ہفتہ، 3 دسمبر، 2022

نکاح پڑھانے کا حقدار کون؟

سوال :

مفتی صاحب! آج کل رواج ہوگیا ہے کہ نکاح کے لئے لوگ اپنا امام لے کر جاتے ہیں۔ دریافت یہ کرنا تھا کہ نکاح پڑھانے کا شرعاََ زیادہ حق دار کون ہے؟ اس مسجد کا امام یا پھر وہ جنہیں نکاح کے لئے لے جایا جائے؟ گرچہ کہ وہ امام مسجد سے علمی طور پر فائق ہوں، اور ان کے نکاح پڑھانے سے نکاح میں زیادہ خیر و برکات ہوں گی کیا؟ براہ کرم ان تمام مسائل پر رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ڈاکٹر فراز، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جس طرح عام نمازوں اور نماز جنازہ کی امامت میں افضل امام کے لیے احادیث وفقہ میں کچھ شرائط بیان کی گئی ہیں، اس طرح کی کوئی شرط نکاح خواں کے لیے نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی غیرمسلم بھی ایجاب وقبول کروالے تب بھی نکاح منعقد ہوجائے گا۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ دو گواہوں کی موجودگی میں محض ایجاب وقبول سے نکاح منعقد ہو جاتا ہے۔ خطبہ کی حیثیت نکاح میں استحباب کی ہے اسی لئے بغیر خطبہ کے بھی نکاح درست ہو جاتا ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سہل بن سعد کا نکاح بغیر خطبہ کے پڑھایا۔ لہٰذا اگر کافر  نے خطبہ پڑھا یا نہیں پڑھا بلکہ صرف ایجاب وقبول کروا لیا تب بھی نکاح درست ہوگا اس سے نکاح کی صحت پر کوئی اثر نہ پڑے گا۔ نکاح خواں کی حیثیت صرف ایک ترجمان اور سفیر کی ہوتی ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ نکاح دیندار اور نیک شخص سے پڑھوایا جائے۔

فقیہ الامت مفتی محمود الحسن لکھتے ہیں :
دین دار مسلمان، یا عالمِ دین سے نکاح پڑھانا مستحب اور بہتر ہے، باقی اگر کسی غیر مسلم نے نکاح پڑھالیا، اور مجلس نکاح میں دلہا اور دلہن یا دلہن کا وکیل اورگواہان موجود تھے تو ایسا نکاح منعقد ہوجائے گا، اس لیے کہ نکاح خواں کی حیثیت محض معبر اور سفیر کی ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ : ١٠/٥٩٦)

انتظامی امور اور بعض حکمتوں کے تحت ہمارے یہاں نکاح پڑھانے کی ترتیب یہ بنی ہوئی ہے کہ لڑکی کے گھر کے اطراف کی کسی مسجد میں عموماً بارات جاتی ہے اور اسی مسجد کے امام صاحب نکاح نامہ تیار کرتے ہیں اور نکاح پڑھاتے ہیں اور اس کی اجرت وصول کرتے ہیں جو بلاشبہ جائز اور درست ہے۔ اب اس میں ایک رواج یہ چل نکلا ہے کہ لڑکے یا لڑکی والے کسی بھی بڑے عالم کو یا پھر انہیں جس عالم سے عقیدت ومحبت زیادہ ہوتی ہے ان کو نکاح پڑھانے کے لیے لے کر آتے ہیں، یہ عمل بھی اگرچہ شرعاً جائز ہے، لیکن یہ کوئی مسنون یا فضیلت والا عمل نہیں ہے۔ لہٰذا عاقدین یعنی لڑکی والے اور لڑکے والے دونو‌ں کو یہ مسئلہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جب یہ کوئی مسنون یا فضیلت والا عمل نہیں ہے تو پھر اس کے لیے بڑے علماء کو زحمت دینے یا پھر ان کے انتظار میں باراتیوں کو زحمت دینے ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ نکاح امام مسجد پڑھائے یا وہ عالم صاحب، دونوں کی ایک ہی بات ہے، دونو‌ں میں ہی ان شاءاللہ خیر وبرکت ہوگی، کسی کو کسی پر فضیلت حاصل نہیں، کیونکہ یہاں علمی لحاظ سے فوقیت اور عدم فوقیت کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ نکاح خواں کا اصل دیندار ہونا بہتر ہے جو بلاشبہ دونوں ہوں گے۔

وقالَ التِّرْمِذِيّ : وقد قالَ بعض أهل العلم : إن النِّكاح جائِز بِغَيْر خطْبَة، وهُوَ قَول سُفْيان الثورى وغَيره من أهل العلم. قلت : وأوجبها أهل الظّاهِر فرضا واحْتَجُّوا بِأنَّهُ ﷺ خطب عِنْد تزوج فاطِمَة، رَضِي الله تَعالى عَنْها، وأفعاله على الوُجُوب، واسْتدلَّ الفُقَهاء على عدم وُجُوبها بقوله فِي حَدِيث سهل بن سعد: قد زوجتها بِما مَعَك من القُرْآن۔ (عمدۃ القاری : ۱۳۴/۲۰)

والمَعْنى فِيهِ أنَّ العاقِدَ فِي بابِ النِّکَاحِ سَفِيرٌ ومُعَبِّرٌ۔ (المبسوط للسرخسي : ١٨/٥)

فإن عقد الزواج من غير خطبة جاز،فالخطبة مستحبة غير واجبة۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ : ۶۶۱۸/۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 جمادی الاول 1444

3 تبصرے: