بدھ، 6 نومبر، 2019

شادی شدہ نومسلمہ کا نکاح کے لئے عدت گذارنا ضروری ہے

*شادی شدہ نومسلمہ کا نکاح کے لئے عدت گذارنا ضروری ہے*

سوال :

مفتی صاحب ایک سوال یہ ہے کہ ایک غیر ایمان والی اپنے غیر ایمان والے شوہر سے طلاق لیتی ہے اور ایمان والے سے عدت ختم ہونے سے پہلے ہی نکاح  کرلیتی ہے، کیا نکاح منعقد ہوجائے گا یا پھر عدت گزارنے کے بعد دوبارہ نکاح کرنا پڑےگا؟
برائے مہربانی جلد سے جلد جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد قمر الدین، پاتھری مہاراشٹر)
----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شادی شدہ غیرمسلمہ عورت جب اسلام قبول کرلے تو مسلمان مرد کا اس سے نکاح کرنا جائز ہے۔ لیکن نکاح سے پہلے عورت کے لیے تین حیض عدت گذارنا ضروری ہے۔ غیرمسلم حکومت میں تین حیض گذرنے کے بعد امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک مزید استبراء رحم کے بغیر مسلمان مرد سے نکاح کرنا جائز ہے اور صاحبینؒ کے نزدیک تین حیض گذارنے کے بعد پھر سے استبراء رحم بھی لازم ہے۔ صورتِ مسئولہ میں اس عورت نے فوراً مسلمان مرد سے جو نکاح کر لیا ہے تو نکاح شرعًا درست نہیں ہوا۔ لہٰذا دونوں فوراً علاحدہ ہوجائیں اور تین ماہواری عدت گذرنے کے بعد دوبارہ نکاح کریں۔

وإذا أسلمت المرأۃ في دار الحرب وزوجہا کافر…لم تقع الفرقۃ علیہا حتی تحیض ثلاث حیض، ثم تبین من زوجہا… وإذا وقعت الفرقۃ والمرأۃ حربیۃ فلا عدۃ علیہا، وإن کانت ہي مسلمۃ فکذلک عند أبي حنیفۃؒ خلافًا لہما وتحتہ في فتح القدیر: فالحاصل أنہ لا عدۃ بعد البینونۃ عند أبي حنیفۃؒ في الصورتین وعند ہما إذا کانت ہي المسلمۃ فعلیہا العدۃ۔ (فتح القدیر، زکریا ۳/۲۹۸-۳۹۹)

لو أسلم أحدہما ثمۃ أي في دار الحرب لم تبن حتی تحیض ثلاثًقبل إسلام الآخر إقامۃ لشرط الفرقۃ مقام السبب (در مختار) قال الشامي: وہو مضی ہذہ المدۃ مقام السبب وہو الإباء؛ لأن الإباء لا یعرف إلا بالعرض وقد عدم العرض-لانعدام الولایۃ، ومست الحاجۃ إلی التفریق لأن المشرک لا یصلح للمسلم و إقامۃ الشرط عند تعذر العلۃ جائز فإذا مضت ہذہ المدۃ صار مضیہا بمنزلۃ تفریق القاضي۔ (شامي، زکریا ۴/۳۶۲-۳۶۳، کراچي ۳/۱۹۱)
مستفاد : فتاوی قاسمیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 ربیع الاول 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں