ہفتہ، 31 دسمبر، 2022

کھانے کے فوراً بعد پانی پینے کا حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب! کیا کھانا کھانے کے فوراً بعد پانی پینا خلاف سنت ہے؟ کیا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھانا کھانے کے تقریباً آدھے گھنٹے بعد پانی پیتے تھے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عمران، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کھانے کے فوراً بعد پانی پینے سے متعلق کوئی حکم یا ترغیب وارد نہیں ہوئی ہے۔ اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس سلسلے میں مستقل کوئی ایک پہلو پر عمل کرنا ثابت ہے۔ بلکہ پانی پینا ثابت ہے اور نہ پینا بھی، دونوں طرح کاعمل نقل کیا گیا ہے۔

مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکروعمررضی اللہ عنہما کے ہمراہ ایک انصاری صحابی کے گھرتشریف لے گئے انہوں نے بکری ذبح کی اور کھانے کا اہتمام کیا، ان حضرات نے بکری کا گوشت اور کھجوریں تناول فرمائی اور پانی پیا۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھانے کے بعد پانی پیا ہے۔

امام ابن القیم جوزیؒ نے زاد المعاد میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ نبی اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کھانے کے فوراً بعد پانی نوش نہیں فرماتے تھے، اور اُس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ کھانے سے پہلے یا کھانے کے بعد پانی پینے سے ہضم میں دشواری ہوتی ہے، تقریباً یہی بات شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے مدارج النبوۃ ۱؍۵۱۵ میں بھی تحریر فرمائی ہے؛ لیکن دوسری طرف بعض صحیح احادیث میں نبی اکرم علیہ الصلاۃ والسلام کا کھانے کے بعد پانی اور مشروب نوش فرمانا ثابت ہے اور خود علامہ ابن القیمؒ نے اپنی دوسری کتاب ’’طبِ نبوی‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ اگر پیاس محسوس ہو تو کھانے کے بعد پانی پینے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ ایک دم سے بہت زیادہ نہ پیا جائے؛ بلکہ تھوڑا تھوڑا گھونٹ لے کر پیا جائے، اس طرح پینے سے معدہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، بلکہ فائدہ پہنچے گا۔ ان تفصیلات سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ نبی اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہمیشہ یہ معمول نہیں تھا کہ کھانے کے بعد پانی نہ پیتے ہوں، بلکہ جب جیسی ضرورت اور تقاضا ہوتا تھا پانی نوش فرماتے تھے، اس لئے کسی ایک پہلو کو خلافِ سنت کہنا مشکل ہے، اور کھانے سے پہلے یا درمیان میں یا بعد میں پانی پینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (کتاب النوازل : ١٦/٥٨)

خلاصہ یہ کہ آدمی اپنی ضرورت، طبیعت، مزاج اور طبی نقطہ نظر کو ملحوظ رکھتے ہوئے جس طرح چاہے عمل کرسکتا ہے، اس سلسلے میں کسی بھی پہلو کو سنت اور دوسرے کو خلافِ سنت کہنا درست نہیں۔ البتہ اگر کھانے کے فوراً بعد پانی پینا کسی کے لیے مضر ثابت ہونے لگے جیسا کہ بعض اطباء کہتے ہیں تو پھر اسے کھانے کے فوراً بعد پانی پینے سے بچنا چاہیے۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ کَيْسَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ أَوْ لَيْلَةٍ فَإِذَا هُوَ بِأَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ فَقَالَ مَا أَخْرَجَکُمَا مِنْ بُيُوتِکُمَا هَذِهِ السَّاعَةَ قَالَا الْجُوعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ وَأَنَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَخْرَجَنِي الَّذِي أَخْرَجَکُمَا قُومُوا فَقَامُوا مَعَهُ فَأَتَی رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ فَإِذَا هُوَ لَيْسَ فِي بَيْتِهِ فَلَمَّا رَأَتْهُ الْمَرْأَةُ قَالَتْ مَرْحَبًا وَأَهْلًا فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ فُلَانٌ قَالَتْ ذَهَبَ يَسْتَعْذِبُ لَنَا مِنْ الْمَائِ إِذْ جَائَ الْأَنْصَارِيُّ فَنَظَرَ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَاحِبَيْهِ ثُمَّ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ مَا أَحَدٌ الْيَوْمَ أَکْرَمَ أَضْيَافًا مِنِّي قَالَ فَانْطَلَقَ فَجَائَهُمْ بِعِذْقٍ فِيهِ بُسْرٌ وَتَمْرٌ وَرُطَبٌ فَقَالَ کُلُوا مِنْ هَذِهِ وَأَخَذَ الْمُدْيَةَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاکَ وَالْحَلُوبَ فَذَبَحَ لَهُمْ فَأَکَلُوا مِنْ الشَّاةِ وَمِنْ ذَلِکَ الْعِذْقِ وَشَرِبُوا فَلَمَّا أَنْ شَبِعُوا وَرَوُوا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتُسْأَلُنَّ عَنْ هَذَا النَّعِيمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَخْرَجَکُمْ مِنْ بُيُوتِکُمْ الْجُوعُ ثُمَّ لَمْ تَرْجِعُوا حَتَّی أَصَابَکُمْ هَذَا النَّعِيمُ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢٠٣٨)

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم آب بر طعام نمی خورد کہ مفسد است وتا طعام بانہضام نیارد آب نباید خورد۔ (مدارج النبوۃ : ۱؍۵۱۵)

ویکرہ شرب الماء عقیب الریاضۃ والتعب، وعقیب الجماع، وعقیب الطعام وقبلہ۔ (زاد المعاد مکمل : ۹۳۵ دارالمعرفۃ)

وأما علی الطعام فلا بأس بہ إذا اضطر إلیہ؛ بل یتعین ولا یکثر منہ بل یتمضضہ مصًا؛ فإنہ لا یضرہ البتۃ؛ بل یقوي المعدۃ وتنہض الشہوۃ، ویزیل العطش۔ (الطب النبوي لابن الجوزیۃ : ۳۰۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 جمادی الآخر 1444

جمعہ، 30 دسمبر، 2022

جھُک کر کسی کے پیر چھونے کا شرعی حکم

سوال :

محترم مفتی صاحب ! کسی بزرگ یا کسی عالم کے احترام میں جھک کر ان کے پیر چھونا کیسا عمل ہے؟ اور اگر یہ عمل ناجائز ہے تو کوئی کسی بزرگ یا عالم کا پیر چھوئے تو کیا اسے منع نہیں کرنا چاہیے؟ اگر وہ منع نہ کرے تو اس پر کیا حکم ہوگا؟ جواب مرحمت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : حامد اختر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی عالم یا بزرگ کے احترام میں اس کے پیر چھونا یعنی کھڑا ہوا شخص جھک کر اس کے پاؤں کو ہاتھ لگائے تو یہ ایک ہندوانہ رسم ہے جو من تشبہ بقوم فھو منھم کی وعید (جو جس قوم کی نقالی کرے گا اس کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا) میں داخل ہے۔

مسئلہ ھذا میں ہم دو فتاوی ایک دارالافتاء دارالعلوم دیوبند اور دوسرے ایک بریلوی مکتب فکر کے مفتی کا فتوی نقل کرتے ہیں تاکہ واضح ہوجائے کہ یہ مسئلہ اختلافی نہیں بلکہ اتفاقی ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
کسی کی عزت واحترام میں اس کے پاوٴں کو چھونا، یہ اسلامی طریقہ نہیں ہے، البتہ اس کے ہاتھ کو یا پیشانی کو بوسہ دے سکتے ہیں۔ (رقم الفتوی : 16960)

بریلوی مفتی محمد مدثر جاوید رضوی لکھتے ہیں :
پیر نہیں چھو سکتے ہیں اسلئے کہ یہ غیر مسلموں کا شعار ہے حدیث پاک میں ہے :

"من تشبه بقوم فھو منھم "  (مشکوة) 

جس اسکولوں میں ایسے فعل کرواتے ہوں ایسے اسکولوں میں بچوں کو پڑھنا پڑھانا ناجائز و حرام ہے، اگر عبادت سمجھ کر کرے تو کفر ہے۔ (مسائل شرعیہ بلاگ)

معلوم ہوا کہ یہ عمل غیر قوموں کا طریقہ ہے، دینِ اسلام میں اس کی گنجائش نہیں ہے، نیز کسی کے سامنے رکوع کی طرح جھکنا اور پیر چھونا سجدۂ تعظیمی کی طرح ہے جو ناجائز اور گناہ ہے۔ لہٰذا جس شخص کا جھک کر پیر چھوا جائے اس پر بھی لازم ہے کہ وہ ان لوگوں کو منع کرے، ورنہ وہ بھی ان لوگوں کے ساتھ ساتھ گناہ گار ہوگا۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٤٠٣١)

وَفِي الزَّاهِدِيِّ الْإِيمَاءُ فِي السَّلَامِ إلَى قَرِيبِ الرُّكُوعِ كَالسُّجُودِ۔ (شامی : ٦/٣٨٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
06 جمادی الآخر 1444

منگل، 27 دسمبر، 2022

لیڈیز جم خانوں سے اٹھتا ہوا سنگین فتنہ خدارا خبر لیجیے

لیڈیز جم خانوں سے اٹھتا ہوا سنگین فتنہ
              خدارا خبر لیجیے

قارئین کرام! صحت مند اور متناسب جسم ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے۔ اور ہونا بھی چاہیے کہ حدیث شریف میں صحت مند اور طاقتور مسلمان کو کمزور مسلمان سے بہتر کہا گیا ہے۔ چنانچہ صحت مند رہنے کے لیے لوگ بہت سارے جتن کرتے رہتے ہیں، انہیں میں ایک ورزش کرنا بھی ہے۔ لہٰذا فی زمانہ ورزش کرنے کے لیے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی جم خانوں کا رُخ کررہی ہیں، اب اگر یہاں خواتین کے لیے علیحدہ وقت میں پردہ کی مکمل رعایت کے ساتھ کسی لیڈیز ٹرینر کی نگرانی میں ورزش کی جائے تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن شہر کے کسی جم خانہ سے متعلق ایک ایسی بات سامنے آئی ہے کہ جسے سن کر ہمیں سخت صدمہ لگا۔ اس سلسلے میں ہمیں جو تحریر ملی ہے وہ ہم من وعن یہاں نقل کررہے ہیں۔
مفتی صاحب شہر میں ہو رہی ایک بہت بڑی خرافات کی طرف آپ کی توجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے شہر میں ایک نئی خرافات عام ہو چکی ہے اور لوگ اس کو برا بھی نہیں سمجھ رہے ہیں، وہ یہ کہ اپنی بہن بیٹیوں کو جم خانے میں ورزش کرنے کے لیے بھیج رہے ہیں وزن کم کرنے کے لیے، يا فٹ رہنے کے لیے۔ اور عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ وہاں صرف لیڈیز ہی ہیں اور بے جھجک بے پردہ ہوکر جم کرتی ہیں اور انجانے میں کسی سے کوئی حرکت بھی ہو جاتی ہے لیکن اس جم خانہ میں جو سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوتے ہیں اُسکا کنٹرول کسی مرد کے ہی ہاتھ میں ہوتا ہے ایسا ہی واقعہ شہر کے کسی ایک جم خانے کا ہوا کُچھ لوگ ایک جگہ بیٹھ کر یہ دیکھ رہے تھے کے کون سی لڑکی یا کون سی عورت کیسی ورزش کر رہی ہے؟ اور اس پر غلیظ تبصرے بھی کررہے ہیں جن میں بہت ساری باتیں تھی لیکن میں آپ کو بتا نہیں سکتا ہوں آپ سے درخواست ہے اس تعلّق سے کُچھ عرض کریں۔

اس تحریر سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ شہر کے کسی لیڈیز جم خانہ میں سی سی ٹی وی کیمرہ لگا ہوا ہے۔ لہٰذا جس جم خانہ میں کیمرہ لگا ہوا ہے وہاں خواتین کے لیے ورزش کرنا جائز ہی نہیں ہے، اس لیے کہ جم کرتے وقت وہ ایسی حالت میں ہوتی ہیں کہ اس حالت میں کسی مرد کا انہیں دیکھنا ناجائز اور حرام ہے۔ اب اگر ان کی یہ حالت کیمرہ میں قید ہوجاتی ہے تو یہ بہت بڑے فتنے کا دروازہ کھولنے والی ہے۔ اس سے بہت سارے اندیشے ہیں، ہم یہ نہیں کہتے کہ جم خانے والے معاذ اللہ کسی غلط نیت سے کیمرے لگا رہے ہیں، بلکہ وہ کسی حفاظتی نقطہ نظر سے کیمرہ لگارہے ہوں گے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ کیمرہ میں کسی کی ویڈیو آگئی اب اس کا قوی اندیشہ ہے کہ وہ کہیں بھی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ہوسکتا کہ کیمرے کی نگرانی کرنے والے نے کوئی غلط قدم اٹھالیا۔ یا پھر آپ کے کیمرے اور سسٹم کو ہی ہیک کرلیا گیا۔ اب آپ کیا کرسکیں گے؟ عزت تو ان خواتین کی جائے گی نا؟ اسی طرح معتبر ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا کے کہ بعض جم خانوں میں لیڈیز ممبران کا برتھ ڈے منایا جاتا ہے جس میں کیک کاٹنا اور ناچ گانے تک ہورہے ہیں۔

لہٰذا ہماری لیڈیز جم خانے والوں سے مؤدبانہ اور مخلصانہ درخواست ہے کہ پہلی فرصت میں اپنے جم خانہ سے کیمرے نکالیں، حفاظت کا کوئی اور بندوبست کریں، نیز جم خانہ میں صرف ورزش کی حد تک ہی معاملات ہوں، اس کے علاوہ اور کوئی بھی غیرشرعی سرگرمی نہ ہو، کسی کا برتھ ڈے سلیبریٹ نہ ہو، لاؤڈ-اسپیکر پر گانے بالکل نہ چلائیں، اس لیے کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے کہ ہر سننے والے کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی ہر ایک کا گناہ ملے گا، اور جو نہیں سننا چاہتے ہیں ان کو اس سے سخت تکلیف ہوتی ہے، اور ایذائے مسلم ناجائز اور حرام کام ہے۔ لہٰذا آپ کا لاؤڈ-اسپیکر پر گانا بجانا بلاشبہ بیٹھے بیٹھے اپنی آخرت برباد کرنا ہے۔ نیز جم جانے والی خواتین سے بھی مخلصانہ درخواست ہے کہ وہ بہت ضروری حالات میں ہی جم جوائن کریں، اور اس سے پہلے اس کی معلومات لے لیں کہ جم میں کیمرہ تو نہیں ہے؟ یا پھر وہاں اور کوئی غیرشرعی کام تو نہیں ہوتا؟ اگر اس طرح کی کوئی حرکت کسی جم خانہ میں ہورہی ہو وہاں بالکل نہ جائیں۔

اللہ تعالیٰ ہمارے شہر کی بہن بیٹیوں کی عزت وناموس کی حفاظت فرمائے اور ہم سب کو حیا اور پاکدامنی کی زندگی گذارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

پیر، 26 دسمبر، 2022

مصافحہ سے متعلق اہم سوالات

سوال :

محترم مفتی صاحب! مصافحہ کب کرنا چاہیے؟ اس کی فضیلت کیا ہے؟ مصافحہ کا مسنون طریقہ بتائیں، نیز بہت سے لوگ مصافحہ کرنے کے بعد سینہ پر ہاتھ پھیرتے ہیں، کیا ایسا کرنا درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عابد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نئی ملاقات اور اول وقت میں یا ایک طویل وقت کے بعد ملنے پرمصافحہ کرنا سنت ہے۔

حدیث شریف میں وارد ہوا ہے کہ جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور مصافحہ کرتے ہیں، تو جدا ہونے سے پہلے دونوں کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ دونوں کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جیسے درخت کے پتے جھڑتے ہیں۔

مصافحہ دونوں ہاتھوں سے کرنا سنت اور افضل ہے اس طرح کہ دونوں ہاتھوں سے ایک دوسرے کی ہتھیلیاں آپس میں ملائی جائیں، اِمام بخاری رحمہ اللہ نے بخاری شریف میں دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کے ثبوت کے لیے باقاعدہ ایک ترجمۃ الباب قائم فرمایا ہے، اور اُس کے تحت حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت نقل فرمائی ہے وہ فرماتے ہیں کہ : آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے تشہد سکھایا اس حالت میں کہ میرا ہاتھ آپ کے دو ہاتھوں کے درمیان تھا۔ نیز عقلاً بھی اپنے مسلمان بھائی سے دو ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں جس قدر تواضع، انکساری، الفت ومحبت، اور بشاشت کی جو کیفیت پائی جاتی ہے وہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں نہیں ہے۔ تاہم کبھی کسی وجہ سے ایک ہاتھ سے مصافحہ کرلیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

مصافحہ کرنے کے بعد سینہ پر ہاتھ رکھنا یا پھیرنا مصافحہ کے ارکان میں سے نہیں ہے، یہ ایک زائد عمل ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
مصافحہ کے بعد سینے پر ہاتھ رکھنا نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہی فقہائے کرام نے سلام ومصافحہ کے آداب میں اسے ذکر کیا ہے۔ اس لیے غیرمشروع زائد چیز ہونے کی بنا پر زائد رسم ہوئی، اور اگر سلام ومصافحہ کا مشروع جز سمجھ کر کیا جائے گا تو بدعت میں داخل ہوگی۔ (رقم الفتوی : 148938)

لہٰذا مصافحہ کے بعد سینے پر ہاتھ پھیرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَلْتَقِيَانِ فَيَتَصَافَحَانِ، إِلَّا غُفِرَ لَهُمَا قَبْلَ أَنْ يَفْتَرِقَا۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٥٢١٢)

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : وَالْمُسْلِمَانِ إِذَا تَصَافَحَا لَمْ يَبْقَ بَيْنَهُمَا ذَنْبٌ إِلَّا سَقَطَ۔ (شعب الایمان)

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سَيْفٌ، قَالَ : سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يَقُولُ : حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَخْبَرَةَ أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ : عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَفِّي بَيْنَ كَفَّيْهِ، التَّشَهُّدَ كَمَا يُعَلِّمُنِي السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ : " التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ". وَهُوَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْنَا، فَلَمَّا قُبِضَ قُلْنَا : السَّلَامُ. يَعْنِي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ (صحیح البخاری، رقم : ٦٢٦٥)

وَهِيَ إلْصَاقُ صَفْحَةِ الْكَفِّ بِالْكَفِّ وَإِقْبَالُ الْوَجْهِ بِالْوَجْهِ فَأَخْذُ الْأَصَابِعِ لَيْسَ بِمُصَافَحَةٍ خِلَافًا لِلرَّوَافِضِ، وَالسُّنَّةُ أَنْ تَكُونَ بِكِلْتَا يَدَيْهِ، وَبِغَيْرِ حَائِلٍ مِنْ ثَوْبٍ أَوْ غَيْرِهِ وَعِنْدَ اللِّقَاءِ بَعْدَ السَّلَامِ وَأَنْ يَأْخُذَ الْإِبْهَامَ، فَإِنَّ فِيهِ عِرْقًا يُنْبِتُ الْمَحَبَّةَ كَذَا جَاءَ فِي الْحَدِيثِ ذَكَرَهُ الْقُهُسْتَانِيُّ وَغَيْرُهُ اهـ۔ (شامی : ٦/٣٨١)

عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ۔ (صحیح مسلم، رقم : ١٧١٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 جمادی الاول 1444

اتوار، 25 دسمبر، 2022

اسکولوں میں ہونے والی گیدرنگ کی شرعی حیثیت

سوال :

محترم مفتی صاحب ! سال کا اختتام ہورہا ہے اور بہت ساری اسکولوں میں سال کےآخر میں گیدرنگ پروگرام ہوتے ہیں، اور پروگرام میں جو آخری پروگرام ہوتا ہے وہ ثقافتی پروگرام کے نام سے اسکولوں میں ڈرامہ بھی ہوتا ہے اس ڈرامہ میں ایکشن سانگ (جس گانے میں فلم ایکٹر جیسے ناچتا ہے) اسی طرز پر ہمارے بچوں سے کروایا جاتا ہے۔ اس معاملے میں آپ شرعی رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد صالح، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اسکولوں میں ہونے والے ثقافتی پروگرام (گیدرنگ) اگر شرعی حدود میں ہوں تو بلاشبہ اس کی اجازت ہوگی۔ یعنی اس میں تقریر، نعت، حمد اور نظمیں پڑھی جائیں اور اس میں ہاتھ سے کچھ ایکشن ہوں جسے دیکھتے ہی یہ محسوس نہ ہو کہ یہ ڈانس ہے تو اس کی گنجائش ہوگی۔ البتہ دن بدن ان پروگراموں میں شرعی قباحتیں در آرہی ہیں جیسا کہ سوال نامہ میں مذکور ہے کہ اب باقاعدہ اس میں Singing اور Dancing کا مظاہرہ بھی ہورہا ہے۔ حب الوطنی یا دیگر گیتوں کے Music اور Lyrics پر چھوٹے اور بڑے بچے بچیاں باقاعدہ تھرک رہے ہیں، اسے دیکھتے ہی یہی محسوس ہوگا کہ یہ رقص اور ڈانس ہی ہے۔ لہٰذا اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ موسیقی (Music) اور گانوں کا سننا، سنانا اور ناچ (Dance) کرنا، دیکھنا اور سیکھنا سکھانا سب ناجائز اور حرام ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں :
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ  لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ۔
ترجمہ: اور وہ لوگ ہیں کہ خریدار ہیں کھیل کی باتوں کے تاکہ بچلائیں اللہ کی راہ سے بن سمجھے اور ٹھہرائیں اس کو ہنسی وہ جو ہیں ان کو ذلت کا عذاب ہے۔ (سورۃ لقمان، آیت : ۶)

چنانچہ ’’لہو الحدیث‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ :
’’ان لہو الحدیث ہو الغناء واشباہہ‘‘
یعنی ’’لہو الحدیث‘‘ سے مراد گانا بجانا اور اسی قسم کی اور بہت سی چیزیں جو گانے بجانے اور موسیقی کے مشابہ ہوں۔

در مختار میں ہے :
’’وفی السراج: ودلت المسألۃ ان الملاہی کلہا حرام‘ ویدخل علیہم بلا اذنہم لانکار المنکر۔قال ابن مسعود: صوت اللہو والغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء النبات‘‘
ترجمہ: سراج میں ہے مسئلہ دلالت کرتا ہے کہ ملاہی (لہو لعب کی چیزیں) ساری حرام ہیں، حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ لہوو لعب کی آواز اور گانے کی آواز دل میں نفاق اگاتی ہے، جیساکہ پانی پودوں کو اگاتا ہے۔

اگر یہ بچے بالغ ہیں تو اس کا گناہ خود ان پر اور انہیں تیار کرنے والے ٹیچرس پر ہوگا، اور اگر نابالغ ہوں تو ان کا گناہ انہیں برضا ورغبت اس کام کی اجازت دینے والے والدین کو اور انہیں تیار کرنے والے ٹیچرس کو ملے گا۔ لہٰذا اسکولوں کے ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے آرڈر جاری کریں کہ فنون لطیفہ اور گیدرنگ کے نام پر غیرشرعی افعال کا صدور قطعاً نہ ہو، ورنہ اس طرح کی غیرشرعی تعلیم آخرت میں تو وبال ہوگی ہی اور دنیا میں بھی اس کا نقصان دیکھنے کو ملے گا۔

استماع الملاھی و الجلوس علیہا وضرب المزامیر والرقص کلہا حرام ‘‘ ومستحلہا کافر وفی الحمادیۃ من النافع اعلم ان التغنی حرام فی جمیع الادیان۔ (جامع الفتاوی، ۱/ ۷۳، رحیمیہ، دیوبند)

(قَوْلُهُ وَمَنْ يَسْتَحِلُّ الرَّقْصَ قَالُوا بِكُفْرِهِ) الْمُرَادُ بِهِ التَّمَايُلُ وَالْخَفْضُ وَالرَّفْعُ بِحَرَكَاتٍ مَوْزُونَةٍ كَمَا يَفْعَلُهُ بَعْضُ مَنْ يَنْتَسِبُ إلَى التَّصَوُّفِ۔ وَقَدْ نَقَلَ فِي الْبَزَّازِيَّةِ عَنْ الْقُرْطُبِيِّ إجْمَاعَ الْأَئِمَّةِ عَلَى حُرْمَةِ هَذَا الْغِنَاءِ وَضَرْبِ الْقَضِيبِ وَالرَّقْصِ. قَالَ وَرَأَيْتُ فَتْوَى شَيْخِ الْإِسْلَامِ جَلَالِ الْمِلَّةِ وَالدِّينِ الْكَرْمَانِيِّ أَنَّ مُسْتَحِلَّ هَذَا الرَّقْصِ كَافِرٌ، وَتَمَامُهُ فِي شَرْحِ الْوَهْبَانِيَّةِ. وَنَقَلَ فِي نُورِ الْعَيْنِ عَنْ التَّمْهِيدِ أَنَّهُ فَاسِقٌ لَا كَافِرٌ۔ (شامی : ٤/٢٥٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
01 جمادی الآخر 1444

ہفتہ، 24 دسمبر، 2022

صلوۃ وسطی سے کون سی نماز مراد ہے؟

سوال :

محترم جناب مفتی صاحب ! یہ مسئلہ پوچھنا ہے کہ قرآن مجید میں مذکور صلوة وسطیٰ سے کون سی نماز مراد ہے؟ کیا کسی صحابی سے اس تعیین ثابت ہے؟ ایک صاحب نے اس کی تفسیر یوں کی ہے ہم سنت ونوافل پڑھتے ہیں اس کے درمیان جو فرض نماز ادا کرتے ہیں وہ صلوۃ وسطیٰ ہے۔ ان کا قول درست ہے یا تفسیر بالرائے کے قبیل سے ہے؟مدلل جواب عنایت فرما کر ممنون فرمائیں
(المستفتی : افضال احمد ملّی، جامع مسجد پمپر کھیڑ، چالیسگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم کی سورہ بقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى، وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ۔
ترجمہ : تمام نمازوں کا پورا خیال رکھو، اور (خاص طور پر) بیچ کی نماز کا، اور اللہ کے سامنے باادب فرمانبردار بن کر کھڑے ہوا کرو۔ (بقرہ، آیت : ٢٣٨)

اس آیت کریمہ میں مذکور الصلوۃ الوسطی سے کون سی نماز مراد ہے؟ اس سلسلے میں صحابہ کرام کے زمانہ سے چند اقوال ملتے ہیں، چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں ہم نے بیس سے زائد تفاسير دیکھی ہیں جن میں سے چند تفاسیر کی عبارات من وعن نقل کرتے ہیں۔

تفسیر مظہری میں ہے :
اکثر کا قول یہ ہے اور یہی سب اقوال سے راجح بھی ہے کہ صلوٰۃ وسطی عصر کی نماز ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک جماعت نے نقل کیا ہے اور یہی قول علی ‘ ابن مسعود ‘ ابو ایوب ‘ ابوہریرہ ‘ عائشہ صدیقہ کا ہے اور یہی ابراہیم نخعی ‘ قتادہ ‘ حسن نے کہا ہے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد کا مذہب ہے کیونکہ حضرت علی (رض) روایت کرتے ہیں کہ جنگ احزاب کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے گھروں کو اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر ‘ جیسا کہ انہوں نے ہمیں صلوٰۃ وسطیٰ ( کے پڑھنے) سے روک دیا یہاں تک کہ آفتاب (بھی) غروب ہوگیا یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مسلم کی روایت میں اس طرح ہے کہ انہوں نے ہمیں صلوٰۃ وسطیٰ یعنی عصر کی نماز سے روک دیا خدا ان کے دلوں کو اور ان کے گھروں کو آگ سے بھرے۔ ایک اور حدیث ابن مسعود (رض) کی ہے کہ ( ایک مرتبہ) مشرکین نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کو عصر کی نماز نہیں پڑھنے دی تھی یہاں تک کہ دھوپ میں زردی آگئی یا کہا کہ سرخی آگئی اس وقت حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ انہوں نے ہمیں صلوٰۃ وسطیٰ ( کے پڑھنے) سے روک دیا خدا ان کے پیٹوں میں ا وران کی قبروں میں آگ بھرے یہ حدیث مسلم نے روایت کی ہے ابو یونس (رض) (حضرت عائشہ صدیقہ کے آزاد کردہ) کہتے ہیں کہ مجھے حضرت صدیقہ (رض) نے یہ حکم دیا کہ میرے لیے ایک قرآن مجید لکھ دو پھر فرمایا کہ جب تم اس آیت پر پہنچو تو مجھے اطلاع کردینا چناچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو میں نے اطلاع کردی ام المؤمنین نے فرمایا کہ : حافظوا علی الصلٰوت والصلٰوۃ والوسطٰی وصلٰوۃ العصر اور فرمایا کہ میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ سے یہ اسی طرح سنی ہے یہ روایت مسلم نے نقل کی ہے براء بن عازب کہتے ہیں کہ یہ آیت اس طرح نازل ہوئی تھی۔ حافظوا علی الصلوت وصلوٰۃ العصر اور جب تک اللہ عزو جل کو منظور ہوا ہم اسے اسی طرح پڑھتے رہے پھر اللہ نے اسے منسوخ کردیا اور اس طرح نازل ہوئی۔ حافظوا علی الصلوات والصلٰوۃ والوسطٰی یہ روایت مسلم نے نقل کی ہے امام مالک وغیرہ نے عمرو بن رافع سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوی حفصہ کے لیے قرآن شریف لکھتا تھا تو انہوں نے مجھ سے لکھوایا۔ حافظوا علی الصلوات والصلٰوۃ والوسطٰی و صلٰوۃ العصر۔ ابو داؤد نے عبد بن رافع سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں میں ام سلمہ کے لیے قرآن شریف لکھتا تھا فرمایا کہ ( یہ آیت اس طرح) لکھو : حافظوا علی الصلوات والصلٰوۃ والوسطٰی وصلٰوۃ العصر اور ابو داؤد ہی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ وہ بھی اس آیت کو اسی طرح پڑھتے تھے ابو داؤد نے حضرت حفصہ کے آزاد کردہ ابو رافع سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں قرآن شریف لکھتا تھا حضرت حفصہ نے فرمایا کہ ( یہ آیت اس طرح) لکھو : حافظوا علی الصلوات والصلٰوۃ الوسطٰی وصلٰوۃ العصر پھر میں ابی بن کعب سے ملا اور میں نے ان سے اس کو بیان کیا انہوں نے فرمایا یہ اسی طرح ہے جس طرح وہ کہتی ہیں کیا ہم ظہر کے وقت اپنی بکریاں اور اونٹنیوں میں زیادہ مشغول نہیں ہوتے ؟ حضرت عائشہ (رض) اور حضرت حفصہ کی حدیثوں کو اصحاب شافعی اپنی حجت ٹھہراتے اور یہ کہتے ہیں کہ صلوٰۃ وسطی پر صلوٰۃ عصر کا عطف کرنا مغائرت کی دلیل ہے ( یعنی اس عطف سے معلوم ہوتا ہے کہ صلوٰۃ وسطیٰ اور ہے اور صلوٰۃ عصر اور ہے) ہم کہتے ہیں نہیں بلکہ یہ عطف تفسیری ہے اور بغوی نے اپنی تفسیر میں عائشہ صدیقہ کی حدیث بغیر واؤ کے اس طرح نقل کی ہے : حافظوا علی الصلوات والصلٰوۃ والوسطٰی صلوٰۃ العصروا اللہ اعلم۔ (تفسیر مظہری : ٢٤٦، مکتبہ جبریل)

تفسیر ابن کثیر میں ہے :
اکثر علماء صحابہ وغیرہ کا یہی قول ہے، جمہور تابعین کا بھی یہی قول ہے اور اکثر اہل اثر کا بھی، بلکہ جمہور لوگوں کا، حافظ ابو محمد عبدالمومن دمیاطی نے اس بارے میں ایک مستقل رسالہ تصنیف فرمایا ہے جس کا نام کشف الغطاء فی تبیین الصلوۃ الوسطیٰ ہے اس میں ان کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ صلوۃ وسطیٰ عصر کی نماز ہے۔ حضرت عمر، حضرت علی، ابن مسعود، ابو ایوب، عبداللہ بن عمرو، سمرہ بن جندب، ابوہریرہ، ابو سعید، حفصہ، ام حبیبہ، ام سلمہ، ابن عمر، ابن عباس، عائشہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) وغیرہ کا فرمان بھی یہی ہے اور ان حضرات سے یہی مروی ہے اور بہت سے تابعین سے یہ منقول ہے۔ امام احمد اور امام شافعی کا بھی یہی مذہب ہے۔ امام ابوحنیفہ کا بھی صحیح مذہب یہی ہے۔ ابو یوسف، محمد سے بھی یہی مروی ہے۔ ابن حبیب مالکی بھی یہی فرماتے ہیں۔ اس قول کی دلیل سنیئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ احزاب میں فرمایا اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کے دلوں کو اور گھر کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں صلوۃ وسطیٰ یعنی نماز عصر سے روک دیا (مسند احمد) حضرت علی فرماتے ہیں کہ ہم اس سے مراد صبح یا عصر کی نماز لیتے ہیں یہاں تک کہ جنگ احزاب میں میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنا، اس میں قبروں کو بھی آگ سے بھرنا وارد ہوا ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ عصر کی نماز ہے۔ (تفسیر ابن کثیر : ٢٤٦)

تفسیر قرطبی میں ہے :
” والصلوۃ الوسطی “ سے مراد نماز عصر ہے، کیونکہ اس سے پہلے دن کی دو نمازیں ہیں اور اس کے بعد رات کی دو نمازیں ہیں، نحاس نے کہا ہے : اس استدلال میں سے عمدہ اور اعلی یہ ہے کہ یہ نماز ہے جس کے لئے وسطی کہا گیا ہے کیونکہ یہ دو نمازوں کے در میان ہے ان میں سے ایک وہ ہے جو سب سے اول فرض کی گئی اور دوسری وہ نماز ہے جو دوسرے نمبر پر فرض کی گئی۔
اور جنہوں نے کہا ہے کہ یہی نماز صلوۃ وسطی ہے ان میں سے حضرت علی بن ابی طالب، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں (٤) (صحیح بخاری باب : الدعاء علی المشرکین، حدیث نمبر : ٥٩١٧، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہی امام ابوحنیفہ اور آپ کے اصحاب رحمۃ اللہ علہیم کا مختار ہے۔ امام شافعی (رح) اور اکثر اہل الاثر نے یہی کہا ہے اور عبدالملک بن حبیب نے بھی یہی موقف اپنایا ہے اور ابن عربی نے بھی قبس میں اور ابن عطیہ نے اپنی تفسیر میں اسے ہی اختیار کیا ہے اور کہا ہے : اسی قول پر جمہور لوگ ہیں اور یہی میں بھی کہتا ہوں۔ (تفسیر قرطبی : ٢٤٦)

حضرت مولانا غلام اللہ خان لکھتے :
صلوۃ وسطیٰ کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ اکثر صحابہ، تابعین اور ائمہ دین اس طرف گئے گئے ہیں کہ اس سے مراد نماز عصر ہے۔ الثانی انھا العصر لانھا بین صلاتی النھار وصلاتی اللیل وھو المروی عن علی والحسن وابن عباس وابن مسعود وخلق کثیر وعلیہ الشافعیة والاکثرون صححوا انھا صلوۃ العصر (روح ص 156 ج 2) ۔ اکثریت کی رائے یہ ہے کہ اس سے نماز عصر مراد ہے کیونکہ وہ دن کی دو نمازوں اور رات کی دو نمازوں کے درمیان ہے۔ (جواہر القرآن : ٢٤٦)

مفتی شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے حکیم الامت حضرت علامہ تھانوی رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھا ہے :
کثرت سے علماء کا قول بعض احادیث کی دلیل سے یہ ہے کہ بیچ والی نماز سے مراد نماز عصر ہے کیونکہ اس کے ایک طرف دو نمازیں دن کی ہیں فجر اور ظہر اور ایک طرف دو نمازیں رات کی ہیں مغرب اور عشاء، اس کی تاکید خصوصیت کے ساتھ اس لئے کی گئی کہ اکثر لوگوں کو یہ وقت کام کی مصروفیت کا ہوتا ہے اور عاجزی کی تفسیر حدیث میں سکوت کے ساتھ آئی ہے۔(معارف القرآن : ٢٤٦)

مفتی محمد عاشق الہی بلند شہری لکھتے ہیں :
احادیث صحیحہ میں اس کی تصریح ہے کہ صلاۃ وسطیٰ ، (درمیان والی نماز) سے عصر کی نماز مراد ہے۔ اس نماز کا خصوصی دھیان رکھنے کے لیے اس لیے ارشاد فرمایا کہ عموماً تجارتی امور اور کاروبار اور بہت سے کام ایسے وقت میں سامنے آجاتے ہیں جبکہ نماز عصر کا وقت ہوتا ہے۔ مالوں کی خریدو فروخت کی گرم بازاری عصر ہی کے وقت ہوتی ہے، اس وقت میں نمازوں کی پابندی کرنے والے بھی نماز عصر سے غافل ہوجاتے ہیں۔ (انوار البیان : ٢٤٦)

مولانا عبدالحق حقانی دہلوی لکھتے ہیں :
الصلواۃ الواسطیٰ کی تعین میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض ظہر بعض نماز صبح کہتے ہیں مگر احادیث قویہ سے عصر کی نماز معلوم ہوتی ہے جیسا کہ صحیحین میں آیا ہے کہ مشرکوں نے ہم کو صلوٰۃ الوسطیٰ سے روک دیا۔ خدا ان کی قبر آگ سے بھرے اور یہ واقعہ جنگ احزاب میں نماز عصر کا ہے۔ (تفسیر حقانی : ٢٤٧)

مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم لکھتے ہیں :
بیچ کی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے، اس کا خاص طور پر اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ عام طور سے اس وقت لوگ اپنا کاروبار سمیٹنے میں مشغول ہوتے ہیں اور اس مشغولیت میں بے پروائی ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ (توضیح القرآن : ١٨١)

درج بالا تمام تفاسیر سے اصح اور راجح قول یہی معلوم ہوتا ہے کہ صلوۃ وسطی سے مراد عصر کی نماز ہے۔ لہٰذا سوال نامہ میں مذکور صاحب کی بات کہ " ہم سنت ونوافل پڑھتے ہیں اس کے درمیان جو فرض نماز ادا کرتے ہیں وہ صلوۃ وسطیٰ ہے" اس طرح کی کوئی بات کسی بھی معتبر تفسیر میں نہیں ملتی، لہٰذا یہ بات تفسیر بالرائے ہی معلوم ہوتی ہے جو شرعاً درست نہیں ہے۔

وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالُوا : حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ، عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَكَلٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ : " شَغَلُونَا عَنِ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى صَلَاةِ الْعَصْرِ، مَلَأَ اللَّهُ بُيُوتَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا، ثُمَّ صَلَّاهَا بَيْنَ الْعِشَاءَيْنِ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ۔ (صحیح المسلم، رقم : ٦٢٧)

عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأَ۔ (سنن الترمذي،  رقم : ۲۹۵۲)

قال السیوطي : اخْتَلَفَ النّاسُ فِي تَفْسِيرِ القُرْآنِ هَلْ يَجُوزُ لِكُلِّ أحَدٍ الخَوْضُ فِيهِ؟ فَقالَ قَوْمٌ: لا يَجُوزُ لِأحَدٍ أنْ يَتَعاطى تَفْسِيرَ شَيْءٍ مِنَ القُرْآنِ  وإنْ كانَ عالِمًا أدِيبًا متسما فِي مَعْرِفَةِ الأدِلَّةِ والفِقْهِ والنَّحْوِ والأخْبارِ والآثارِ ولَيْسَ لَهُ إلّا أنْ يَنْتَهِيَ إلى ما رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي ذَلِكَ۔ (الإتقان في علوم القرآن : ٤/٢١٣)

(مَن قالَ) أيْ: مَن تَكَلَّمَ (فِي القُرْآنِ) أيْ: فِي مَعْناهُ أوْ قِراءَتِهِ (بِرَأْيِهِ) أيْ: مِن تِلْقاءِ نَفْسِهِ مِن غَيْرِ تَتَبُّعِ أقْوالِ الأئِمَّةِ مِن أهْلِ اللُّغَةِ والعَرَبِيَّةِ المُطابِقَةِ لِلْقَواعِدِ الشَّرْعِيَّةِ، بَلْ بِحَسَبِ ما يَقْتَضِيهِ عَقْلُهُ، وهُوَ مِمّا يَتَوَقَّفُ عَلى النَّقْلِ بِأنَّهُ لا مَجالَ لِلْعَقْلِ فِيهِ۔ (مرقاۃ المفاتیح : ۱/٣٠٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 جمادی الاول 1444