جمعہ، 31 دسمبر، 2021

شہر میں نئی خرافات اور برائی کا اضافہ شہریان سدباب کی کوشش کریں

شہر میں نئی خرافات اور برائی کا اضافہ
             شہریان سدباب کی کوشش کریں

قارئین کرام ! شہرِ عزیز میں جہاں بہت سارے نیک اعمال انجام دئیے جاتے ہیں وہیں آئے دن یہاں نئی نئی برائیوں کا اضافہ بھی ہورہا ہے۔ پیشِ نظر مضمون میں ہم ایسی ہی ایک نئی خرافات اور برائی کی طرف نشاندہی کرکے اس کی قباحت وشناعت بیان کریں گے، نیز اس بات کی کوشش بھی کریں گے کہ یہ برائی فوراً ختم ہوجائے۔ ان شاءاللہ

محترم قارئین ! معاملہ یہ ہے کہ شہر کی ایک نئی ہوٹل میں بڑے شہروں کی طرح باقاعدہ اسٹیج بناکر گانے باجے کا انتظام کیا گیا ہے۔ جہاں ہر سنڈے کو گانے باجے کا پروگرام رکھا جائے گا اور لوگ کھانا کھاتے ہوئے یا چائے پیتے ہوئے براہ راست سنگروں سے لطف اندوز ہوں گے، بلکہ غالباً ایسے پروگرام منعقد ہو بھی چکے ہیں۔

فی الحال ایک اشتہار بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں لکھا ہوا ہے کہ اس ہوٹل میں باقاعدہ تھرٹی فرسٹ کو سلیبریٹ کیا جائے گا۔ جس کے لوازمات میں یہ ہے کہ اس وقت یہاں ٩٠ کی دہائی کی ہندی فلموں کے گانے گائے اور بجائے جائیں گے اور آتش بازی کے ذریعے نئے سال کا ویلکم کیا جائے گا۔ اور بڑے فخر سے اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ مالیگاؤں میں پہلی بار۔ جبکہ اس ہوٹل کے مالکان (جو کہ مسلمان ہیں) کو معلوم ہونا چاہیے کہ خدانخواستہ خدانخواستہ خدانخواستہ اگر یہ برائی ہمارے شہر میں شروع ہوگئی اور شروع کرنے والوں نے توبہ و استغفار کرکے اسے بند نہیں کیا تو بعد میں شروع کرنے والوں کا گناہ بھی ان کے کھاتے میں بھی آئے گا۔ کیونکہ دوسروں کو برائی کی طرف رہنمائی کرنے کا کام انہیں نے کیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَآمِنُوا بِمَا أَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ۔
ترجمہ : اور جو کلام میں نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ جبکہ وہ اس کتاب (یعنی تورات) کی تصدیق بھی کررہا ہے جو تمہارے پاس ہے اور تم ہی سب سے پہلے اس کے منکر نہ بن جاؤ۔ (سورہ بقرہ، آیت : ٤١)
(اَوَّلَ كَافِرٍۢ بِهٖ) کافر ہونا خواہ سب سے پہلے ہو یا بعد میں بہرحال انتہائی ظلم اور جرم ہے مگر اس آیت میں یہ فرمایا کہ پہلے کافر نہ بنو اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ جو شخص اول کفر اختیار کرے گا تو بعد میں اس کو دیکھ کر جو بھی کفر میں مبتلا ہوگا اس کا وبال جو اس شخص پر پڑے گا اس پہلے کافر پر بھی اس کا وبال آئے گا اس طرح یہ پہلا کافر اپنے کفر کے علاوہ بعد کے لوگوں کے کفر کا سبب بن کر ان سب کے وبال کفر کا بھی ذمہ دار ٹھہرے گا اور اس کا عذاب چند در چند ہوجائے گا۔

اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص دنیا میں دوسروں کے لئے کسی گناہ میں مبتلا ہونے کا سبب بنتا ہے تو جتنے آدمی اس کے سبب سے مبتلائے گناہ ہوں گے ان سب کا گناہ ان لوگوں کو بھی ہوگا اور اس شخص کو بھی، اسی طرح جو شخص دوسروں کے لئے کسی نیکی کا سبب بن جائے تو جتنے آدمی اس کے سبب سے نیک عمل کریں گے اس کا ثواب جیسا ان لوگوں کو ملے گا ایسا ہی اس شخص کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا قرآن مجید کی متعدد آیات اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعدد احادیث میں یہ مضمون بار بار آیا ہے۔ (معارف القرآن)

لہٰذا ہماری ہوٹل مالکان سے مخلصانہ اور عاجزانہ درخواست ہے کہ اللہ کے لیے یہ ظلم نہ کریں، پہلی فرصت میں یہ ناجائز اور حرام کام اپنی ہوٹل سے ختم کریں۔ شریعت کے اصولوں کے مطابق تجارت کریں، ان شاء اللہ بہت برکت ہوگی، شہر کے حالات ویسے ہی کافی خراب ہیں، نوجوانوں کی خرمستیاں عروج پر ہیں، انہیں مزید گناہ کے مواقع فراہم نہ کریں۔ اسی طرح اثر ورسوخ رکھنے والے شہریان سے بھی گذارش ہے کہ وہ ہوٹل مالکان کو سنجیدگی سے سمجھائیں، امید ہے کہ وہ اس سے باز آجائیں گے۔

اخیر میں نئے سال کا جشن منانے سے متعلق یہ بات بھی سمجھ لیں کہ یہ مسلمانوں کا طرز عمل نہیں ہے بلکہ غیرمسلموں کا طریقہ ہے جو ناجائز اور گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی حماقت کی بات ہے۔ اور اس بے وقوفی کو اس مثال کے ذریعے سمجھ لیا جائے کہ دنیا میں ہونے والے امتحانات کے درمیان اگر طلبہ کو تین دن کی تعطیل ملتی ہے تو عقلمند اور ہوشیار طلبہ اسے بڑی غنیمت جانتے ہیں اور اس پورے وقت کو امتحان کی تیاری میں صَرف کرتے ہیں، اب اگر کوئی طالب علم ان میں سے ایک ایک دن کے گزرنے پر جشن اور خوشی منائے تو بلاشبہ اسے احمق ہی کہا جائے گا۔ کیونکہ اپنے امتحان کو بہتر سے بہتر بنانے کا وقت گزر رہا ہے اور یہ بے وقوف خوشی منا رہا ہے۔ تو پھر ہمیشہ ہمیش کی آخرت بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو مقررہ وقت دیا ہے اس کے کم ہونے پر جشن منانا اعلی درجہ کی حماقت میں شمار ہوگا۔ لہٰذا مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ Happy New year کی پارٹیوں کا انعقاد کرنے اور اس میں شرکت کرنے سے اجتناب کریں۔ نیز اس طرح کی پارٹیوں کو دور سے دیکھنے جانے کی بھی بے وقوفی نہ کریں کیونکہ یہ عمل بھی کسی نہ کسی درجہ میں ان کے لیے تقویت کا سبب بنے گا۔ بلکہ اپنے سابقہ اعمال کا جائزہ لے کر برے اعمال سے توبہ اور نیک اعمال میں اضافہ کی کوشش کریں۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو کہنے سننے اور لکھنے پڑھنے سے زیادہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

جمعرات، 30 دسمبر، 2021

کرونا میں انتقال پر ملنے والی سرکاری امداد کا مصرف؟

سوال :

مفتی صاحب ! زید کا کرونا میں انتقال ہوا۔ سرکار کی طرف سے 50000 ہزار کی رقم دی جارہی ہے گھر کے لوگ نہیں لینا چاہ رہے ہیں مگر اس خدشہ سے کہ اس رقم کو درمیانی کرمچاری نہ لے اڑیں، اس لئے اب لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ مرحوم کی والدہ اور چھ بہنیں ہیں جو شادی شدہ ہیں، تین خوشحال گھرانے سے ہیں اور تین غریب گھرانے سے۔ ان کے علاوہ زید کا اور کوئی رشتہ دار نہیں ہے۔سرکار کی جانب سے ملنے والی 50000 رقم کا مصرف کیا ہوگا؟ شریعت کی روشنی میں بتائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : جمال سر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کرونا نامی بیماری کے سبب انتقال ہونے پر حکومت کی طرف سے ملنے والی رقم تبرع اور امداد ہے، جس کا لینا شرعاً جائز اور درست ہے اور اس امدادی رقم میں تمام ورثاء کا حق ہوگا۔

صورتِ مسئولہ میں جبکہ مرحوم زید کے وارثین میں صرف والدہ اور چھ بہنیں ہیں تو اس 50000 کی رقم کے پندرہ حصے کیے جائیں گے۔ زید کی والدہ کو تین حصے یعنی 10000 روپے ملیں گے۔ اور ایک بہن کو دو حصے یعنی 6666.67 روپے ملیں گے۔

قَالَ الْفَقِيهُ أَبُو اللَّيْثِ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي أَخْذِ الْجَائِزَةِ مِنْ السُّلْطَانِ قَالَ بَعْضُهُمْ يَجُوزُ مَا لَمْ يَعْلَمْ أَنَّهُ يُعْطِيهِ مِنْ حَرَامٍ قَالَ مُحَمَّدٌ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَبِهِ نَأْخُذُ مَا لَمْ نَعْرِفْ شَيْئًا حَرَامًا بِعَيْنِهِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَأَصْحَابِهِ، كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٤٢)

قال اللّٰہ تعالیٰ : فَاِنْ لَمْ یَکُنْ لَہٗ وَلَدٌ وَرَوِثَہٗ اَبَوَاہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ، فَاِنْ کَانَ لَہٗ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ۔ (سورۃ النساء، جزء آیت : ۱۱)

قال اللّٰہ تعالیٰ : فَاِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَکَ۔(سورۃ النساء، جزء آیت : ۱۷۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 جمادی الآخر 1443

بدھ، 29 دسمبر، 2021

نماز میں وسوسہ آئے تو تھتکارنے کی تحقیق

سوال :

مفتی صاحب! درج ذیل حدیث پر عمل کے بارے میں کیا شکل ہے؟ کیا اس پر عمل درآمد کر سکتے ہیں؟
سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! شیطان میری نماز میں حائل ہو گیا اور مجھ کو قرآن بھلا دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس شیطان کا نام خنزب ہے جب تجھے اس شیطان کا اثر معلوم ہو تو اللہ کی پناہ مانگ اس سے اور بائیں طرف تین بار تھوک۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے ایسا ہی کیا پھر اللہ نے اس شیطان کو مجھ سے دور کر دیا۔
(المستفتی : شیخ زبیر، پونے)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آپ کی ارسال کردہ روایت مسلم شریف میں موجود ہے۔ البتہ علماء نے اس کی مختلف توجیہات کی ہیں جیسا کہ مشہور حنفی فقیہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا تعلق اس وسوسہ سے ہے جو نماز شروع کرنے سے پہلے ہوتا ہو، لہٰذا جس شخص نے نماز شروع نہیں کی اس کو اگر وسوسہ آجائے تو وہ اعوذ باللہ پڑھ کر بائیں طرف تین مرتبہ تھتکار دے۔

ایک توجیہ یہ کی گئی ہے کہ یہ حکم اس وقت تھا جب نماز میں باتیں کرنا جائز تھا، پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا۔

ایک توجیہ شارحین حدیث نے یہ بیان کی ہے کہ یہ حکم اس نمازی کو ہے جو نماز سے فارغ ہوچکا ہو، یعنی نماز سے فارغ ہوکر یہ عمل کرلے کہ شیطان سے بدلہ ہوجائے اور آئندہ نماز میں تنگ نہ کرے۔

لہٰذا نماز میں اگر وسوسہ آئے تو اس کا علاج یہ ہے  کہ اس کی طرف توجہ نہ دی جائے، اور اللہ کی عظمت اور جلال کا تصور کرتے  ہوئے نماز پوری کی جائے اور یہ تصور کیا جائے  کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں یا وہ مجھے دیکھ رہا ہے، اور ہر رکن  کے سنن و آداب کا خیال رکھے۔ لیکن اس کے باوجود اگر وسوسہ باقی رہے تو اسے دور کرنے کے لیے "اعوذ بالله" زبان سے نہ پڑھے، بلکہ دل ہی دل میں پڑھ لینے کی گنجائش ہوگی، تاہم اگر کوئی وسوسہ دور کرنے کے لیے زبان سے پڑھ لے تو اس کی نماز فاسد نہ ہوگی، نیز تھوکنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر کوئی اس طرح تھوک دے کہ دیکھنے والوں کو گمان ہو کہ یہ نماز نہیں پڑھ رہا ہے تو یہ عملِ کثیر ہوجائے گا جس سے نماز فاسد ہوجائے گی۔

عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ حَالَ بَيْنِي وَبَيْنَ صَلَاتِي وَقِرَاءَتِي، يَلْبِسُهَا عَلَيَّ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " ذَاكَ شَيْطَانٌ يُقَالُ لَهُ : خِنْزَبٌ، فَإِذَا أَحْسَسْتَهُ فَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْهُ، وَاتْفِلْ عَلَى يَسَارِكَ ثَلَاثًا ". قَالَ : فَفَعَلْتُ ذَلِكَ، فَأَذْهَبَهُ اللَّهُ عَنِّي۔ (صحیح المسلم، رقم : ٢٢٠٣)

(«قالَ : قُلْتُ يا رَسُولَ اللَّهِ! إنَّ الشَّيْطانَ قَدْ حالَ بَيْنِي، وبَيْنَ صَلاتِي، وبَيْنَ قِراءَتِي») أيْ : يَمْنَعُنِي مِنَ الدُّخُولِ فِي الصَّلاةِ، أوْ مِنَ الشُّرُوعِ فِي القِراءَةِ بِدَلِيلِ تَثْلِيثِ التَّفْلِ، وإنْ كانَ فِي الصَّلاةِ، ولْيَتْفُلْ ثَلاثَ مَرّاتٍ غَيْرَ مُتَوالِياتٍ، ويُمْكِنُ حَمْلُ التَّفْلِ والتَّعَوُّذِ عَلى ما بَعْدَ الصَّلاةِ، والمَعْنى جَعَلَ بَيْنِي وبَيْنَ كَمالِهِما حاجِزًا مِن وسْوَسَتِهِ المانِعَةِ مِن رُوحِ العِبادَةِ، وسِرِّها، وهُوَ الخُشُوعُ والخُضُوعُ۔ (مرقاۃ المفاتیح : ١/١٤٦)

وَلَوْ حَوْقَلَ لِدَفْعِ الْوَسْوَسَةِ إنْ لِأُمُورِ الدُّنْيَا تَفْسُدُ لَا لِأُمُورِ الْآخِرَةِ۔ (شامی : ١/٦٢١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 جمادی الاول 1443

منگل، 28 دسمبر، 2021

قیامت کے دن زمین روٹی بن جائے گی حدیث کی تشریح

سوال :

درج ذیل حدیث شریف کی تشریح مطلوب ہے۔

حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ  نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا قیامت کے دن ساری زمین ایک روٹی کی طرح ہوجائے گی جسے اللہ تعالیٰ اہل جنت کی میزبانی کے لیے اپنے ہاتھ سے الٹے پلٹے گا جس طرح تم دستر خوان پر روٹی لہراتے پھراتے ہو۔ پھر ایک یہودی آیا اور بولا: ابوالقاسم! تم پر رحمن برکت نازل کرے کیا میں تمہیں قیامت کے دن اہل جنت کی سب سے پہلی ضیافت کے بارے میں خبر نہ دوں؟ آپ  ﷺ  نے فرمایا، کیوں نہیں۔ تو اس نے  (بھی یہی)  کہا کہ ساری زمین ایک روٹی کی طرح ہوجائے گی جیسا کہ نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا تھا۔ پھر نبی کریم  ﷺ  نے ہماری طرف دیکھا اور مسکرائے جس سے آپ کے آگے کے دانت دکھائی دینے لگے۔ پھر  (اس نے)  خود ہی پوچھا کیا میں تمہیں اس کے سالن کے متعلق خبر نہ دوں؟  (پھر خود ہی)  بولا کہ ان کا سالن بالام ونون‏.‏ ہوگا۔ صحابہ ؓ نے کہا کہ یہ کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ بیل اور مچھلی جس کی کلیجی کے ساتھ زائد چربی کے حصے کو ستر ہزار آدمی کھائیں گے۔ (بخاری)
(المستفتی : خلیل احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ارسال کردہ حدیث بلاشبہ درست ہے اور امام بخاری ومسلم رحمھما اللہ دونوں نے اسے روایت کیا ہے۔ اس حدیث شریف کی تشریح میں حضرت شاہ عبدالعزيز محدث دہلوی کے نواسے نواب محمد قطب الدین خان دہلوی رحمھما اللہ نے جو کچھ فرمایا ہے اسے یہاں من وعن نقل کیا جارہا ہے۔

اپنے ہاتھوں سے اس طرح الٹے پلٹے گا" کے ذریعہ اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح روٹی پکانے والا شخص روٹی گھڑنے والا اس کو گول ( برابر اور باریک کرنے کے لئے اس کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر پھیرتا ہے پھر توے یا گرم بھوبل پر اس کو الٹ پلٹ کر سینکتا ہے اسی طرح یہ زمین بھی الٹی پلٹی جائے گی اور اس کو روٹی بنا دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن یہ روٹی ہو جائے گی اور  جنت میں جانے والوں کا کھانا بنے گی کہ وہ جنت میں جانے کے وقت پہلے اس کو کھائیں گے۔

پس حضرات نے حدیث کے الفاظ کو ان کے ظاہرمعنی ہی پر محمول کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ بات حق تعالیٰ کی قدرت سے بعید نہیں ہے وہ اس پر قادر ہے کہ اس زمین کو روٹی بنا دے اور اہل جنت کو کھانے کے لئے دے۔ لہٰذا زیادہ صحیح یہی ہے کہ حدیث کا یہی ظاہری مفہوم مراد لیا جائے اور اس بارے میں کسی شک وشبہ کو اندر آنے کا موقع نہ دیا جائے۔ ویسے کچھ حضرات نے حدیث کے ان مذکورہ الفاظ کو اس کے ظاہری معنی پر حمل نہ کرکے تاویل وتوجیہ کا راستہ اختیار کیا ہے، لیکن ان کی ان تاویلات وتوجیہات کو طوالت کے خوف سے ذکر نہیں کیا جار ہا ہے۔

آنحضرت ﷺ نے ہماری طرف دیکھا اور ہنس دیئے " اس یہودی عالم نے جو کچھ بیان کیا وہ تورات میں پڑھ کر بیان کیا تھا اور اس کی وہ باتیں گویا آنحضرت ﷺ کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کرتی تھیں علاوہ ازیں وہ باتیں صحابہ کرام کے یقین اور قوت ایمان میں اضافہ کا سبب بنی تھیں اس لئے آنحضرت ﷺ ان پر اظہار اطمینان کے لئے ہنسے اور اس طرح ہنسے کہ آپ ﷺ کی ظاہر ہوگئیں۔

ستر ہزار آدمی" سے مراد وہ بندگان خاص ہیں جو حساب ومؤاخذہ کے مراحل سے گزرے بغیر جنت میں جائیں گے اور جن کے چہرے چودھویں کے چاند کی طرح روشن وتابناک ہوں گے اور ہوسکتا ہے کہ "ستر ہزار" سے مخصوص عدد مراد نہ ہو بلکہ محض کثرت مبالغہ مراد ہو۔

زائدہ کبد" (یعنی جگر کا زائد حصہ) اصل میں جگر ہی کے اس چھوٹے ٹکڑے کو کہتے ہیں جو اسی کے ساتھ ایک جانب ہوتا ہے اس حصہ کو بہت لذیذ اور پسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔

ایک احتمال یہ ہے کہ صحابہ کرام کے پوچھنے پر " بالام ونون " کے جو معنی بیان کئے گئے وہ اس یہودی عالم نے نہیں بلکہ خود آنحضرت ﷺ نے بیان کئے ہوں اور یہ ہو کہ جب صحابہ اس لفظ کے معنی نہ سمجھے اور انہوں نے اس بارے میں سوال کیا تو اس سے پہلے کہ یہودی عالم جواب دیتا آنحضرت ﷺ کو بذریعہ وحی اس عبرانی لفظ کے معنی بتا دیئے گئے اور آپ ﷺ نے صحابہ کے سامنے بیان فرما دئیے۔ (مظاہر حق جدید : ٥/١١٢)

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالِدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ تَكُونُ الْأَرْضُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خُبْزَةً وَاحِدَةً يَتَكَفَّؤُهَا الْجَبَّارُ بِيَدِهِ كَمَا يَكْفَأُ أَحَدُكُمْ خُبْزَتَهُ فِي السَّفَرِ نُزُلًا لِأَهْلِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَى رَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ بَارَكَ الرَّحْمَنُ عَلَيْكَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا أُخْبِرُكَ بِنُزُلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَكُونُ الْأَرْضُ خُبْزَةً وَاحِدَةً كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَنَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْنَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَلَا أُخْبِرُكَ بِإِدَامِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِدَامُهُمْ بَالَامٌ وَنُونٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ وَمَا هَذَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ ثَوْرٌ وَنُونٌ يَأْكُلُ مِنْ زَائِدَةِ كَبِدِهِمَا سَبْعُونَ أَلْفًا۔ (صحیح البخاری، رقم : ٦٥٢٠)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 جمادی الاول 1443

برف سے وضو کرنے کا حکم

سوال :

مفتی صاحب کیا برف سے وضو کیا جا سکتا ہے؟ جیسا کہ ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : آصف اقبال، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآنِ کریم میں اعضاء وضو کو دھونے کا حکم دیا گیا ہے اور شرعاً دھونے کا مفہوم اس وقت تک متحقق نہ ہوگا جب تک کہ کم از کم وضو کے عضو کو تر کرنے کے بعد اس سے دو قطرے نہ ٹپکیں، اگر اس قدر بھی تقاطر نہیں ہوا تو دھونے کا فرض ادا نہیں ہوگا۔ مثلاً کسی شخص نے برف وغیرہ سے ہاتھ پیر کو تر کرلیا اور کوئی قطرہ نہیں ٹپکا تو یہ کافی نہیں۔ (کتاب المسائل)

آپ کی ارسال کردہ ویڈیو بغور دیکھنے کے بعد یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان صاحب نے برف کو اعضاء وضو پر مَل لیا ہے، لیکن اعضاء وضو سے پانی کے قطرات بالکل بھی ٹپکے نہیں ہیں، لہٰذا اگر کوئی اس طرح وضو کرلے تو اس کا وضو ہوگا ہی نہیں اور نہ ہی اس وضو سے پڑھی گئی نماز ہوگی۔

معلوم ہونا چاہیے کہ ایسے حالات میں جبکہ برف کے علاوہ پانی نہ ہو اور برف پگھلانے کے ذرائع مثلاً چولہا، برتن وغیرہ موجود ہوں تو برف کو پگھلا کر وضو کرنا ضروری ہوگا۔ ایسی صورت میں تیمم کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، اور اگر برف پگھلانے کی سہولت نہ ہوتو پھر تیمم کرنا جائز ہوگا۔ اور اگر تیمم کرنے کے لیے مٹی پتھر بھی نہ ہوتو ایسا شخص فاقد الطہورین کے حکم میں ہے۔ لہٰذا یہ شخص تشبّہ بالمصلین کرے گا یعنی نمازیوں جیسے اعمال کرے گا۔ البتہ نماز کی نیت نہیں کرے اور نہ ہی قیام میں قرأت اور رکوع وسجدہ کی تسبیحات پڑھے گا۔ اور بعد میں جب پانی یا تیمم پر قدرت ہو تو ان نمازوں کو دہرائے گا۔ 

قَالَ اللہُ تَعَالٰی : یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِذَا قُمْتُمْ إِلیَ الصَّلوٰۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلیَ الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُؤُوْسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ إِلیَ الْکَعْبَیْنِ۔ (سورۃ المائدہ، آیت : ٦)

(غَسْلُ الْوَجْهِ) أَيْ إسَالَةُ الْمَاءِ مَعَ التَّقَاطُرِوَلَوْ قَطْرَةً. وَفِي الْفَيْضِ أَقَلُّهُ قَطْرَتَانِ فِي الْأَصَحِّ ..... يَدُلُّ عَلَيْهِ صِيغَةُ التَّفَاعُلِ ثُمَّ لَا يَخْفَى أَنَّ هَذَا بَيَانٌ لِلْفَرْضِ الَّذِي لَا يُجْزِئُ أَقَلُّ مِنْهُ؛ لِأَنَّهُ فِي صَدَدِ بَيَانِ الْغَسْلِ الْمَفْرُوضِ۔ (شامی : ١/٩٥)

وَفِي جَمَدٍ أَوْ ثَلْجٍ وَمَعَهُ آلَةُ الذَّوْبِ لَا يَتَيَمَّمُ وَقِيلَ يَتَيَمَّمُ وَالظَّاهِرُ الْأَوَّلُ مِنْهُمَا كَمَا لَا يَخْفَى. هَكَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٢٨)

(وَالْمَحْصُورُ فَاقِدُ الطَّهُورَيْنِ يُؤَخِّرُهَا عِنْدَهُ : وَقَالَا : يَتَشَبَّهُ بِالْمُصَلِّينَ وُجُوبًا، فَيَرْكَعُ وَيَسْجُدُ ثُمَّ يُعِيدُ (بِهِ يُفْتَى وَإِلَيْهِ صَحَّ رُجُوعُهُ) أَيْ الْإِمَامِ۔ (شامی : ١/٢٥٢)

قَالَ : وَلَا يَقْرَأُ كَمَا فِي أَبِي السُّعُودِ، سَوَاءٌ كَانَ حَدَثُهُ أَصْغَرَ أَوْ أَكْبَرَ، قُلْت : وَظَاهِرُهُ أَنَّهُ لَا يَنْوِي أَيْضًا؛ لِأَنَّهُ تَشَبُّهٌ لَا صَلَاةٌ حَقِيقِيَّةٌ۔ (شامی : ١/٢٥٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 جمادی الاول 1443

پیر، 27 دسمبر، 2021

ڈاکٹر اسرار احمد کو سننا اور پڑھنا

سوال :

محترم مفتی صاحب ! ڈاکٹر اسرار احمد صاحب جو اسلامی اسکالر فلاسفر ہیں ان کو سننا اور ان کی ویڈیوز فارورڈ کرنا و تفسیر پڑھنا کیسا ہے؟ براہ کرم آگاہ فرمائیں۔
(المستفتی : خالد عزیز، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوشل میڈیا کے اس دور میں جبکہ ہر طرح کے مواد گردش میں ہوتے ہیں، لہٰذا عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف معتبر اور مستند علماء کرام کے بیانات اور تحریروں سے ہی استفادہ کریں، ورنہ کب اور کس طرح گمراہ ہوجائیں گے اور انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب جو باقاعدہ مستند عالم نہیں ہیں ان کے بیانات یوٹیوب پر بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ان کی تفسیر بھی ہے، لہٰذا یوٹیوب استعمال کرنے والوں کا عموماً ان کے بیانات سے سابقہ پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہند وپاک کے انتہائی معتبر اور مؤقر اداروں سے ان کے بیانات اور تحریروں سے استفادہ کرنے سے متعلق جب سوال کیا گیا تو تمام اداروں سے تقریباً ایک جیسا جواب ہی موصول ہوا جن میں سے ہم ذیل میں جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن کا فتوی من وعن نقل کررہے ہیں۔ امید ہے کہ آپ کو اس جواب سے تشفی ہوجائے گی۔

ڈاکٹر اسرار احمد  کے بعض نظریات قرآن، حدیث اور  اِجماعِ اُمت کے خلاف ہیں، ان کے  بعض اَفکار اور طرزِ فکر سے اختلاف کے ساتھ ان کی تحریرات سے استفادہ کی گنجائش اگرچہ  ہے، لیکن عوام یا دینی علوم سے ناواقف افراد  چوں کہ ڈاکٹر صاحب  کے صحیح اور  قابلِ اشکال افکار کے درمیان تمییز و فرق کرنے کی صلاحیت  نہیں رکھتے ہیں، لہٰذا عوام اور نا پختہ افراد کے لیے ڈاکٹر صاحب اور ان کی فکر کے حاملین افراد کے بیانات  سننے، ان کے  دروس  میں شرکت کرنے اور   لٹریچر و تفسیر  سے استفادہ کرنے سے اجتناب کرنا ضروری  ہے۔

ڈاکٹر اسرار احمد کے عقائد میں سے جو عقائد اہلِ سنت والجماعت کے خلاف ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں :

٭ ڈاکٹر اسرار احمد  اَعمال کی قبولیت کے  لیے ایمان کو شرط نہیں مانتے۔

٭ موصوف کے  نزدیک حقیقی ایمان کے دو رکن ہیں : تصدیق و یقین اور  جہاد۔

٭ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک کسی گناہ پر اصرار کرنا ہمیشہ کے  لیے جہنمی بنا دیتا ہے۔

٭ انسان جنت اور جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا۔

باقی ڈاکٹر صاحب کے تفصیلی عقائد اور نظریات جاننے کے  لیے ڈاکٹر مفتی عبد الواحد رحمہ اللہ کی کتاب "ڈاکٹر اسرار احمد، افکار و نظریات" کا مطالعہ مفید رہے گا۔ (رقم الفتوی : 144108200907)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 جمادی الاول 1443