منگل، 19 نومبر، 2019

حالتِ نزع کے احکام

*حالتِ نزع کے احکام*

سوال :

مفتی صاحب نزع کی کیفیت کیا ہے؟ اور کب سے شمار کی جاتی ہے اور اس وقت کے احکام شرعیہ سے واقف کرائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد مزمل، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نزع اور سکرات سے مراد موت کی شدت اورغشی ہے، جو موت کے وقت پیش آتی ہے، اور اس کے زندگی کی امید نہیں رہ جاتی، بعض اوقات سکرات کا اثر اور نشانی اس پر ظاہر بھی ہوتی ہے، اور کسی کو اس شدت کے اثر سے پیشانی پر پسینہ بھی آجاتا ہے۔

حالتِ  نزع کے احکامات  یہ ہیں کہ اس وقت محتضر (جو شخص حالت نزع میں ہو) کو پانی پلانا مستحب ہے، کیونکہ نزع  کے وقت پیاس کا غلبہ اور شدت ہوتی ہے، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی ثابت ہے کہ وہ معرکہ قتال میں محتضرین کو پانی پلایا کرتے تھے۔

قال فی نورالایضاح وشرحہ ویستحب لاقرباء المحتضرو اصدقائہ وجیرانہ الدخول علیہ للقیام بحقہ وتذکیرہ وتجریعہ وسقیہ الماء لان العطش یغلب لشدۃ النزع ولذلک یأتی الیشطان کماورد بماء زلال(ای بارد)ویقول قل لاالہٰ غیری حتی اسقیک نعوذ باللہ منہ اھ(ص۳۲۷)

اسی طرح اس کے پاس بیٹھ کر سورۂ یٰسین پڑھنی چاہیے اور قریب المرگ شخص کو داہنی کروٹ پر قبلہ رُخ لٹادینا چاہئے اور اس کے پاس بیٹھنے والے لوگ کسی قدر بلند آواز سے کلمہ طیبہ پڑھیں، لیکن اس شخص کو پڑھنے کے لئے نہ کہا جائے۔ (مستفاد : بہشتی زیور : ۲؍۷۷)

ویسن توجیہ المحتضر أي من قرب من الموت علی یمینہ؛ لأنہ السنۃ، وجاز الاستلقاء علی ظہرہ۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، باب أحکام الجنائز، ۵۵۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 ربیع الاول 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں