معدہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، بلکہ فائدہ پہنچے گا۔ ان تفصیلات سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ نبی اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہمیشہ یہ معمول نہیں تھا کہ کھانے کے بعد پانی نہ پیتے ہوں، بلکہ جب جیسی ضرورت اور تقاضا ہوتا تھا پانی نوش فرماتے تھے، اس لئے کسی ایک پہلو کو خلافِ سنت کہنا مشکل ہے، اور کھانے سے پہلے یا درمیان میں یا بعد میں پانی پینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (کتاب النوازل : ١٦/٥٨)

خلاصہ یہ کہ آدمی اپنی ضرورت، طبیعت، مزاج اور طبی نقطہ نظر کو ملحوظ رکھتے ہوئے جس طرح چاہے عمل کرسکتا ہے، اس سلسلے میں کسی بھی پہلو کو سنت اور دوسرے کو خلافِ سنت کہنا درست نہیں۔ البتہ اگر کھانے کے فوراً بعد پانی پینا کسی کے لیے مضر ثابت ہونے لگے جیسا کہ بعض اطباء کہتے ہیں تو پھر اسے کھانے کے فوراً بعد پانی پینے سے بچنا چاہیے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ کَيْسَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ أَوْ لَيْلَةٍ فَإِذَا هُوَ بِأَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ فَقَالَ مَا أَخْرَجَکُمَا مِنْ بُيُوتِکُمَا هَذِهِ السَّاعَةَ قَالَا الْجُوعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ وَأَنَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَخْرَجَنِي الَّذِي أَخْرَجَکُمَا قُومُوا فَقَامُوا مَعَهُ فَأَتَی رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ فَإِذَا هُوَ لَيْسَ فِي بَيْتِهِ فَلَمَّا رَأَتْهُ الْمَرْأَةُ قَالَتْ مَرْحَبًا وَأَهْلًا فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ فُلَانٌ قَالَتْ ذَهَبَ يَسْتَعْذِبُ لَنَا مِنْ الْمَائِ إِذْ جَائَ الْأَنْصَارِيُّ فَنَظَرَ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَاحِبَيْهِ ثُمَّ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ مَا أَحَدٌ الْيَوْمَ أَکْرَمَ أَضْيَافًا مِنِّي قَالَ فَانْطَلَقَ فَجَائَهُمْ بِعِذْقٍ فِيهِ بُسْرٌ وَتَمْرٌ وَرُطَبٌ فَقَالَ کُلُوا مِنْ هَذِهِ وَأَخَذَ الْمُدْيَةَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاکَ وَالْحَلُوبَ فَذَبَحَ لَهُمْ فَأَکَلُوا مِنْ الشَّاةِ وَمِنْ ذَلِکَ الْعِذْقِ وَشَرِبُوا فَلَمَّا أَنْ شَبِعُوا وَرَوُوا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتُسْأَلُنَّ عَنْ هَذَا النَّعِيمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَخْرَجَکُمْ مِنْ بُيُوتِکُمْ الْجُوعُ ثُمَّ لَمْ تَرْجِعُوا حَتَّی أَصَابَکُمْ هَذَا النَّعِيمُ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢٠٣٨)

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم آب بر طعام نمی خورد کہ مفسد است وتا طعام بانہضام نیارد آب نباید خورد۔ (مدارج النبوۃ : ۱؍۵۱۵)

ویکرہ شرب الماء عقیب الریاضۃ والتعب، وعقیب الجماع، وعقیب الطعام وقبلہ۔ (زاد المعاد مکمل : ۹۳۵ دارالمعرفۃ)

وأما علی الطعام فلا بأس بہ إذا اضطر إلیہ؛ بل یتعین ولا یکثر منہ بل یتمضضہ مصًا؛ فإنہ لا یضرہ البتۃ؛ بل یقوي المعدۃ وتنہض الشہوۃ، ویزیل العطش۔ (الطب النبوي لابن الجوزیۃ : ۳۰۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 جمادی الآخر 1444

2 تبصرے:

  1. شرعى، طبى، اور طبعي هر اعتبار سے آپ کا جواب درست نظر آریا ہے۔
    جزاک اللہ خیرا۔ آمين

    جواب دیںحذف کریں
  2. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں