بدھ، 6 نومبر، 2019

بغیر بُلائے دعوت میں شریک ہونا

*بغیر بُلائے دعوت میں شریک ہونا*

سوال :

محترم مفتی صاحب ! زید کی فلاں گھرانے سے ایک نفر کی شادی کی دعوت تھی لیکن زید اپنے ساتھ اپنے بھائی یا دوستوں کو بھی لے جاتا ہے۔ کیا زید کا ایسا کرنا درست ہے؟
تین چار بھائی اگر الگ الگ رہتے ہیں اور ان کا کھانا پکانا، ذریعۂ معاش الگ ہے، مگر اکثر دیکھا جا رہا ہے (اور شکایت بھی کی جاتی ہے) کہ ایک بھائی یا بڑے بھائی کو گھر بھر کی دعوت دینے پر، تینوں، چاروں اکٹھے مع اہل و عیال شریک ہو جاتے ہیں، داعی پریشان ہو جاتا ہے کہ میں نے صرف بڑے بھائی کی دعوت دی اور سارے آ گئے، اکثر خاندانوں میں اگر والد صاحب زندہ ہیں اور ایک بھائی کے ساتھ رہتے ہیں اور والد کے نام سے گھر بھر کی دعوت آتی ہے تو یہ داعی پر منحصر ہوتا ہے کہ والد صاحب کو کہہ دے کہ تمام بھائیوں (بیٹوں) کو لیکر آئے، مگر اس طرح بن بلائے مہمان بننا؟ کیا اس کی گنجائش ہے؟
(المستفتی : محمد سعدان، عمران الحسن، مالیگاؤں)
---------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایک نفر کی دعوت میں دو لوگوں کا جانا جائز نہیں ہے۔ یہ بِن بُلائے  دعوت  میں شریک ہونا ہے جس کے بارے میں حدیث شریف میں آتا ہے کہ  بغیر  بلائے  دعوت  میں  شریک ہونے والا چور بن کر داخل ہوتا ہے اور لُٹیرا بن کر نکلتا ہے۔ البتہ اگر زید دعوت دینے والے سے پہلے ہی پوچھ لے یا دعوت دینے والے سے زید کی ایسی بے تکلفی اور تعلقات مضبوط ہوں کہ کسی کو لے جانے پر اسے خوشی اور مسرت ہوگی تو ان صورتوں میں کسی کو ساتھ میں لے جانے کی گنجائش ہوگی۔

جس شخص کے نام سے گھربھر کی دعوت ہوتی ہے صرف اسی کی فیملی دعوت میں شریک ہوگی، جن بھائیوں کی رہائش اور کاروبار الگ ہے، وہ اس میں شریک نہیں ہوں گے ہمارے یہاں یہی عُرف ہے۔ البتہ اگر والد کے نام سے گھربھر دعوت ہوتی ہے تو اس میں دونوں طرح کے معاملات ہوتے ہیں کچھ گھروں کا معمول یہ ہے کہ تمام بیٹے اس میں شرکت کرتے ہیں اور بعض گھروں کا معمول یہ ہے کہ صرف والد کے ساتھ جتنے بیٹے رہتے ہیں وہی شریک ہوں گے۔ لہٰذا اس معاملے میں خود دعوت دینے والے کو سمجھ بوجھ کر اور معلومات لے کر دعوت دینے کی ضرورت ہے تاکہ خلافِ توقع معاملہ سامنے نہ آئے۔

عن عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من دُعِي فلم یُجب، فقد عصی اللّٰہ ورسولہ، ومن دخل علی غیر دعوۃٍ دخل سارقًا، وخرج مُغِیرًا۔ (سنن أبي داؤد / أول کتاب الأطعمۃ ۲؍۵۲۵ رقم: ۳۷۴۱)

عن أنس رضي اللّٰہ عنہ أن جارًا لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فارسیًا کان طَیبَ المرقِ فصنع لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ثم جاء یدعوہ، فقال: وہٰذہ؟ لعائشۃ، فقال: لا، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا۔ فعاد یدعوہ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہٰذہ۔ قال: لا، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا۔ ثم عاد یدعوہ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وہٰذہ؟ قال: نعم في الثالثۃ، فقاما یتدافعان حتی أتیا منزلہ۔ (صحیح مسلم، کتاب الأشربۃ / باب ما یفعل الضیفُ إذا تبعہ غیر من دعاہ صاحب الطعام واستحباب إذنِ صاحب الطعام للتابع ۲؍۱۷۶ رقم: ۱۳۹-۲۰۳۷)

عن سہل بن سعد رضي اللّٰہ عنہ قال: إن کُنَّا لنفرحُ بیوم الجمعۃ، کانت لنا عجوزٌ تأخذُ أصول السلقِ فتجعلہُ في قدرٍ لہا، فتجعلُ فیہ حبَّاتٍ من شعیر، إذا صلینا زُرناہا فقرَّبَتہ إلیہا، وکنا نفرحُ بیوم الجمعۃ من أجل ذٰلک، وما کنا نتغدّٰی ولا نقیلُ إلا بعد الجمعۃ، واللّٰہ ما فیہ شحمٌ ولا وَدَکٌ۔ (صحیح البخاري، کتاب الأطعمۃ / باب السلق والشعیر ۲؍۸۱۳ رقم: ۵۴۰۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 ربیع الاول 1441

3 تبصرے:

  1. الحمدُ للّٰہ ، آپ کتنا عمدہ جواب مرحمت فرماتے ھیں۔ سلیس انداز میں پوری وضاحت،خاص کر مقامی آداب و مراسم کی روشنی میں اور اِن سب سے بڑھ کر قُرآن و احادیث کے حوالے سے عام سوالات کا بھی مدلّل اور محقّق جواب ملنے پر آپ کے لئے دعائے خیر ھی نکلتی ھے۔اِس وقت بہ ظاہر پڑھے لکھے ھم جیسے جاھلوں کے لئے آپ 24x7 یعنے ھمہ وقت کے ایک اُستاد اور رھنما کی طرح ھیں۔ اللّٰہ آپ کی علم اور عمر میں خوب برکت وعافیت عطا فرمائے۔

    جواب دیںحذف کریں