اتوار، 24 نومبر، 2019

شادی کارڈ پر لڑکی کا نام لکھنا

*شادی کارڈ پر لڑکی کا نام لکھنا*

سوال :

معزز و محترم مفتی صاحب! شادی بیاہ کے موقع پر جو کارڈ چھاپے جاتے ہیں رشتہ دار اور دوست احباب میں تقسیم کرنے کے لئے، تو اِن کارڈ میں لڑکی کا بھی نام لِکھا جاتا ہے جس کی شادی ہے۔ لیکن کچھ حضرات اس سے پرہیز کرتے ہیں، وہ اس لئے کہ لڑکی کے نام کا بھی پردہ ہوتا ہے۔ اور جو لوگ لڑکی کا نام لکھ دیتے ہیں اُنہیں کوئی گُناہ تو نہیں ہوگا؟
(المستفتی : شہروز انجینئر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حدیث شریف میں آتا ہے کہ نکاح کا اعلان کرو جس کے پیشِ نظر فضول خرچی اور نام ونمود سے احتراز کرتے ہوئے نکاح اور ولیمہ کے لیے دعوت نامہ (شادی کارڈ) بنوانا شرعاً جائز اور درست ہے، کیونکہ یہ بھی اطلاع اور اعلان کی ایک شکل ہے۔ اب اس اعلان کی پورے طور پر تکمیل اس وقت ہوگی جب شادی کارڈ میں لڑکے اور لڑکی دونوں کا نام موجود ہو۔ کیونکہ نکاح کے اعلان کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ لوگوں کو اس بات کا علم ہوجائے کہ فلاں شخص کی فلاں بیٹی کا نکاح ہوچکا ہے، تاکہ نکاح کا پیغام بھیجنے والوں کو کسی قسم کا مغالطہ نہ ہو۔ لہٰذا شادی کارڈ پر لڑکی کا نام بھی لکھنا چاہیے۔

اسی طرح یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ شریعتِ مطہرہ میں لڑکی کے نام کا کوئی پردہ نہیں ہے۔ اگر عورتوں کے نام کا پردہ ہوتا تو ازواجِ مطہرات اور بنات نبی ﷺ اسکی زیادہ مستحق ہوتیں کہ ان کے نام کو چھپایا جاتا۔ جبکہ آج ان مقدس اور پاکیزہ ہستیوں کے نام امت میں مشہور و معروف ہیں۔ نیز خود قرآنِ کریم میں حضرت مریم کا نام موجود ہے۔

لہٰذا درج بالا تفصیلات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہی کہا جائے گا کہ شادی کارڈ میں لڑکی کا نام نہ لکھنا ایک قسم کا تکلف ہے، اور کچھ نہیں۔

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أعلنوا ہٰذا النکاح واجعلوہ في المساجد۔ (سنن الترمذي ۱؍۲۰۷)

قال اللہ تعالیٰ : اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْآ اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ، وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا۔ (سورہ بني إسرائيل، آیت: ۲۷)

قال القرطبي : والتبذیر إنفاق المال في غیر حقہ ولا تبذیر في عمل الخیر۔ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبي ۱۰؍۲۴۷)

عن نافع قال سمعت عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہ یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أجیبوا ہٰذہ الدعوۃ إذا دعیتم لہا، قال: وکان عبد اللّٰہ یأتي الدعوۃ في العرس وغیر العرس وہو صائم۔ (صحیح البخاري ۲؍۷۷۸ رقم: ۴۹۸۵)

ویندب إعلانہ أي إظہارہ۔ (شامي ۴؍۶۶ زکریا)

أن الغائبۃ لا بد من ذکر إسمہا، واسم أبیہا، وجدہا، وإن کانت معروفۃ۔ (شامي ۴؍۹۰ زکریا)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 ربیع الاول 1441

6 تبصرے:

  1. جواب نمبر: 156997
    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:344-243/sn=4/1439

    عورت چھپانے کی چیز ہے، اس کا تقاضا ہے کہ بلا ضرورت اس کی ذات یا اس کے نام کو ظاہر نہ کیا جائے اور شادی کارڈ پر دلہن کا نام ذکر کرنے کی کچھ ضرورت نہیں ہے؛ لہٰذا شادی کارڈ پر دلہن کا نام لکھنا مناسب نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. ہمارے جواب *"شادی کارڈ پر لڑکی کا نام لکھنا"* پر احباب کی طرف سے دارالعلوم دیوبند کا یہ جواب ارسال کیا گیا ہے۔


      کیا شادی کارڈ پر دلہن کا نام لکھنا كیا ہے ؟
      سوال
      کیا شادی کارڈ پر دلہن کا نام لکھنا جائز ہے ؟
      جواب
      بسم الله الرحمن الرحيم
      Fatwa:344-243/sn=4/1439
      عورت چھپانے کی چیز ہے، اس کا تقاضا ہے کہ بلا ضرورت اس کی ذات یا اس کے نام کو ظاہر نہ کیا جائے اور شادی کارڈ پر دلہن کا نام ذکر کرنے کی کچھ ضرورت نہیں ہے؛ لہٰذا شادی کارڈ پر دلہن کا نام لکھنا مناسب نہیں ہے۔
      واللہ تعالیٰ اعلم
      دارالافتاء،
      دارالعلوم دیوبند
      ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
      فتوی نمبر :156997


      جس سے غالباً یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دونوں جوابات میں تعارض ہے۔ لہٰذا ہم دارالعلوم کے مزید دو فتاوی ارسال کررہے ہیں جس سے مسئلہ ایک حد تک خود بخود حل ہوجائے گا ۔

      سوال

      کیا شادی کے دعوت نامہ پر لڑکی کا نام لکھنا درست ہے یا نہیں؟براہ کرم، جواب دیں۔

      جواب


      بسم الله الرحمن الرحيم فتوی: 14-14/N=2/1434
      شادی کے دعوت نامہ پر لڑکی کا نام لکھنا درست ہے لیکن نہ لکھیں تو زیادہ اچھا ہے۔
      واللہ تعالیٰ اعلم
      دارالافتاء،
      دارالعلوم دیوبند

      سوال

      جس طرح سے عورت کی آواز اور چہر ہ وغیرہ کا پردہ ہے کیا اسی طرح سے اس کے نام کا بھی پردہ ہے؟ برائے کرم وضاحت فرمائیں۔

      جواب

      بسم الله الرحمن الرحيم
      فتوی: 2283=1875/ ب
        جی نہیں! اس کے نام کا کوئی پردہ نہیں۔
      واللہ تعالیٰ اعلم
      دارالافتاء،
      دارالعلوم دیوبند

      ان دو فتاوی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ لڑکی کے نام کا پردہ نہیں ہے۔ اور شادی کارڈ پر لڑکی کا نام لکھنا درست ہے۔ ہمارا جواب بھی یہی ہے۔ البتہ اپنے اس قول کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ہم نے یہ دلیل دی ہے کہ لوگوں کو اس کا علم ہونا چاہیے کہ فلاں شخص کی فلاں بیٹی کا نکاح ہے تاکہ رشتہ بھیجنے والوں کو مغالطہ نہ ہو۔ اور نام نہ لکھنے والوں کی تردید اس وجہ سے کی گئی ہے وہ لڑکی کے نام کو بھی پردہ سمجھتے ہیں جبکہ اصلاً لڑکی کے نام کا کوئی پردہ نہیں ہے یہ بات دارالعلوم کے فتوی سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ نیز یہ حلال و حرام کا مسئلہ نہیں ہے صرف افضل اور غیرافضل کا مسئلہ ہے لہٰذا اسے بحث کا عنوان نہ بنایا جائے، اہل علم کے یہاں ایسے بے شمار اختلافی مسائل مل جائیں گے۔

      واللہ تعالٰی اعلم
      محمد عامر عثمانی ملی

      حذف کریں
    2. ماشاء اللہ اعلیٰ وضاحت۔۔,

      حذف کریں
  2. جزاک اللہ خیرا

    ابھی دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ شادی کارڈ پر لڑکے کے نام کا بھی پردہ کیا جا رہا ہے اور مستورات میں کھانا کھلانے کا کام مرد حضرات کر رہے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  3. نام ضرور لکھناچاہیے

    جواب دیںحذف کریں