پیر، 30 ستمبر، 2019

کھانا کھاتے وقت بائیں ہاتھ سے گوشت توڑنا

*کھانا کھاتے وقت بائیں ہاتھ سے گوشت توڑنا*

سوال :

مفتی صاحب! بعض احباب کھانا کھاتے وقت دونوں ہاتھ بھرا لیتے ہیں، وہ اسطرح کہ سیدھے ہاتھ سے تو کھائیں گے، مگر الٹے ہاتھ سے گوشت پکڑ کر سیدھے ہاتھ سے نوچ کر پلیٹ میں ڈالتے رہیں گے جبکہ ایک ہی ہاتھ سے گوشت توڑا جا سکتا ہے۔
براہ کرم اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں کہ یہ کراہیت والا عمل ہے یا چلے گا؟
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بہتر تو یہی ہے کہ کھانے میں بایاں ہاتھ بطورِ تعاون بھی استعمال نہ ہو۔ لیکن علماء نے لکھا ہے کہ بوقتِ ضرورت بائیں ہاتھ سے گوشت وغیرہ توڑنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں بائیں ہاتھ سے گوشت توڑنے میں اگرچہ شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ جب دوسروں کے ساتھ کھانا کھارہے ہوں تب اس سے احتیاط کرلیا جائے کیونکہ دونوں ہاتھ شوربے میں ملوث ہوجانے کی وجہ سے یہ عمل دوسروں کے لیے کراہت کا سبب بن سکتا ہے۔

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال : لیأکل أحدکم بیمینہ، ویشرب بیمینہ، ولیأخذ بیمینہ، ولیعط بیمینہ، فإن الشیطان یأکل بشمالہ، ویشرب بشمالہ، ویعطي بشمالہ۔ (الترغیب والترہیب، کتاب الطعام وغیرہ / الترہیب من الأل والشرب بالشمال الخ رقم : ۳۲۴۷ بیت الأفکار الدولیۃ)

قال في عمدۃ القاري : وفي حدیث أبي داؤد یجعل یمینہ لطعامہ وشرابہ وشمالہ سویٰ ذٰلک، فإن احتیج إلی الاستعانۃ بالشمال فبحکم التبعیۃ۔ (عمدۃ القاري ۲۱؍۲۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
30 محرم الحرام 1441

اتوار، 29 ستمبر، 2019

الیکشن کے ایام میں امیدوار سے پیسے لینا

*الیکشن کے ایام میں امیدوار سے پیسے لینا*

سوال :

مفتی صاحب الیکشن کے دنوں میں سیاسی پارٹیوں کی طرف سے گلی گلی گھوم کر عورتوں کو کچھ رقم سیاسی لیڈران دے رہے ہیں اور اس کو نام یہ دیا جارہا ہے کی یہ چائے پانی خرچ ہے اور یہ جملہ بولا جارہا ہے کی یہ پیسہ تمہاری  ووٹ خریدنے کیلئے نہیں بلکہ بطور خرچ دیا جارہا ہے تو اس نام سے ان لوگوں سے پیسہ لینا شرعی طور پر کیسا ہے؟
دوسرا سوال کہ اس پیسے کے لین دین کو کوئی شخص جائز مانتا ہو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
اور جو لوگ ان جیسے کاموں میں ملوث ہیں ان کا اگر ہم ساتھ دیں تو شرعی طور سے اس عمل کی کیا حیثیت ہے؟
(المستفتی : محمد سلیم، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں الیکشن کے ایام میں سیاسی لیڈران (امیدوار) کی طرف سے عوام کو دی جانے والی رقم خواہ چائے پانی کے نام سے ہی کیوں نہ ہو رشوت ہی ہے، اس لئے کہ الیکشن کے ایام میں ہی انہیں چائے پانی کے خرچ کا خیال کیوں آیا؟ الیکشن کے ایام کے علاوہ انہیں کبھی عوام کے چائے پانی کا خیال کیوں نہیں آتا؟ پیسے بانٹنے والا امیدوار اگر ہار جائے تو کیا وہ یہ نہیں سوچے گا کہ پیسے لینے والوں نے مجھے دھوکہ دیا ہے؟ نیز اگر امیدوار کو یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ پیسے لینے والے نے مجھے ووٹ نہیں دی ہے تو کیا وہ اسے دھوکے باز نہیں سمجھے گا؟ اسی طرح اگر اس کا بس چل جائے تو وہ دھوکہ دینے والوں سے اپنا پیسہ وصول کرنے کی کوشش نہیں کرے گا؟

مذکورہ بالا وجوہات واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ رقم رشوت ہی ہے کیونکہ شریعتِ مطہرہ میں رشوت وہ مال ہے جسے ایک شخص کسی حاکم وغیرہ کو اس لیے دیتا ہے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کر دے یا اسے وہ ذمہ داری دے دے، جسے یہ چاہتا ہے، جس کا لینا اور دینا دونوں شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ اور اس کے لین دین پر احادیثِ مبارکہ میں سخت وعید وارد ہوئی ہیں۔ (1)

حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا : رشوت لینے اور دینے والے پر اللہ تعالٰی نے لعنت فرمائی ہے۔ (2)

ایک دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : رشوت لینے اور دینے والا دونوں ہی دوزخ میں جائیں گے۔ (3)

ذکر کردہ احادیث مبارکہ رشوت کی حرمت پر صراحتاً دلالت کرتی ہیں، کیونکہ لعنت یعنی اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کسی عظیم گناہ کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رشوت گناہِ کبیرہ ہے، اور اس کے مرتکب کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے، لہٰذا ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ اس ملعون عمل سے خود بھی بچے اور بقدر استطاعت دوسروں کو بچانے کی کوشش بھی کرے۔

جو شخص اس طرح کے لین دین کو جائز سمجھتا ہو وہ صریح جہالت اور گمراہی میں ہے، اسے فوراً توبہ و استغفار کرکے اس کام سے باز آجانا چاہیے اور اگر اس نے کسی امیدوار سے رقم لے لی ہے تو اس کا واپس کرنا ضروری ہے، اگر واپس کرنا ممکن نہ ہوتو یہ رقم بلانیتِ ثواب غرباء و مساکین میں تقسیم کرنا ضروری ہے، اس کا ذاتی استعمال قطعاً جائز نہیں ہے۔ (4)

جو لوگ رشوت کے لین دین جیسے ملعون عمل میں ملوث ہیں ان کا ساتھ دینا یعنی رشوت کے معاملات میں ان کے ساتھ رہنا اور اس کی دلالی کرنا بھی ملعون عمل ہے، اس لئے کہ ایک حدیث شریف میں رشوت کی دلالی کرنے والے پر بھی لعنت کی گئی ہے۔ (5)

1) قال العلامۃ ابن عابدین :  الرشوۃ بالکسر ما یعطیہ الشخص الحاکم وغیرہ لیحکم لہ او یحملہ علی ما یرید۔ (ردالمحتار، ۴:۳۳۷،۳۳۸ مطلب فی الکلام علی الرشوۃ)

2) عن أبي ہریرۃ -رضي اﷲ عنہ- لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم الراشي والمرتشي في الحکم۔ (ترمذي، باب ماجاء في الراشي والمرتشي في الحکم،)

3) عن عبد الله بن عمرو قال: قال النبیﷺ: الراشی والمرتشی فی النار۔ (المعجم الأوسط، دارالفکر ۱/۵۵۰، رقم:۲۰۲۶،)

4) ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹؍۵۵۳)

5) لَعنَ اللَّه الرَّاشيَ والمرتشيَ والرَّائشَ.
الراوي : عبدالله بن عمر
المحدث: العجلوني
المصدر:  كشف الخفاء
الصفحة أو الرقم:  2/186
خلاصة حكم المحدث:  سنده حسن)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 محرم الحرام 1441

ہفتہ، 28 ستمبر، 2019

جمعہ کی نماز میں مقررہ وقت سے تاخیر کرنا

*جمعہ کی نماز میں مقررہ وقت سے تاخیر کرنا*

سوال :

جمعہ کی جماعت کا وقت 1:45 ہے اب اگر اپنے وقت سے پانچ دس منٹ تاخیر سے جماعت ہوتی ہے تب ایک شخص اسے مکاری، دھوکہ دینا اور وعدہ خلافی کہتا ہے کیا اس کا یہ الفاظ کہنا درست ہے؟
(المستفتی : نعیم الرحمن، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جمعہ کی نماز مقررہ وقت پر کھڑی کرنے کے سلسلے میں بہت سی مساجد میں لاعلمی کی وجہ سے کوتاہی ہورہی ہے، لہٰذا جواب میں اس مسئلے سے متعلق تمام باتیں ذکر کی جائیں گی، جس میں تاخیر کا تفصیلی حکم، اس کا حل وغیرہ تمام باتیں موجود ہوں گی۔

ہمارے شہر میں فی الحال جمعہ کی پہلی اذان، تقریر، خطبہ اور نماز کی ادائیگی دو طرح کے اوقات میں ادا کی جاتی ہے۔

ایک طریقہ تو یہ ہے جو بعض مساجد میں اختیار کیا گیا ہے کہ پہلی اذان سے تقریباً نصف گھنٹہ قبل تقریر شروع ہوتی ہے اور پہلی اذان تک چلتی رہتی ہے، جیسے ہی اذان کا وقت ہوتا ہے اذان دے دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے مقرر اذان کے اختتام تک اپنی بات بہرحال سمیٹ لیتا ہے۔ پھر سنت کے لیے وقفہ ہوتا ہے اس کے بعد مقررہ وقت پر دوسری اذان، خطبہ اور نماز ہوجاتی ہے۔ جس میں تکلیف دہ تاخیر ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس طریقہ کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ اذانِ اول اور ثانی کے درمیان وقفہ کم ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ پہلی اذان کے فوراً بعد ہی مسجد پہنچ جاتے ہیں، اور اس قرآنی حکم کی پامالی سے بھی بچ جاتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ جمعہ اذان کے بعد خرید و فروخت بند کرکے نماز کے لیے سعی کی جائے۔ جسے فقہاء نے مکروہِ تحریمی لکھا ہے۔ اسی کے ساتھ اذانِ اول کے فوراً بعد مسجد پہنچنے کی فضیلت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ جبکہ پہلی اور دوسری اذان میں وقفہ زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ نماز کی تیاری کو چھوڑ کر دیگر کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور گناہ گار ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ طریقہ بڑا محفوظ اور مامون ہے، لیکن یہ طریقہ اب تک ان مساجد میں رائج ہے جہاں نماز اول وقت میں ہوتی ہے، دیگر عام اوقات والی مساجد میں بھی اس کا تجربہ ہونا چاہئے اور لوگوں کو اس کے فوائد بتانا چاہئے، ان شاء اللہ نماز میں تاخیر ہونے کا مسئلہ بالکل ختم ہوجائے گا۔

دوسرا طریقہ وہ ہے جو شہر کی بقیہ تمام مساجد میں رائج ہے کہ پہلے اذان ہوتی ہے، کچھ توقف کے بعد یا پھر فوراً تقریر شروع ہوجاتی ہے، تقریر ختم ہونے کے بعد سنت کا وقت دیا جاتا ہے، پھر اذانِ ثانی، خطبہ اور نماز ہوتی ہے۔ اس صورت میں ہی عموماً مقررین سے تاخیر ہوتی ہے، چنانچہ یہ تاخیر کبھی کبھار پانچ سات منٹ تک ہوتو اسے عذر کہا جاسکتا ہے، کیونکہ بعض مرتبہ مقرر کو وقت کا اندازہ نہیں ہوپاتا یا پھر کوئی اہم بات بیان کی جارہی ہے جس کا مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے، ورنہ اس بات کا اندیشہ ہوتا ہے کہ بات ادھوری رہ جانے کی وجہ سے اس کا غلط مطلب نہ سمجھ لیا جائے، البتہ وقتِ مقررہ سے تاخیر کا معمول بنالینا اور متعینہ وقت کی پاسداری نہ کرنا بلاشبہ وعدہ خلافی ہے۔

معلوم ہونا چاہیے کہ عہد اور وعدہ کی ایک قسم وہ ہے جو انسان کسی انسان سے کرتا ہے جس میں تمام معاہدات سیاسی تجارتی معاملاتی شامل ہیں جو افراد یا جماعتوں کے درمیان دنیا میں ہوتے ہیں۔ اگر یہ معاہدات خلافِ شرع نہ ہوں تو ان کا پورا کرنا واجب ہے اور جو خلافِ شرع ہوں ان کا فریقِ ثانی کو اطلاع کرکے ختم کردینا واجب ہے۔ جن معاہدات کا پورا کرنا واجب ہے اگر کوئی پورا نہ کرے تو دوسرے کو حق ہے کہ وہ عدالت میں دعویٰ کرکے اس کو پورا  کرنے پر مجبور کرے۔ معاہدہ کی حقیقت یہ ہے کہ دو فریق کے درمیان کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا عہد ہو۔ اور اگر کوئی شخص کسی سے یک طرفہ وعدہ کرلیتا ہے کہ میں آپ کو فلاں چیز دوں گا یا فلاں وقت آپ سے ملوں گا یا آپ کا فلاں کام کردوں گا تو اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہے، اور بعض حضرات نے اس کو بھی عہد کے اس مفہوم میں داخل کیا ہے لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ معاہدہ فریقین کی صورت میں اگر کوئی خلاف ورزی کرے تو دوسرا فریق اس کو بذریعہ عدالت تکمیل معاہدہ پر مجبور کرسکتا ہے مگر یک طرفہ وعدہ کو عدالت کے ذریعہ جبراً پورا نہیں کراسکتا ہاں بلاعذر شرعی کے کسی سے وعدہ کرکے جو خلافِ ورزی کرے گا وہ شرعاً گناہ گار ہوگا۔ (مستفاد : معارف القرآن)

ذکر کردہ تفصیل سے واضح ہوگیا کہ مسجد میں جمعہ کی نماز کے وقت کا بورڈ لگادینا یک طرفہ وعدہ کی قبیل سے ہے جس کی پابندی کرنا ضروری ہے، بلاعذر تاخیر کی صورت میں مقرِّر/امام گناہ گار ہوں گے، اور تاخیر کی وجہ سے مصلیان کو غیرمعمولی تکلیف ہو تو یہ ایذائے مسلم میں بھی داخل ہے۔

وعدہ خلافی سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ اوقاتِ نماز کے بورڈ پر یہ لکھ دیا جائے کہ نماز فلاں وقت کے بعد ہوگی، مثلاً جماعت کا وقت پونے دو بجے ہے تو لکھا جائے کہ نماز *1:45 کے بعد* ہوگی یا اس کا اعلان کردیا جائے، اس صورت میں چونکہ مخصوص وقت متعین نہیں ہوا ہے، اس لئے پونے دو سے دو بجے تک کے درمیان کبھی بھی نماز کھڑی کی جاسکتی ہے۔ جس کی وجہ سے تاخیر سے آکر گھڑی دیکھنے والوں کو اعتراض کا حق بھی نہیں ہوگا۔ اور نہ ہی انتشار کا اندیشہ باقی رہے گا۔

صورتِ مسئولہ میں اس شخص کا بلاعذر تاخیر کرنے کو وعدہ خلافی کہنا تو درست ہے جیسا کہ اوپر گذرا، لیکن اسے مکاری اور دھوکہ کہنا بذاتِ خود ظلم ہے، کیونکہ دھوکہ اسے کہا جاتا ہے کہ ایک شخص دوسرے کو اندھیرے میں رکھ کر اور اسے نقصان پہنچا کر خود فائدہ اٹھالے جبکہ یہاں یہ معاملہ نہیں ہے، اس لئے کہ یہاں تاخیر لوگوں کی خیرخواہی کے جذبہ سے ہوتی ہے کہ کچھ دیر اور دین کی بات سُن لی جائے، اگرچہ ایسا کرنا وعدہ خلافی اور غلط ہے، لیکن اسے دھوکہ کہنا بھی غلط ہے۔ لہٰذا اس شخص کو اپنی سخت کلامی پر امام صاحب سے معافی مانگنا چاہیے اور توبہ و استغفار کرنا چاہیے اور آئندہ علماء و ائمہ سے انتہائی ادب و تمیز سے بات کرنا چاہیے، اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ علماء کرام سے بدزبانی کرنا دنیا و آخرت میں سخت خسارے کا سبب ہے۔

قال اللہ تعالٰی : وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُوْلًا۔ (سورۃ الاسراء، آیت :۳۴)

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: آیۃ المنافق ثلاث: إذا حدث کذب، وإذا وعد أخلف، وإذا ائتمن خان۔ (صحیح البخاري، کتاب الإیمان / باب علامۃ المنافق رقم: ۳۳)

قال الملا علی القاری ان من وعد ولیس من نیتہ ان یفی فعلیہ الاثم سواء وفی بہ اولم یف فانہ من اخلاق المنافقین۔ (مرقاۃ، ۴؍۶۴۷، باب الوعد)

عن أبي هريرة، عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: المسلم من سلم الناس من لسانه ويده، والمؤمن من أمنه الناس على دمائهم وأموالهم۔ (سنن النسائي:۲؍۲۶۶، رقم الحدیث: ۴۹۹۵)

وفی جامع الفصولین بغض عالمًا او فقیہًا بلا سبب ظاہر خیف علیہ الکفر۔(جامع الفصولین، الباب الثامن والثلثون فی مسائل کلمات الکفر ۲/۳۰۹، بحوالہ فتاوی فلاحیہ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 محرم الحرام 1441

جمعہ، 27 ستمبر، 2019

نمازی کے آگے سے گذرنے سے متعلق مسائل

*نمازی کے آگے سے گذرنے سے متعلق مسائل*

سوال :

محترم مفتی صاحب! چند اہم مسائل کا حل دریافت طلب ہے۔
1) عام طور پر سلام پھیرنے کے بعد پیچھے کافی تعداد میں لوگ اپنی رکعتیں پوری کر رہے ہوتے ہیں، کچھ افراد دو لوگوں کے درمیان معمولی سے جگہ بھی ہوتی ہے تو نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، تآنکہ دونوں نمازیوں کو دھکا لگ جاتا ہے۔
2) اگر ہمارے پیچھے کوئی نماز پڑھ رہا ہو، تو ہم اپنی جگہ سے تھوڑا دائیں، بائیں کھسک کر نکل سکتے ہیں؟
3) بہت سے افراد ایسا لگتا ہے جان بوجھ کر آگے والے کو نکلنے نہیں دیتے، نیت پر نیت باندھ کر اپنی نماز مکمل کرتے رھتے ہیں، ایسے لوگوں کے لئے کیا حکم ہے؟
4) کیا کسی شخص کا ہاتھ سے سترہ بنانا درست ہے؟ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جب کوئی نمازی جماعت کے بعد نکلنا چاہتا ہے مگر پیچھے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہوتا تو آگے بیٹھا ہوا شخص اپنے ہاتھ سے سترہ بنادیتا ہے تاکہ وہ شخص باہر نکل سکے آیا یہ سترہ معتبر ہے یا نہیں؟
(المستفتی : عمران الحسن/محمد معاذ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر دو نمازیوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہو کہ نکلنے والے کو غالب گمان ہو کہ وہ آسانی سے نکل جائے گا کسی کو دھکا نہیں لگے گا تب تو نکلنے کی گنجائش ہے، اس کے باوجود اگر کسی کو دھکا لگ گیا تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔ البتہ اگر دھکا لگ جانے کا قوی اندیشہ ہوتو ایسی صورت میں نکلنے کی گنجائش نہیں ہے، دھکا لگنے کی صورت میں ایسا شخص نماز میں خلل پیدا کرنے اور ایذائے مسلم کا گناہ گار ہوگا۔

2) نمازی کے عین آگے بیٹھنے والا اپنی جگہ سے اُٹھ کر جاسکتا ہے، کیونکہ اس میں نمازی کے آگے سے گذرنا نہیں پایا جاتا۔

3) قصداً ایسی جگہ نماز پڑھنا جس کی وجہ سے آگے نماز پڑھنے والا نکل نہ سکے، یہ بھی ایذائے مسلم میں داخل ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز اور گناہ ہے۔

4) سُترہ کی مقدار کم از کم ایک ہاتھ (ایک ذراع  شرعی = ۸ ۱ انچ) لمبی اور ایک انگلی کے بقدر موٹی ہونی چاہیے۔ چونکہ سُترہ کی مقدار ہی ایک ہاتھ ہے، لہٰذا ہاتھوں کا سُترہ بنانا درست ہے، البتہ سُترہ بنانے والے کے ہاتھوں کا زمین سے لگا ہونا چاہیے، پس اگر یہی کیفیت ہوتی ہے (غالباً یہی ہوتا) تو یہ سُترہ معتبر ہے، اور اس کے آگے سے گذرنا صحیح ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ۔ (سنن نسائی، رقم : ٤٩٩٥)

عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : أَعَدَلْتُمُونَا بِالْكَلْبِ وَالْحِمَارِ، لَقَدْ رَأَيْتُنِي مُضْطَجِعَةً عَلَى السَّرِيرِ، فَيَجِيءُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَتَوَسَّطُ السَّرِيرَ، فَيُصَلِّي فَأَكْرَهُ أَنْ أُسَنِّحَهُ ، فَأَنْسَلُّ مِنْ قِبَلِ رِجْلَيِ السَّرِيرِ حَتَّى أَنْسَلَّ مِنْ لِحَافِي۔ (صحیح البخاری، رقم : ٥٠٨)

(وَيَغْرِزُ) نَدْبًا (الْإِمَامُ) وَكَذَا الْمُنْفَرِدُ (فِي الصَّحْرَاءِ) وَنَحْوِهَا (سُتْرَةً بِقَدْرِ ذِرَاعٍ) طُولًا (وَغِلَظِ أُصْبُعٍ) لِتَبْدُوَ لِلنَّاظِرِ (بِقُرْبِهِ)۔ (شامی : ١/٦٣٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 محرم الحرام 1441

بدھ، 25 ستمبر، 2019

ضابطہ کی خلاف ورزی پر اساتذہ کی تنخواہ کاٹنا

*ضابطہ کی خلاف ورزی پر اساتذہ کی تنخواہ کاٹنا*

سوال :

مفتی صاحب !  کسی ادارہ میں جرمانہ کے طور پر اساتذہ کی تنخواہ میں سے کچھ پیسہ کاٹ لیا جائے تو وہ پیسہ ادارہ (مینجمنٹ) کیلئے کیسا ہے؟
مثلاً : مہینہ میں تین دن ایک منٹ کی بھی تاخیر ہو گئی تو ایک دن کی تنخواہ کٹ۔
اپنے ناغہ کی اطلاع تاخیر سے دئیے، یا بغیر اطلاع کے ناغہ کیے تو ایک کی بجائے دو دن کی تنخواہ کٹ۔
کسی چھٹی (اتوار یا کوئی تہوار) سے عین ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کسی مجبوری کے تحت اطلاع دے کر بھی ناغہ کیا جائے تو تمام چھٹیوں کے ایام کی بھی تنخواہ کٹ۔
(المستفتی : عامر ملک ندوی، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں اساتذہ کے تاخیر سے آنے یا غیرحاضر رہنے پر انتظامیہ کو صرف اتنی ہی تنخواہ کاٹنے کا اختیار ہے جتنی تاخیر ہوئی ہے یا جتنے دن غیرحاضری ہوئی ہے، اس سے زیادہ تنخواہ کاٹنا ظلم اور مالی جرمانہ ہے، اور مالی جرمانہ وصول کرنا جمہور علماء امت بشمول طرفین (امام ابو حنیفۃ اور امام محمد رحمهما اللہ) کے نزدیک ناجائز ہے۔ جرمانہ کی یہ رقم انتظامیہ کے لیے حلال نہیں ہے اور نہ ہی ادارہ کے کسی کام میں اس کا استعمال جائز ہے۔ اس رقم کا اساتذہ کو واپس کرنا ضروری ہے، عدم ادائیگی کی صورت میں منتظمین مستحقِ عتاب الہی ہوں گے، اور بروز حشر قابلِ مؤاخدہ بھی ہوں گے، اِلّا یہ کہ اساتذہ انہیں معاف کردیں۔

ادارے کے نظم و ضبط کو بہتر بنانے کے لیے ایک مناسب حل یہ بھی ہے کہ پہلے ہی اساتذہ کی تنخواہ کچھ کم طے کی جائے اور ضابطہ بنادیا جائے کہ پابندی اور وقت پر آنے والے اساتذہ کو بطور انعام کچھ رقم دی جائے گی، اس پر عمل کیا جائے ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔

عن أنس بن مالک أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال :  لایحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفسہ۔ (سنن الدارقطني، کتاب البیوع، ۳/۲۲، رقم: ۲۷۶۲)

التعزیر بالمال جائز عند أبی یوسف، وعندہما وعند الأئمۃ الثلاثۃ لایجوز، وترکہ الجمہور للقرآن والسنۃ : وأما القرآن فقولہ تعالی : (فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم)۔ وأما السنۃ فإنہ علیہ السلام قضی بالضمان بالمثل ولأنہ خبر یدفعہ الأصول فقد أجمع العلماء علی أن من استہلک شیئاً لم یغرم إلا مثلہ أو قیمتہ ۔ (اعلاالسنن ، ۱۱/۷۳۳، باب التعزیر بالمال ، بیروت)

ولا یکون التعزیر بأخذ المال من الجاني في المذہب۔ (مجمع الأنہر ، کتاب الحدود / باب التعزیر ۱؍۶۰۹)

والحاصل أن المذہب عدم التعزیر بأخذ المال۔ (شامي، باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال ۶؍۱۰۶)

لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (شامي، باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال ۶؍۱۰۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 محرم الحرام 1441

الیکشن کے ایام میں امیدواروں کی دعوت قبول کرنا

سوال :

محترم مفتی صاحب ! سیاسی لیڈران کی دعوت میں شرکت کرنا یا وہاں پر کھانا کیسا ہے؟ الیکشن کے ایام کے علاوہ اور الیکشن کے ایام کا کیا حکم ہے؟ وضاحت کے جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : ملک فیصل، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عام دنوں میں مسلمان سیاسی شخصیات کی دعوت قبول کرنے کا وہی حکم ہے جو ایک عام مسلمان کی دعوت قبول کرنے کا ہے۔ مطلب یہ کہ جس شخص کی آمدنی کا اکثر حصہ حلال ہے تو اس کی دعوت قبول کرنا درست ہے خواہ وہ سیاسی شخص ہو یا کوئی عام فرد ہو، اور اگر اس کی آمدنی کا اکثر حصہ حرام ہے اور اس کا یقینی علم ہوتو اس کی دعوت قبول کرنا اور اس کے یہاں کھانا جائز نہیں ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :

الیکشن کے موقع پر امیدوار،لوگوں کو جو مٹھائیاں، پکوڑیاں وغیرہ کھلاتے ہیں، اُن کی دعوت کرتے ہیں یا انھیں کچھ دیتے ویتے ہیں، اِس میں اُن کا مقصد بہ ظاہر ووٹ کے لیے راہ ہموار کرنا ہوتا ہے کہ لوگ انھیں ووٹ دیں،اگرچہ وہ زبان سے اپنے لیے ووٹ نہ مانگیں یا یہ کہہ دیں کہ ووٹ جس کو چاہو دو، اور ووٹ شریعت کی نظر میں بعض پہلووٴں سے شہادت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور شہادت پر کسی قسم کا کوئی معاوضہ لینا جائز نہیں۔ (جواہر الفقہ جدید، ۵: ۵۳۵، ۵۳۶، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)

اس لیے الیکشن کے موقع پر کسی امیدوار کی کوئی مٹھائی وغیرہ نہیں کھانی چاہیے اور نہ ہی اس طرح کی دعوت میں شریک ہونا چاہیے بالخصوص علما، صلحا، ائمہ مساجد اور اہل مدارس کو، یہ صریح رشوت نہ ہو تو کم از کم اس میں رشوت کا شائبہ ضرور ہے۔(رقم الفتوی : 177763)


معلوم ہوا کہ الیکشن کے ایام میں امیدوار (خواہ اس کی آمدنی حلال ہو) کی جانب سے جو دعوت دی جاتی وہ اصلاً لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اس میں رشوت کا شبہ پایا جاتا ہے۔ لہٰذا ایسی دعوتوں میں کھانا کھانے بچنا چاہیے۔


 لا للشاھد (أي: لا یجوز أخذ الأجرة للشاھد) (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الشھادات، ۸:۱۷۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۷: ۶۷، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔


قال اللّٰہ تعالیٰ:﴿وَاَخْذِہِمْ اَمْوَالَہُمُ النَّاسَ بِالْبَاطِلِ﴾ بالرشوة وسائر الوجوہ المحرمة (مدارک التنزیل وحقائق التأویل، سورة آل عمران، رقم لآیہ: ۴۲، ۱:۲۰۲)۔


وقال تعالی أیضاً في مقام آخر: ﴿سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ اَکّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ﴾ (سورة المائدة، رقم الآیة: ۴۲)۔

اتفق جمیع المتأولین لہٰذہ الآیة علی أن قبول الرشا محرم، واتفقوا علی أنہ من السحت الذي حرمہ اللّٰہ تعالی (أحکام القرآن الکریم للجصاص، سورة المائدة، باب الرشوة، ۴: ۸۵، ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت)۔


من أخذ مال غیرہ لا علی وجہ إذن الشرع، فقد أکلہ بالباطل (الجامع لأحکام القرآن للقرطبي، ۲:۳۲۳، ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت)۔


أہدی إلی رجل شیئاً أو أضافہ إن کان غالب  مالہ من الحلال، فلابأس إلا أن یعلم بأنہ حرام، فإن کان الغالب ہو الحرام ینبغي أن لایقبل الہدیۃ، فلا یأکل بالطعام۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، ۵؍۳۴۲)


وإن کان غالب مالہ الحرام لایقبلہ ولا یأکلہ۔ (الأشباہ والنظائر ۱؍۱۴۷)


قال العلامۃ ابن عابدین :  الرشوۃ بالکسر ما یعطیہ الشخص الحاکم وغیرہ لیحکم لہ او یحملہ علی ما یرید۔ (ردالمحتار، ۴:۳۳۷،۳۳۸ مطلب فی الکلام علی الرشوۃ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 محرم الحرام 1441

منگل، 24 ستمبر، 2019

قبر پر نمازِ جنازہ پڑھنے کا حکم

*قبر پر نمازِ جنازہ پڑھنے کا حکم*

سوال :

محترم مفتی صاحب! کیا میت کو قبر میں دفن کرنے کے بعد وہ لوگ قبر ہی پر جنازے کی نماز پڑھ سکتے ہیں؟ جنہوں نے دفن کرنے سے پہلے کسی وجہ سے جنازے کی نماز نہ پڑھ سکے ہوں۔
(المستفتی : محمد شجاع الدین، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قبر پر نمازِ جنازہ پڑھنے کا حکم اُس وقت ہے جب میت کو نمازِ جنازہ کے بغیر ہی دفن کردیا گیا ہو۔ اور اس کی گنجائش بھی اس وقت تک ہے جب تک نعش کے پھٹ جانے کا اندیشہ نہ ہو، اگر نعش کے پھٹ جانے کا غالب گمان ہوتو پھر قبر پر نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ نعش کے پھٹنے کی مدت مقام اور موسم کے اعتبار سے مختلف ہوسکتی ہے۔

ایک مرتبہ نمازِ جنازہ ادا کرلینے سے فرضِ کفایہ ادا ہوگیا، جس کی وجہ سے تمام لوگوں کی طرف سے یہ فریضہ ساقط ہوجاتا ہے، اب اگر بعد میں آنے والے  نماز ِ جنازہ  پڑھنا چاہیں تو حنفی مسلک کے مطابق ان کے لئے اس کی اجازت نہیں ہے، البتہ اگر ولی نے نمازِ جنازہ نہیں پڑھی تو اس کو قبر پر نماز ادا کرنے کا حق ہے، اس صورت میں اس کے ساتھ وہ لوگ بھی نماز پڑھ سکتے جنہوں نے نماز جنازہ ادا نہیں کی ہے۔

(وَإِنْ دُفِنَ) الخ، (بِغَيْرِ صَلَاةٍ) الخ، (صُلِّيَ عَلَى قَبْرِهِ).. (مَا لَمْ يَغْلِبْ عَلَى الظَّنِّ تَفَسُّخُهُ) مِنْ غَيْرِ تَقْدِيرٍ هُوَ الْأَصَحُّ۔ لِأَنَّهُ يَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الْأَوْقَاتِ حَرًّا وَبَرْدًا وَالْمَيِّتِ سِمَنًا وَهُزَالًا وَالْأَمْكِنَةِ۔ (شامی : ٢/٢٢٤)

(فَإِنْ صَلَّى غَيْرُهُ) أَيْ الْوَلِيِّ (مِمَّنْ لَيْسَ لَهُ حَقُّ التَّقْدِيمِ) عَلَى الْوَلِيِّ (وَلَمْ يُتَابِعْهُ) الْوَلِيُّ (أَعَادَ الْوَلِيُّ) - الی قولہ - وَلِذَا قُلْنَا : لَيْسَ لِمَنْ صَلَّى عَلَيْهَا أَنْ يُعِيدَ مَعَ الْوَلِيِّ لِأَنَّ تَكْرَارَهَا غَيْرُ مَشْرُوعٍ (وَإِلَّا) أَيْ وَإِنْ صَلَّى مَنْ لَهُ حَقُّ التَّقَدُّمِ كَقَاضٍ أَوْ نَائِبِهِ أَوْ إمَامِ الْحَيِّ أَوْ مَنْ لَيْسَ لَهُ حَقُّ التَّقَدُّمِ وَتَابَعَهُ الْوَلِيُّ (لَا) يُعِيدُ لِأَنَّهُمْ أَوْلَى بِالصَّلَاةِ مِنْهُ۔ (شامی : ٢/٢٢٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 محرم الحرام 1441