جمعرات، 14 نومبر، 2019

بد دعا دینے کا شرعی حکم

*بد دعا دینے کا شرعی حکم*

سوال :

مفتی صاحب ! بددعا دینے کا شرعاً کیا حکم ہے؟ اور بددعا دینے کا جواز کب ہے؟ اور کس کو دے سکتے ہیں؟ رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد توصیف، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مظلوم کے لیے ظالم کے حق میں بد دعا کرنا اگرچہ جائز ہے جیسا کہ درج ذیل مسلم شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔

حضرت سعید ابن زید عشرہ مبشرہ یعنی ان دس جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک ہیں جنہیں آنحضرت ﷺ نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت عطا فرما دی تھی، یہ حضرت عمر فاروق ؓ کے بہنوئی اور بڑے باکرامت ومستجاب الدعوات تھے اروی نامی ایک عورت نے مروان حاکمِ مدینہ کی عدالت میں حضرت سعید ابن زید کے خلاف یہ جھوٹا دعوی دائر کیا کہ انہوں نے زبردستی کر کے میری زمین کا کچھ حصہ دبالیا ہے جب کہ حقیقت میں وہ زمین حضرت سعید ابن زید کی اپنی جائز ملکیت اور قبضے میں تھی۔ چنانچہ انہوں نے اس جھوٹے دعوے پر سخت حیرت اور استبعاد کا اظہار کیا اور مروان کے سامنے کہا کہ جس شخص نے کسی کی زمین ہتھیانے کی وعید آنحضرت ﷺ سے خود سن رکھی ہو بھلا وہ کیسے جرأت کرسکتا ہے کہ کسی کی زمین پر زبردستی قبضہ کرلے۔ مروان نے حضرت سعید رضی اللہ عنہ سے اس وعید سے متعلق حدیث سننے کی خواہش ظاہر کی، حضرت سعید رضی اللہ عنہ نے وہ حدیث جس کو انہوں نے خود براہ راست آنحضرت ﷺ سے سنا تھا بیان کردی۔ مروان کو حضرت سعید رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی سچائی کا یقین ہوگیا اور اس وقت اس نے حضرت سعید رضی اللہ عنہ سے جو کچھ کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ مجھے تمہارے سچا ہونے کا پورا یقین ہے کیونکہ میں تمہاری اندرونی زندگی تک جانتا ہوں، تم کسی پر ظلم کر ہی نہیں سکتے اور پھر تم سے یہ حدیث سننے کے بعد تو اس کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے کہ عدالتی طور پر تمہاری بات تسلیم کرنے کے لئے تم سے کوئی گواہ طلب کروں۔ یا مروان کا مطلب یہ تھا کہ تمہاری روایت حدیث میں مجھے کوئی شک نہیں ہے اور نہ اس حدیث کو صحیح ماننے کے لئے میں کسی اور راوی کی بھی روایت کا محتاج ہوں، تم خود اپنی معروف حیثیت کے اعتبار سے دو راویوں بلکہ اس زائد راویوں کے برابر ہو۔غرضیکہ مروان نے اس عورت کا دعوی کردیا۔ مگر جیسا کہ کرمانی نے لکھا ہے اور خود روایت سے بھی مفہوم ہوتا ہے، حضرت سعید رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے احتیاطاً اس زمین سے دست کشی اختیار کر کے اسی عورت کے قبضہ میں جانے دی جس نے اس زمین کا دعوی کیا تھا، تاہم انہوں نے بد دعا ضرور کی کہ وہ عورت اگر جھوٹی ہے تو اسی دنیا میں اپنے جھوٹ کی سزا پائے اور دنیا والوں کی نظر میں اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بد دعا کا اثر ظاہر کیا اور جیسا کہ حضرت سعید نے کہا تھا وہ عورت مرنے سے پہلے اندھی بھی ہوگئی اور وہی زمین اس کی قبر بھی بنی جب وہ اس زمین میں واقع گھر کے اندر، ایک کنویں نما گڑھے میں گر کر مر گئی تو کسی نے اس کی لاش نکال کر علیحدہ سے دفن کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔

تاہم افضل اور بہتر یہی ہے کہ اپنی ذات پر ہوئے ظلم پر ظالم کے لیے بد دعا نہ کی جائے بلکہ اس کے لیے ہدایت کی دعا کی جائے۔ البتہ اگر کسی کے ذریعہ قومی وملی نقصان ہو تو ایسے شخص کے شر سے بچنے کے لئے اُس کے حق میں بد دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

عن علی رضی اﷲعنہ قال : قال رسول اﷲﷺ ایاک ودعوۃ المظلوم فانما یسأل اﷲتعالیٰ حقہ ‘ وان اﷲلا یمنع ذاحق حقہ۔ (مشکوٰۃ شریف، باب الظلم، ۴۳۵)

عن عروۃ رضي اللّٰہ عنہ أن أروی بنت أویس ادعت علی سعید بن زید أنہ أخذ شیئًا من أرضہا، فخاصمتہ إلی مروان - إلی قولہ - فقال: اللّٰہم إن کانت کاذبۃ فعم بصرہا واقتلہا في أرضہا، قال: فما ماتت حتی ذہب بصرہا، ثم بینا ہي تمشی في أرضہا إذا وقعت في حفرۃ فماتت۔ (صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ / باب تحریم الظلم وغصب الأرض وغیرہا ۲؍۳۳ رقم: ۱۶۱۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 ربیع الاول 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں