بدھ، 27 نومبر، 2019

فجر کی اذان وجماعت کے وقت سے متعلق سوالات

*فجر کی اذان وجماعت کے وقت سے متعلق سوالات*

سوال :

امید کہ مفتی صاحب بخیر ہونگے۔
شہر کی ایک مسجد ہے جس میں سوائے مغرب اور ظہر کے ہر نماز کا وقت ہوتے ہی اذان دے دی جاتی ہے، اندازاً اذان کے بعد سات سے دس منٹ تک کے وقفے کے بعد جماعت کھڑی کردی جاتی ہے۔ چونکہ فجر کی اذان صبح صادق ہوتے ہی دے دی جاتی ہے۔ اس کے بالکل قریب ہی دوسری مسجد سے بالالتزام صبح صادق کے پانچ منٹ بعد اذان  دی جاتی ہے۔ یہ یاد رہے کہ دوسری مسجد میں یہ سلسلہ پہلی والی مسجد بننے کے پہلے سے جاری ہے، اب جس مسجد سے صبح صادق کے بعد اذان ہوتی ہے وہاں سے دوسری مسجد والوں کو یہ کہا گیا کہ آپ لوگ اپنی اذان کا وقت بڑھاکر اور دیر سے کردو، اس لیے کہ مصلی لوگ کہتے ہیں کہ ہم کون کون سی مسجد کی اذان کا جواب دیں؟
آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا محض کسی مسجد سے یہ سوچ کر کہ ہمارے یہاں سب سے پہلے نماز ہوگی تو مصلی زیادہ آئیں گے، اور اس کے لیے بالکل وقت ہوتے ہی اذان دینا درست ہے؟ پہلی  مسجد والوں کا دوسری مسجد والوں سے یہ کہنا کہ دیر سے اذان سے دو، یہ درست ہے؟ یا یہ کہ انکو خود صبح صادق کے پانچ منٹ کے بعد اذان دینا چاہیے؟ آپ سے قدرے تفصیل کے ساتھ سوال کا جواب دینے کی درخواست ہے۔
(المستفتی : امتیاز احمد، مالیگاؤں)
----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ظہر، عصر اور عشاء کی نماز میں اتنا وقفہ ہونا چاہیے کہ اذان دینے کے بعد مؤذن و امام سمیت دیگر موجود مصلیان اطمینان وسکون سے چار رکعت سنت ادا کرلیں اور یہ وقفہ دس منٹ سے کم نہ رکھا جائے اسی طرح فجر کی اذان اور جماعت کے درمیان کم از کم سات منٹ کا وقفہ ہو تاکہ اذان و جماعت باوقار انداز میں ادا ہو، اس سے کم وقفہ رکھنے کی صورت میں ایک بھاگم بھاگ اور جلد بازی کا ماحول بنے گا، جو نماز کی روح کے منافی ہے۔ اور کسی مصلحت کے تحت یہ وقفہ شہر کی چند مساجد میں ہوتو ٹھیک ہے، تمام مساجد میں یہی معمول بنالینا قطعاً غیرمناسب ہوگا۔ عام طور پر شہر میں ظہر، عصر اور عشاء کی نماز میں پندرہ منٹ اور فجر میں تیس منٹ کا وقفہ رکھا جاتا ہے یہی شریعت کے مزاج کے مطابق ہے۔ اور عوام کے لئے تو جتنی سہولت دی جائے کم ہے، لہٰذا سہولت پیدا کرنے میں اس کا خیال رکھا جائے کہ کسی خلافِ شرع امر کا ارتکاب نہ ہو۔

صبح  صادق  ہوتے ہی فجر کا وقت ہوجاتا ہے مگر صبح  صادق  کی  پہچان مشکل ہے اور تقویم میں بھی غلطی کا امکان ہے، گھڑیوں  کے  وقت میں بھی فرق ہوتا ہے، لہٰذا صبح  صادق  کے  لکھے ہوئے وقت کے احتیاطاً پانچ منٹ بعد اذان دی جائے، ارباب افتاء نے اپنے فتاویٰ میں یہی لکھا ہے۔

سب سے پہلے تو یہ جان لیا جائے کہ اذان کا قولی یعنی زبان سے جواب دینا مستحب ہے، اور فعلی جواب دینا یعنی جماعت میں شریک ہونا واجب ہے، متعدد جگہوں سے اذان کی آواز سنائی دے تو پہلی اذان کا جواب دے دینا کافی ہے، ہر اذان کا جواب دینے کو ضروری سمجھنا درست نہیں۔ بلکہ پہلی اذان کا جواب دینا بھی مستحب ہے، واجب نہیں۔ لہٰذا مصلیان کا یہ کہنا کہ ہم کون کون سی مسجد کی اذان کا جواب دیں لاعلمی پر مبنی ہے، اور اسے بنیاد کر دوسری مسجد والوں کا پہلی مسجد والوں سے یہ کہنا کہ آپ تاخیر سے اذان دلوائیں، فضول اور احمقانہ مطالبہ ہے، جس کا پورا کرنا پہلی مسجد والوں کے لیے ضروری نہیں ہے۔ دوسری مسجد والوں کو اس سلسلے میں علماء کرام سے رہنمائی لینے کے بعد کوئی قدم اٹھانا چاہیے تھا۔

صبح صادق کے فوراً بعد اذان دینا خلافِ احتیاط ہے، اس سے بچنا چاہیے، مصلحت کے تحت کسی مسجد میں اول وقت میں جماعت کرنا درست ہے، لیکن اوپر جو ترتیب بتائی گئی ہے کہ صبح صادق کے پانچ منٹ کے بعد اذان ہو اور اس کے کم از کم سات منٹ کے بعد جماعت ہو یہ طریقہ اختیار کیا جائے تاکہ کوئی قباحت باقی نہ رہے۔

أول وقت الفجر إذا طلع الفجر الثاني، وہو المعترض في الأفق، وآخر وقتہا ما لم تطلع الشمس۔ (ہدایۃ، کتاب الصلوۃ، باب المواقیت، ۱/ ۸۰) 

والأحوط في الصوم والعشاء اعتبار الأول وفي الفجر اعتبار الثاني۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/٥١)

وإذا تعدد الأذان یجیب الأول۔ (مراقي الفلاح : ۳۹ باب الأذان)

مطلقاً سواء کان أذان مسجده أم لا؛ لأنه حیث سمع الأذان ندبت له الإجابة، ثم لایتکرر علیه في الأصح ذکره الشهاب في شرح الشفاء۔ (الطحطاوي علی مراقي الفلاح : ۱۱۷، باب الأذان)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 ربیع الاول 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں