پیر، 25 نومبر، 2019

منگنی کی شرعی حیثیت

*منگنی کی شرعی حیثیت*

سوال :

منگنی کسے کہتے ہیں، کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں منگنی کا رواج تھا؟ اگر تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیا طریقہ بتایا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : افضال احمد ملی، مالیگاؤں)
--------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عربی زبان میں خِطبہ کے حقیقی معنی پیغامِ نکاح اور نکاح کی بات چیت کے ہیں، البتہ عُرف عام میں خِطبہ  کا  اطلاق  منگنی  پر انتہاء اور مآل کے اعتبار سے ہوتا ہے جس  کا  مطلب یہ ہے کہ اولاً پیغام دیا جاتا ہے پھر طرفین ایک دوسرے سے متعلق اطمینان کرلیتے ہیں اگر بات بن جائے تو وعدہ کرلیا جاتا ہے، یہی پیغام نکاح  نتیجۃً اور انتہاء وعدۂ نکاح یعنی  منگنی  ہے۔

معلوم ہوا کہ شریعتِ مطہرہ میں منگنی کسی تقریب کا نام نہیں ہے۔ بلکہ اس کی حیثیت صرف وعدہٴ نکاح کی ہے۔ مطلب یہ کہ ایک طرف سے نکاح کا پیغام دیا جائے اور دوسری طرف اسے قبول کرلیا جائے تو منگنی ہوگئی۔

الفقہ الاسلامی اور المفصل کے مصنفین نے بھی خطبہ کے معنی پیغام نکاح  کے کئے ہیں اور ان  کا  خطبہ کو”مجرد وعد بالزواج لازواجا“ کہنے سے دو باتوں کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے ایک یہ کہ اگر کوئی عذر شرعی ہو تو خطبہ کو فسخ بھی کرسکتے ہیں کہ خِطبہ نتیجۃً محض وعدہ ہے نکاح  نہیں، دوسرا یہ کہ خِطبہ کی بنیاد پر لڑکی لڑکا ایک دوسرے کے حق میں محرم نہیں  بنتے کہ ایک دوسرے کو دیکھ سکیں۔

لہٰذا دونوں طرف کے چند ذمہ دار آدمیوں کی موجودگی میں بات پکی ہوجائے اور مہر اور دیگر ضروری اور اہم معاملات سب کے سامنے سب کے مشورہ سے طے ہوجائیں تو اس میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے، بشرطیکہ اس میں کسی ناجائز امر کا ارتکاب نہ ہو مثلاً لڑکی لڑکے کا آپس میں بات چیت کرنا، ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنانا، مرد و زن کا اختلاط وغیرہ نہ ہوں۔

رہی بات دورِ نبوی میں منگنی کے رواج کی تو تلاشِ بسیار کے بعد بھی اس کی کوئی صراحت نہیں ملی جس میں بیٹھ کر باقاعدہ تاریخ وغیرہ طے ہوئی ہو، ہاں  پیغامِ نکاح کے بعد آپس میں مشورہ کرنا، مہر وغیرہ متعین کرنا ملتا ہے۔

لمافی القاموس المحیط (۶۵/۱) الخطبۃ بکسر الخاء مصدر خطب، یقال خطب المرأۃ خطبۃ وخطبا، واختطبھا، اذا طلب ان یتزوجھا، واختطب القوم فلانا اذا دعوہ الی تزویج صاحبتھم۔

وفی المعجم الوسیط (۲۴۳): خطب الناس خطبا وخطبۃ: طلبھا للزواج ویقال خطبھا الی اھلھا: طلبھا منھم للزواج۔الخطبۃ طلب المرأۃ للزواج والمرأۃ المخطوبۃ۔

وفی لغات القرآن (۳۱۳/۱): خِطبۃ پیغام نکاح، منگنی، نکاح کی بات چیت کو خطبۃ کہتے ہیں۔

وفی المرقاۃ (۲۷۸/۶) کتاب النکاح: الخطبۃ منھیۃ اذاکانا راضیین وتعین الصداق۔

وفی المفصل فی احکام المرأۃ (۵۸/۶) الخطبۃ: حکمۃ تشریعھا: اما حکمۃ تشریعھا فھی اعطاء فرصۃ کافیۃ للمرأۃ واھلھا واولیائھا للسؤال عن الخاطب والتعرف علی ما یھم المرأۃ واھلھا واولیائھم معرفتہ من خصال الخاطب مثل تدینہ واخلاقہ وسیرتہ ونحو ذلک ۔۔۔ وفی الخطبۃ أیضا فرصۃ للخاطب لیعرف عن المرأۃ مالم یعرفہ عنھا قبل الخطبۃ۔

وفی الفقہ الاسلامی وادلتہ (۶۴۹۲/۹): معنی الخطبۃ ھی اظھار الرغبۃ فی الزواج بامرأۃ معینۃ ۔۔۔ فان وافقت المخطوبۃ او اھلھا فقد تمت الخطبۃبینھما وترتبت علیھا احکامھا وآثارھا الشرعیۃ ۔۔۔ الخطبۃ والوعد بالزواج، وقراءۃ الفاتحہ، وقبض المھر، وقبول الھدیۃ لا تکون زواجا۔

وفی الشامیۃ (۸/۳) کتاب النکاح: وتقدیم خطبۃ ۔۔۔ واما بکسرھا فی طلب التزوج۔
مستفاد : نجم الفتاویٰ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 ربیع الاول 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں