بدھ، 25 ستمبر، 2019

ضابطہ کی خلاف ورزی پر اساتذہ کی تنخواہ کاٹنا

*ضابطہ کی خلاف ورزی پر اساتذہ کی تنخواہ کاٹنا*

سوال :

مفتی صاحب !  کسی ادارہ میں جرمانہ کے طور پر اساتذہ کی تنخواہ میں سے کچھ پیسہ کاٹ لیا جائے تو وہ پیسہ ادارہ (مینجمنٹ) کیلئے کیسا ہے؟
مثلاً : مہینہ میں تین دن ایک منٹ کی بھی تاخیر ہو گئی تو ایک دن کی تنخواہ کٹ۔
اپنے ناغہ کی اطلاع تاخیر سے دئیے، یا بغیر اطلاع کے ناغہ کیے تو ایک کی بجائے دو دن کی تنخواہ کٹ۔
کسی چھٹی (اتوار یا کوئی تہوار) سے عین ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کسی مجبوری کے تحت اطلاع دے کر بھی ناغہ کیا جائے تو تمام چھٹیوں کے ایام کی بھی تنخواہ کٹ۔
(المستفتی : عامر ملک ندوی، مالیگاؤں)
-------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں اساتذہ کے تاخیر سے آنے یا غیرحاضر رہنے پر انتظامیہ کو صرف اتنی ہی تنخواہ کاٹنے کا اختیار ہے جتنی تاخیر ہوئی ہے یا جتنے دن غیرحاضری ہوئی ہے، اس سے زیادہ تنخواہ کاٹنا ظلم اور مالی جرمانہ ہے، اور مالی جرمانہ وصول کرنا جمہور علماء امت بشمول طرفین (امام ابو حنیفۃ اور امام محمد رحمهما اللہ) کے نزدیک ناجائز ہے۔ جرمانہ کی یہ رقم انتظامیہ کے لیے حلال نہیں ہے اور نہ ہی ادارہ کے کسی کام میں اس کا استعمال جائز ہے۔ اس رقم کا اساتذہ کو واپس کرنا ضروری ہے، عدم ادائیگی کی صورت میں منتظمین مستحقِ عتاب الہی ہوں گے، اور بروز حشر قابلِ مؤاخدہ بھی ہوں گے، اِلّا یہ کہ اساتذہ انہیں معاف کردیں۔

ادارے کے نظم و ضبط کو بہتر بنانے کے لیے ایک مناسب حل یہ بھی ہے کہ پہلے ہی اساتذہ کی تنخواہ کچھ کم طے کی جائے اور ضابطہ بنادیا جائے کہ پابندی اور وقت پر آنے والے اساتذہ کو بطور انعام کچھ رقم دی جائے گی، اس پر عمل کیا جائے ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔

عن أنس بن مالک أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال :  لایحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفسہ۔ (سنن الدارقطني، کتاب البیوع، ۳/۲۲، رقم: ۲۷۶۲)

التعزیر بالمال جائز عند أبی یوسف، وعندہما وعند الأئمۃ الثلاثۃ لایجوز، وترکہ الجمہور للقرآن والسنۃ : وأما القرآن فقولہ تعالی : (فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم)۔ وأما السنۃ فإنہ علیہ السلام قضی بالضمان بالمثل ولأنہ خبر یدفعہ الأصول فقد أجمع العلماء علی أن من استہلک شیئاً لم یغرم إلا مثلہ أو قیمتہ ۔ (اعلاالسنن ، ۱۱/۷۳۳، باب التعزیر بالمال ، بیروت)

ولا یکون التعزیر بأخذ المال من الجاني في المذہب۔ (مجمع الأنہر ، کتاب الحدود / باب التعزیر ۱؍۶۰۹)

والحاصل أن المذہب عدم التعزیر بأخذ المال۔ (شامي، باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال ۶؍۱۰۶)

لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (شامي، باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال ۶؍۱۰۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 محرم الحرام 1441

1 تبصرہ:

  1. جزاکم اللّٰہ۔۔بہترین رہنمائی ۔۔مفتی صاحب کے علم میں اللّٰہ مزید برکت دے۔۔آمین

    جواب دیںحذف کریں