ہفتہ، 16 نومبر، 2019

چغلی اور غیبت کا کفارہ

*چغلی اور غیبت کا کفارہ*

سوال :

محترم مفتی صاحب ! کیا کسی کی غیبت یا چغلی کی ہو اسکی توبہ کا کیا طریقہ ہوگا؟ صرف توبہ و استغفار کرلینا کافی ہوگا یا اُس سے معافی مانگنا ضروری ہے؟
(المستفتی : محمد حسان، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : غیبت اور چغلی سنگین اخلاقی جُرم ہونے کے ساتھ ساتھ کبیرہ گناہ بھی ہیں جن پر احادیث مبارکہ میں سخت وعید وارد ہوئی ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو ان گناہوں سے کلی طور پر اجتناب کرنا چاہیے۔

تاہم اگر کسی سے یہ گناہ سرزد ہوگیا ہوتو اس کا کفارہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اس گناہ کو چھوڑ دے اور اس پر ندامت و شرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار کرے، نیز جن لوگوں کی غیبت یا چغل خوری کی گئی ہے، اگر وہ زندہ ہوں اور اُن سے ملاقات ممکن ہوتو براہ راست ان سے ملاقات کرکے معافی مانگ لینا چاہیے، اور اگر اُن سے رابطہ ممکن نہ ہو یا وہ انتقال کرگئے ہوں، یا پھر ان کے سامنے غیبت یا چغل خوری کا تذکرہ کیا جائے تو اس سے مزید فتنہ کا اندیشہ ہوتو اُن کے لئے استغفار اور دعاء خیر کرنے سے امید ہے کہ غیبت یا چغل خوری کے گناہ کا کفارہ ہوجائے گا۔

وما ذکر في غیر الغائب والمیت، أما فیہما فینبغي أن یکثر لہما الاستغفار۔ (روح المعاني ۲۶؍۱۶۰، معارف القرآن ۸؍۱۲۳)

والمراد أن یبیّن لہ ذٰلک ویعتذر إلیہ لیسمح عنہ، بأن یبالغ في الثناء علیہ والتودّد إلیہ ویلازم ذٰلک حتی یطیب قلبہ۔ وإن لم یطب قلبہ کان اعتذارہ وتودّدہ حسَنۃٌ یقابل بہا سیئۃ الغیبۃ في الآخرۃ، وعلیہ أن یخلص في الاعتذار، وإلا فہو ذنب آخر، ویحتمل أن یبقی لخصمہ علیہ مطالبۃ في الآخرۃ … بل یستغفر اللّٰہ لہ إن علم أن إعلامہ یثیر فتنۃً … الخ۔ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحۃ / فصل في البیع ۶؍۴۱۱ کراچی)
مستفاد : کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 ربیع الاول 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں