پیر، 4 نومبر، 2019

بھاتی کا کھانا کن لوگوں کے لیے ہے؟

*بھاتی کا کھانا کن لوگوں کے لیے ہے؟*

سوال :

بھاتی کھانا کن افراد کے لئے ہوتا ہے اور کتنے وقت تک؟ آجکل چلن کے مطابق بڑے خاندانوں میں چار چار پائلی کی بھاتی لکھائی جاتی ہے، زبردستی پکڑ پکڑ کر کھلایا جاتا ہے۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی  کے  یہاں  میت  ہوجانے پر چونکہ اہل خانہ رنج وغم میں ہوتے ہیں اور  میت  کی تجہیز و تکفین میں مشغول رہتے ہیں، اسلئے  انہیں کھانا  پکانے موقع نہیں ملتا، اس لئے شریعتِ مطہرہ نے ان  کے رشتہ داروں اور پڑوسیوں پر مسنون و مستحب کیا ہے کہ وہ میت کے اہلِ خانہ کیلئے ایک دن کے کھانے کا انتظام کریں۔ جسے ہمارے شہر میں "بھاتی" کہا جاتا ہے۔

ملحوظ رہے کہ میت کے اہلِ خانہ کو کھانا کھلانا اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ میت کے گھر میں یا میت کے گھر والوں کے لیے کھانا پکانا ممنوع ہے، بلکہ اس وجہ سے   ہوتا ہے کہ غم و حزن اور تجہیز و تکفین کی مشغولیت کی وجہ سے ان کو کھانا پکانے کا موقع نہیں ملے گا جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، لہٰذا اگر میت کے گھر والے خود اپنے لیے اسی دن کھانا بنائیں تو اس کی اجازت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں سے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، اس لیے کہ ان کو ایسی خبر پہنچی ہے جو ان کو مشغول کرے گی، یعنی جعفر کی شہادت کی خبر سن کر صدمہ اور رنج میں مشغول ہوکر کھانے پینے کے انتظام کی خبر نہیں رہے گی۔

لیکن یہ کھانا صرف میت کے گھر والوں کے لیے  ہے یہ نہ ہو کہ پورے خاندان والوں اور دوست و احباب کو بھی کھلایا جائے۔ سوال نامہ میں مذکور آپ کی بات بالکل درست ہے، بلاشبہ شہر میں اس سلسلے میں بے اعتدالی ہورہی ہے، بڑی مقدار میں بھاتی کا انتظام کروایا جاتا ہے پھر غیرمستحقین کو پکڑ پکڑ کر کھلایا جاتا ہے یا پھر بچ جانے کی صورت میں گلی محلے میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اور اس کا سیدھا بوجھ بھاتی دینے والوں کی جیب پر پڑتا ہے۔ اسے اعتدال پر لانے کی اصل ذمہ داری میت کے اہلِ خانہ کی ہے، یہ اُنہیں کا کام ہے کہ وہ کم از کم بھاتی منگوائیں، صرف میت کی اولاد اور بہن بھائیوں کی حد تک انتظام کروایا جائے، میت کے بھائی بہن اگر بہو، داماد والے ہیں تو اُن کے گھر میں آسانی سے اُن کے کھانے کا انتظام ہوسکتا ہے، لہٰذا یہ لوگ بھی بھاتی میں شریک نہ ہوں۔

تاہم یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ اگر میت کے دُور کے رشتہ دار اور دوست و احباب بھاتی میں شریک ہوجائیں تو ان کے لیے یہ کھانا ناجائز اور حرام تو نہیں ہے۔ البتہ اُن کا یہ عمل شریعت کی رُوح کے منافی ہے جس سے بچنا چاہیے۔

لما جاء نعی جعفرؓ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصنعوا لاٰل جعفر ؓ طعاماً فإنہ أتاہم ما یشغلہم۔ (ابوداؤد کتاب الجنائز، باب صنعۃ الطعام لأھل المیت ، النسخۃ الہندیۃ ۲/۴۴۷، دارالسلام رقم:۳۱۳۲)

( قولہ وباتخاذ طعام لہم ) قال فی الفتح : ویستحب لجیران أہل المیت والأقرباء الأباعد تہیئۃ طعام لہم یشبعہم یومہم ولیلتہم لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد أتاہم مایشغلہم - لأن الحزن یمنعہم من ذلک فیضعفون ۔ (درمختار مع الشامی : ۲/۲۴۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 ربیع الاول 1441

1 تبصرہ: