ہفتہ، 2 نومبر، 2019

خدارا دِل آزاری سے باز آجائیں

*خدارا دِل آزاری سے باز آجائیں*

✍ محمد عامر عثمانی ملی
   (امام و خطیب مسجد کوہ نور)

قارئین کرام ! اسمبلی الیکشن کا نتیجہ ظاہر ہوئے ایک ہفتہ سے زائد عرصہ گذر چکا ہے۔ جس کے مقدر میں فتح لکھی ہوئی تھی وہ کامیاب ہوا اور جس کے نصیب میں ہار کا فیصلہ تھا وہ شکست سے دو چار ہوا۔ لیکن مفتوح جماعت کے بعض افراد اب تک ہار کے صدمہ سے دوچار ہیں جس کا غم وہ ناجائز طریقے سے زائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اسی طرح فاتح جماعت کے بعض افراد پر بھی جیت کا نشہ اترا نہیں ہے اور وہ اپنی خوشی کا اظہار غیر شرعی حرکتوں سے کررہے۔ جس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر ایک سنگین گناہ کا ارتکاب دونوں جماعتوں کے بعض افراد کی طرف سے دھڑلے سے اور مسلسل ہورہا ہے، اس گناہ سے ہماری مراد ایک دوسرے کا تمسخر، استہزاء اور مذاق اُڑانا ہے۔

جیتنے والی جماعت کے افراد ایک واٹس گروپ بناتے ہیں "الحمدللہ باقی کیسا ہرائے" تو دوسری طرف ایک گروپ بنام "جھامو بن گیا ایم ایل اے" تشکیل دیا جاتا ہے۔ اور دن بھر سوشل میڈیا پر اسی عنوان سے لطیفے اور اسٹیکر بنا بناکر پھیلائے جارہے ہیں۔ عجیب وغریب حماقت یہ بھی ہے جب کسی لیڈر سے اچانک کوئی ایسی حرکت سرزد ہوجائے جو غیراختیاری ہوتو اسے ڈر کا نام دے کر اس کی ویڈیو وائرل کی جاتی ہے اور اس پر دل آزار تبصرے کیے جاتے ہیں، اور کسی کی زبان پھسل جانے پر کئی دنوں تک اس پر لطیفے چلتے رہتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پڑھے لکھے اور دیندار کہے جانے والے افراد بھی اس میں برابر کے شریک ہیں گویا اسے گناہ ہی نہیں سمجھا جارہا ہے۔ اور محسوس ہوتا ہے کہ یہ طوفانِ بدتمیزی ابھی تھمنے والا نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے حالات میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں پر اس گناہ کی سنگینی کو واضح کردیا جائے تاکہ ماننے والوں کو رہنمائی مل جائے اور وہ اس سے باز رہیں۔

محترم قارئین ! ایک دوسرے کا تمسخر، استہزاء اور مذاق اڑانا اسلام میں ایک بڑا جرم اور گناہ کبیرہ ہے جس کی ممانعت میں قرآن کریم کی آیت نازل ہوئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ۔ (سورہ حجرات، جزء آیت 11)
ترجمہ : اے ایمان والو ! نہ تو مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہے ہیں) خود ان سے بہتر ہوں، اور نہ دوسری عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہی ہیں) خود ان سے بہتر ہوں۔

اس آیت کی تفسیر میں مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
قرطبی نے فرمایا کہ تمسخر یہ ہے کہ کسی شخص کی تحقیر و توہین کے لئے اس کے کسی عیب کو اس طرح ذکر کرنا جس سے لوگ ہنسنے لگیں اس کو سُخْرِیہ، تمسخر، استہزاء  کہا جاتا ہے۔ اور جیسے یہ زبان سے ہوتا ہے ایسے ہی ہاتھوں پاؤں وغیرہ سے اس کی نقل اتارنے یا اشارہ کرنے سے بھی ہوتا ہے اور اس طرح بھی کہ اس کا کلام سن کر بطور تحقیر کے ہنسی اڑائی جائے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ سخریہ و تمسخر کسی شخص کے سامنے اس کا اسی طرح ذکر کرنا ہے کہ اس سے لوگ ہنس پڑیں اور یہ سب چیزیں بنص قرآن حرام ہیں۔

تمسخر کی ممانعت کا قرآن کریم نے اتنا اہتمام فرمایا کہ اس میں مردوں کو الگ مخاطب فرمایا عورتوں کو الگ، مردوں کو لفظ قوم سے تعبیر فرمایا کیونکہ اصل میں یہ لفظ مردوں ہی کے لئے وضع کیا گیا ہے اگرچہ مجازاً و توسعاً عورتوں کو اکثر شامل ہوجاتا ہے اور قرآن کریم نے عموماً لفظ قوم مردوں عورتوں دونوں ہی کے لئے استعمال کیا ہے مگر یہاں لفظ قوم خاص مردوں کے لئے استعمال فرمایا اس کے بالمقابل عورتوں کا ذکر لفظ نساء سے فرمایا اور دونوں میں یہ ہدایت فرمائی کہ جو مرد کسی دوسرے مرد کے ساتھ استہزاء و تمسخر کرتا ہے اس کو کیا خبر ہے کہ شاید وہ اللہ کے نزدیک استہزاء کرنے والے سے بہتر ہو، اسی طرح جو عورت کسی دوسری عورت کے ساتھ استہزاء و تمسخر کا معاملہ کرتی ہے اس کو کیا خبر ہے شاید وہی اللہ کے نزدیک اس سے بہتر ہو۔

حاصل آیت کا یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے بدن یا صورت یا قد و قامت وغیرہ میں کوئی عیب نظر آئے تو کسی کو اس پر ہنسنے یا استہزاء کرنے کی جرأت نہ کرنا چاہئے کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ شاید وہ اپنے صدق و اخلاص وغیرہ کے سبب اللہ کے نزدیک اس سے بہتر اور افضل ہو۔ اس آیت کو سن کر سلف صالحین کا حال یہ ہوگیا تھا کہ عمرو بن شرجیل نے فرمایا کہ میں اگر کسی شخص کو بکری کے تھنوں سے منہ لگا کر دودھ پیتے دیکھوں اور اس پر مجھے ہنسی آجائے تو میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میں بھی ایسا ہی نہ ہوجاؤں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ میں اگر کسی کُتے کے ساتھ بھی استہزاء کروں تو مجھے ڈر ہوتا ہے کہ میں خود کتا نہ بنادیا جاؤں۔ (قرطبی/ بحوالہ معارف القرآن)

لہٰذا ہماری دونوں جماعتوں کے کارکنان سے عاجزانہ اور دردمندانہ التجاء ہے کہ وہ پہلی فرصت میں اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے اور اپنے لیڈر کو بدنام کرنے والے اس قبیح سلسلے کو بند کردیں، اس گناہ پر شرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار کریں۔ اگر آپ کو اپنے لیڈر سے سچی محبت اور عقیدت ہے تو اس کا تقاضہ یہی ہے کہ آپ مثبت کام کریں۔ ناجائز لطیفے بنانے اور ذاتیات پر مضامین لکھنے میں جو دماغ اور وقت لگارہے ہیں اس کا استعمال اپنے لیڈر کو اچھے مشورے دینے اور قوم و ملت کی ترقی کے لئے لگائیں جو یقیناً آپ کے لیے، آپ کے لیڈر کے لیے اور پوری قوم کے لئے نفع بخش ثابت ہوگا۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو قوم و ملت کے حق میں نافع بنائے، انتشار افتراق سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں