منگل، 3 ستمبر، 2019

یوم عاشوراء کے موقع پر کاروبار بند رکھنے کا حکم

سوال :

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و حق اس معاملے میں کہ برسوں سے خاص طور پر ہمارے شہر مالیگاؤں کی یہ روایت رہی ہے کہ محرم الحرام کی 9 تاریخ (شام) سے ہی کاروبار (صرف پاورلوم کارخانے اور اس سے متعلق کاروبار) بند کر دئیے جاتے ہیں اور ایسا بتایا جاتا ہے کہ کاروبار جاری رکھنے سے گھروں میں منحوسیت، فقر و فاقہ آتا ہے۔
محترم مفتی صاحب! کیا ہمارے دین اسلام و مذہب میں کوئی دن ایسا ہے جس دن کاروبار جاری رکھنے سے مذکورہ بالا خطرات درپیش ہوں؟ اور یہ بھی کہ صرف ایک ہی قسم کا کاروبار (پاورلوم کارخانے اور اس سے منسلک) پر ہی کیوں آفت؟ جبکہ ہوٹلیں، پان ٹپریاں، اور دیگر دوسرے کاروبار جاری و ساری رہتے ہیں بلکہ ان میں اور شدت آجاتی ہے۔
براہِ کرم دین و شریعت کی روشنی میں شوشل میڈیا کے ذریعے عوام الناس کے علم میں اضافہ فرمائیں۔
(المستفتی :- عمران الحسن، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اسلام میں کوئی ایسا دن نہیں ہے جس میں کاروبار بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہو، البتہ فرض نماز کے وقت اور جمعہ کی پہلی اذان ہونے سے جماعت ختم ہونے تک خرید وفروخت اور جمعہ کی نماز کے علاوہ دیگر چیزوں میں مشغولیت سے منع کیا گیا ہے۔

اب اگر ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ یوم عاشوراء کے موقع پر مالیگاؤں کے مسلمان بالخصوص کارخانے دار کاروبار کیوں بند رکھتے ہیں؟ تو ہمیں اس کے چار اسباب معلوم ہوتے ہیں۔

پہلا سبب یہ ہے کہ ایک طبقہ یوم عاشوراء کو تہوار سمجھ کر کاروبار بند رکھتا ہے، تو ایسے افراد کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام میں صرف دو ہی تہوار ہیں، ایک عیدالفطر دوسرے عیدالاضحیٰ، لہٰذا ان دونوں کے علاوہ کسی اور موقع کو شرعاً تہوار سمجھنا درست نہیں۔ (1)

دوسرا یہ کہ یوم عاشوراء کو شہادتِ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے غم اور سوگ کی وجہ سے کاروبار بند رکھا جاتا ہے، تو ایسے لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ اسلام نے صرف تین دن تک سوگ منانے کی اجازت دی ہے، بیوہ عورت کے علاوہ تین دن سے زیادہ کسی کے بھی انتقال پر سوگ منانا شرعاً ناجائز اور گناہ ہے۔ متعدد احادیث میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ (2)

تیسرا یہ کہ یوم عاشوراء کو چونکہ نواسۂ رسول سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی مظلومانہ شہادت کا انتہائی دردناک سانحہ پیش آیا ہے، لہٰذا اس دن کو منحوس سمجھ کر کاروبار جاری رکھنے سے اجتناب کیا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے اس دن کاروبار کرنے سے کاروبار، اور گھروں میں نحوست اور بے برکتی پیدا ہوتی ہے، جیسا کہ سوال نامہ میں بھی یہی مذکور ہے، تو اس باطل عقیدہ کے حامل افراد کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ نحوست اور بے برکتی صرف اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور معصیت میں ہے، اس کے علاوہ نحوست کہیں اور نہیں، جیسا کہ بیشتر احادیث میں نحوست کی نفی کی گئی ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ روزآنہ اللہ تعالیٰ کے ایک عظیم الشان حکم نماز کو ترک کرکے کاروبار میں مشغول رہا جاتا ہے اور اس گناہ کبیرہ کو کوئی نحوست نہیں سمجھتا، اور یوم عاشوراء کو کاروبار بند رکھ کر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے ساری نحوست نکل جائے گی۔ (3)

یومِ عاشوراء کے موقع پر کاروبار بند رکھنے کا چوتھا سبب یہ ہے کہ ایک بڑا طبقہ دوسروں کی دیکھا دیکھی یا پھر باپ دادا سے یہی چلا آرہا ہے، اس لئے یہ طبقہ بھی کاروبار بند رکھتا ہے، لہٰذا اس طبقہ کو بھی اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ان کے کاروبار بند کرنے کی وجہ سے نادانستہ طور پر ناجائز اور حرام کاموں کا تعاون ہورہا ہے۔ پھر اگر کوئی یہ کہے کہ عاشوراء کا روزہ رکھنے کے لیے کاروبار بند کیا جاتا ہے تو یہ بھی عذرِ لنگ ہے، جس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، کیونکہ اگر روزہ رکھنا مقصود ہوتا تو رمضان المبارک کے فرض روزے اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ ان میں کاروبار بند رکھ کر روزہ رکھا جائے، اس کے علاوہ عرفہ کا روزہ، شوال کے چھ روزے، پیر جمعرات اور ایام بیض کے روزے بھی اس کے مستحق ہیں کہ ان دنوں میں بھی کاروبار بند رکھ کر روزہ رکھا جائے کیونکہ ان روزوں کا ثبوت بھی احادیث میں ملتا ہے۔

درج بالا تفصیلات سے واضح ہوگیا کہ یوم عاشوراء کے موقع پر کاروبار بند رکھنے کے سلسلے میں کوئی بھی سبب یا عذر شرعاً درست نہیں ہے، کاروبار بند رکھنے میں متعدد قباحتیں ہیں جو ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں۔

شیعوں کے ساتھ مشابہت ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اُن کی تائید وتقویت ہے، نیز اس دن شیعہ اپنے مذہب کے لیے بے پناہ مشقت اور سخت محنت کا مظاہَرہ کرتے ہیں، اس کے برعکس مسلمان تمام دینی ودنیوی کاموں کی چھٹی کرکے اپنی بے کاری اور بے ہمتی کا مُظاہَرہ کرتے ہیں، اسی طرح چھٹی کی وجہ سے اکثر مسلمان تعزیہ کے جلوس اور ماتم کی مجلسوں میں چلے جاتے ہیں، جس پر کئی گناہ مرتب ہوتے ہیں، مثلاً : اس سے دشمنانِ اسلام کی رونق بڑھتی ہے، جبکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ " من کثر سواد قوم فہو منہم‘‘۔(کنز العمال ۹؍۲۲ رقم: ۲۴۷۳۵)
(ترجمہ : جو شخص کسی قوم کی تعداد میں اضافہ کا سبب بنا اس کا شمار اسی قوم میں ہوگا) کے مصداق ہوکر گناہ گار ہوں گے، نیز اس میں گناہ کو دیکھنا پایا جاتا ہے، جب کہ گناہ کو دیکھنا بھی گناہ ہے، لہٰذا عاشوراء کے موقع پر کاروبار بند نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہ بہت سے ممنوع  کاموں کا ذریعہ بن رہا ہے، اور ممنوع اعمال کا ذریعہ بھی ممنوع ہوتا ہے۔ کارخانہ دار حضرات اپنے ملازمین کو کارخانہ جاری رکھنے کے لیے کہہ دیں، اب اگر کوئی ملازم ان دنوں کام پر نہ آئے تو یہ اس کا معاملہ ہے، مالک پر اس کا وبال نہ ہوگا۔ (4)

1) عن أنس قدم النبي صلی اللہ علیہ وسلم المدینة ولہم یومان یلعبون فیہما فقال قد أبدلکم اللہ تعالی بہما خیرا منہا  یوم الفطر ویوم الأضحی۔ (نسائی شریف، کتاب صلوة العیدین/ ۲۳۱)

2) عن زینب بنت أبي سلمۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: لما أتی أم حبیبۃ نعي أبي سفیان دعت في الیوم الثالث بصفرۃ، فمسحت بہ ذراعیہا وعارضیہا وقالت: کنت عن ہٰذا غنیَّۃً، سمعت النبي صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول: لا یحل لامرأۃ تؤمن باللّٰہ والیوم الآخر أن تحد فوق ثلاثٍ إلا علی زوج، فإنہا تحد علیہ أربعۃ أشہر وعشرًا۔ (صحیح مسلم ۱؍۴۸۷)

3) قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم : لاعدویٰ، ولا طیرۃَ، ولا ہامۃ، ولا صفر،ولا غول، (مسند احمد، ۱۷۴ /۱)

4) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (سنن أبي داؤد ۲؍۲۵۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 محرم الحرام 1441

4 تبصرے: