پیر، 16 ستمبر، 2019

مخنث کا دیا ہوا ہدیہ مسجد میں لگانے کا حکم

*مخنث کا دیا ہوا ہدیہ مسجد میں لگانے کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے مفتیان کرام اس مسئلے پر کہ زید مخنث (ہجڑا) ہے اور وہ بڑا دولت مند ہے، اس نے اپنے رشتے داروں کو کچھ مال ہدیہ دیا ہے، اور وہ رشتے دار جن کو یہ مال ملا ہے وہ اپنے گھر کے قریب کی مسجد جس کا تعمیری کام شروع ہے اس کی تعمیر کیلئے وہ مال دینا چاہتے تو کیا ان کا مال مسجد کی تعمیر میں لینا جائز ہے؟ جواب مرحمت فرماکر ممنون و مشکور فرمائیں۔
(المستفتی : جابر بھائی عطر والا، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مساجد اللہ تعالیٰ کا گھر اور اس کی عبادت کی جگہ ہیں۔ لہٰذا اس کی تعمیر و دیگر اخراجات میں حلال اور پاکیزہ مال ہی لگایا جائے گا۔ ناجائز اور حرام مال لگانے کی یہاں قطعاً گنجائش نہیں ہے۔

ملحوظ رہے کہ مخنث (ہیجڑے) کی کمائی مطلقاً حرام نہیں ہے، بلکہ وہ کمائی حرام ہے جو ناجائز طریقے جیسے ناچ، گانے، بجانے یا بدکاری وغیرہ کے ذریعے حاصل کی گئی ہو۔ لہٰذا یہ رقم مسجد میں استعمال نہیں کی جاسکتی، اور اگر مخنث نے اس رقم سے کسی کو ہدیہ دیا ہوتو ہدیہ لینے والے کے لیے اس کا استعمال یا اسے مسجد میں دینا جائز نہیں ہے، بلکہ اس کا ہدیہ واپس کردیا جائے گا، لیکن اگر ہدیہ واپس کرنا ممکن نہ ہوتو اس کا بلانیتِ ثواب فقراء اور مساکین میں تقسیم کردینا ضروری ہے۔

البتہ وہ رقم جو مخنث نے جائز طریقے سے کمائی ہو جیسے حلال تجارت وغیرہ کے ذریعے، یا پھر وراثت، ہدیہ اور بھیک مانگ کر حاصل کی ہوئی رقم ہو تو مسجد کی تعمیر و دیگر اخراجات میں اس کا استعمال جائز ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جن رشتہ داروں کو ہدیہ ملا ہے وہ مخنث سے اس ہدیہ کے بارے میں دریافت کرلیں، اگر وہ اس کے جائز اور حلال رقم سے دینے کا اقرار کرتا ہو تو اس کا استعمال مسجد کی تعمیر میں جائز ہے، ورنہ نہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ (البقرة 267)
بَابٌ : لَا يَقْبَلُ اللَّهُ صَدَقَةً مِنْ غُلُولٍ، وَلَا يَقْبَلُ إِلَّا مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ ؛ لِقَوْلِهِ : { وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ }. إِلَى قَوْلِهِ : { وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ }. (صحيح البخاري كتاب الزكاة)

أنَّ اللَّهَ لا يَقْبَلُ إلّا ما كانَ مِن كَسْبٍ طَيِّبٍ فَمَفْهُومُهُ أنَّ ما لَيْسَ بِطَيِّبٍ۔ (فتح الباري شرح صحيح البخاري، رقم الحديث : ١٤١٠)

أَمَّا لَوْ أَنْفَقَ فِي ذَلِكَ مَالًا خَبِيثًا وَمَالًا سَبَبُهُ الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ فَيُكْرَهُ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَا يَقْبَلُ إلَّا الطَّيِّبَ، فَيُكْرَهُ تَلْوِيثُ بَيْتِهِ بِمَا لَا يَقْبَلُهُ۔ (شامی : ١/٦٥٨)

آكِلُ الرَّبَّا وَكَاسِبُ الْحَرَامِ أَهْدَى إلَيْهِ أَوْ أَضَافَهُ وَغَالِبُ مَالِهِ حَرَامٌ لَا يَقْبَلُ، وَلَا يَأْكُلُ مَا لَمْ يُخْبِرْهُ أَنَّ ذَلِكَ الْمَالَ أَصْلُهُ حَلَالٌ وَرِثَهُ أَوْ اسْتَقْرَضَهُ، وَإِنْ كَانَ غَالِبُ مَالِهِ حَلَالًا لَا بَأْسَ بِقَبُولِ هَدِيَّتِهِ وَالْأَكْلِ مِنْهَا، كَذَا فِي الْمُلْتَقَطِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۵/۳۴۳)

أن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹؍۵۵۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 محرم الحرام 1441

1 تبصرہ: