پیر، 18 نومبر، 2019

کرنٹ بیٹ سے مچھروں کو مارنا

*کرنٹ بیٹ سے مچھروں کو مارنا*

سوال :

محترم مفتی صاحب! شہر کے حالات کے پیش نظر ڈینگی وائرس بخار کی وجہ سے کئی اموت یکے بعد دیگرے ہوئی، مچھر بھگاؤ اگربتّی لیکوڈ وغیرہ کے بعد بھی مچھر حملہ کرہی دیتا ہے۔
مسئلہ آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ایسی گمبھیر صورت حال میں جب تک ماحول ڈینگی مچھر۔ اور بچوں کی اموت کا سوال کھڑا ہوگیا ہے تو کیا ایسی صورت میں مچھر الیکٹرانک بیٹ سے مچھر کو جلا کر مار سکتے ہیں؟
(المستفتی : خالد مسیح امین، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفیق : عام حالات میں کرنٹ کی بیٹ سے مچھر مارنا مکروہ تحریمی ہے۔ اس لئے کہ اس میں جاندار کو آگ سے جلانا پایا جاتا ہے، جس  کی حدیث شریف میں ممانعت وارد ہوئی ہے۔ البتہ  کرنٹ  والی بیٹ کسی جگہ رکھی ہوئی ہو اور مچھر  خود وہاں جاکر جل کر مرجاتے ہوں، تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ اس میں جلانا نہیں پایا جارہا ہے، بلکہ مچھر خود ہی آکر جل رہے ہیں، یہ ایسا ہے کہ جیسے پتنگے بلب اور چراغ میں خود جاکر مرتے ہیں ۔

اسی طرح اگر ایسی صورتِ حال پیش آجائے جس میں مچھروں کو مارنے والے دیگر طریقے کارگر اور مؤثر نہ ہورہے ہوں جیسا کہ سوال نامہ میں مذکور ہے تو مچھروں کو مارنے کے لیے کرنٹ بیٹ کا استعمال بلاکراہت جائز ہوگا۔

عن عبدالرحمن بن عبداللہ عن أبیہ قال : کنا مع رسول اللہ ﷺ فی سفر فانطلق لحاجتہ ۔۔۔۔۔ ورأی قریۃ نمل قد حرقناہا فقال : من حرق ہذہ؟ قلنا : نحن ؛ قال : ’’ إنہ لا ینبغی أن یعذب بالنار إلا رب النار۔ (السنن لأبی داود :ص؍۳۶۲؍۳۶۳، کتاب الجہاد ، باب فی کراہیۃ حرق العدو بالنار)

وإحراق القمل، العقرب بالنار مکروہ۔ (ہندیۃ، زکریا قدیم ۵/۳۶۱)

ویکرہ إحراق جراد، وقمل، وعقرب، وتحتہ في الشامیۃ: یکرہ تحریما ومثل القمل البرغوث ومثل العقرب الحیۃ۔ (شامي، زکریا۱۰/۴۸۲، کراچي۷۵۲)

اَلضَّرُوْرَاتُ تُبِیْحُ الْمَحْظُوْرَاتِ۔ (ص/۱۹۱ ، قاعدۃ : ۱۸۵، الأشباہ والنظائر لإبن نجیم :ص/۳۰۷)
مستفاد : فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
20 ربیع الاول 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں