منگل، 17 ستمبر، 2019

تدفین میں تاخیر اور جنازہ لے جانے کا طریقہ

*تدفین میں تاخیر اور جنازہ لے جانے کا طریقہ*

سوال :

امید ہیکہ آپ بخیر عافیت سے ہوں گے۔
مفتی صاحب چند مسائل در پیش ہیں۔ انتقال کے بعد کتنی دیر کے بعد میت کو غسل دیا جائے؟ میت کو کتنی دیر تک گھر پر رکھا جائے؟ اور رہی میت کو لے جانے کی بات تو میت کو کس طرح لے جایا جائے اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ میت کو لے جاتے وقت میت کا پیر قبلہ کی طرف رکھا جاتا ہے، کیا یہ درست ہے؟ برائے کرم جواب مفصل مدلل جلد از جلد ارسال کریں۔
(المستفتی : شرجیل انجم ملی، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : انتقال کے بعد میت کو کب غسل دیا جائے اور غسل کے کتنی دیر کے بعد تدفین کی جائے، شریعت نے اس کے لیے کوئی مخصوص وقت مقرر نہیں کیا ہے۔ بلکہ احادیث میں مطلقاً تجہیز و تکفین میں عجلت کرنے کا حکم وارد ہوا ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : علی! تین باتوں کے کرنے میں دیر نہ کیا کرنا۔ ایک تو نماز ادا کرنے میں جب کہ وقت ہو جائے، دوسرے جنازے میں جب تیار ہو جائے اور تیسری بے خاوند عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا کفو (یعنی ہم قوم مرد) مل جائے۔ (ترمذی)

حضرت طلحہ بن براء رضی اﷲ عنہ بیمار ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ان کی عیادت (بیمار پرسی) کے لئے تشریف لائے، آپ نے حضرت طلحہ کی حالت دیکھ کر ارشاد فرمایا میرا گمان یہ ہے کہ ان کی موت کا وقت قریب ہے، ان کا انتقال ہوجائے تو مجھے اطلاع کرنا اور ان کی تجہیز و تکفین میں عجلت کرنا اس لئے کہ یہ مناسب نہیں ہے کہ مسلمان کی نعش اس کے گھر والوں کے درمیان روکی جائے۔ (ابوداؤد)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا  جنازہ  جلدی لے چلو اگر وہ صالح ہے تو وہ خیر ہے جسے تم لے جارہے ہو اور اگر وہ صالح نہیں تو اپنی گردن پر جلدی شرکو دور کروگے۔ (بخاری ومسلم)

لہٰذا جب موت کا یقین ہوجائے تو فوراً تجہیز وتکفین کی تیاری شروع کردینی چاہیے، انتقال کے بعد تجہیز وتکفین میں جلد کرنے کے حکم میں یہ بھی داخل ہے کہ میت کو جلد از جلد غسل دے کر جلد ہی دفن کردیا جائے۔ اس میں بلاعذر تاخیر کرنا شرعاً ناپسندیدہ عمل ہے۔ ملحوظ رہے کہ دوسرے شہر اور ملک کے رشتہ داروں کا انتظار شرعاً عذر نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے لیے بھی تدفین میں تاخیر کرنا مکروہ ہے۔

جنازہ لے جاتے ہوئے سر آگے کی طرف ہوگا، اور پاؤں پیچھے اٹھانے والوں کی طرف کئے جائیں گے۔یہاں قبلہ رُخ کی رعایت کا ذکر نہیں ہے۔

عن الحصین بن وحوح أن طلحۃ بن البراء مَرِضَ، فأتاہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعودہ، فقال: إني لا أری طلحۃ إلا قد حدث فیہ الموت، فآذنوني بہ، وعجلوا؛ فإنہ لا ینبغي لجیفۃ مسلم أن تحبس بین ظہراني أہلہ۔ (أبوداؤد، کتاب الجنائز، باب تعجیل الجنازۃ وکراہیۃ حبسہا ۲؍۴۵۰ رقم: ۳۱۵۹)

ویبادر إلی تجہیزہ ولا یؤخر۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۵۷)

وفی حالۃ المشی بالجنازہ یقدم الرأس کذا فی المضمرات۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، ۱/ ۱۶۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 محرم الحرام 1441

1 تبصرہ:

  1. جزاک اللہ خیر،
    عموماً لوگ دوسرے شہر سے بھائی، بیٹا یا بیٹی کے آنے کے انتظار میں بارہ بارہ گھنٹے تک میتطکو روکے رکھتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں