اتوار، 22 ستمبر، 2019

بیوی بچوں کے حقوق ادا نہ کرنا اور دیگر جگہوں پر خرچ کرنا

*بیوی بچوں کے حقوق ادا نہ کرنا اور دیگر جگہوں پر خرچ کرنا*

سوال :

محترم مفتی صاحب! زید ایک مالدار، دیندار نماز روزے کا پابندشخص ہے، دیگر رشتہ داروں اور دینی کاموں میں اپنا مال خرچ کرتا رہتا ہے، لیکن اپنے بیوی بچوں پر اس نے اپنا ہاتھ بالکل اٹھالیا ہے، بیوی بچوں کی اہم ضروریات پر بھی وہ خرچ نہیں کرتا، یہاں تک کہ بیوی کے علاج کے لیے بھی وہ پیسے نہیں دیتا، اس کی بہ نسبت بہن اور بھانجوں پر بلاتردد خرچ کرتا ہے، اور بیوی بچوں کے مطالبہ پر انہیں حدیث سناتا ہے، یا پھر ان سے جھگڑا کرلیتا ہے، اور بیوی کے میکے والوں کو بھی برا بھلا کہتا ہے۔ اس لئے آپ سے درخواست ہے کہ شریعت کی روشنی میں بیان فرمائیں کہ زید کا یہ عمل کیسا ہے؟ اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : انصاری عبیدالرحمن، مالیگاؤں)
-------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ۔ مرد عورتوں پر نگراں اور ان کے محافظ ہیں ان سے برتر ہیں، اور یہ ایک قدرتی امر ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ اور پھر مردوں کی برتری کی دلیل بھی قرآن میں بیان فرمادی۔ ” وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ “ کہ مرد اپنی کمائی عورتوں پر خرچ کرتے ہیں۔ ان کے کفیل ہیں اور مشقت کے کام مرد کے سپرد کئے ہیں، کمانا اس کے ذمہ ہے۔ عورت کا کام گھر کی ذمہ داریاں پوری کرنا ہے۔

درج بالا آیتِ مبارکہ اور اس کی تشریح سے معلوم ہوا کہ شوہر کے بیوی پر کچھ حقوق ہیں جن کا ادا کرنا اور پورا کرنا شریعتِ مطہرہ کی رُو سے اس پر واجب ہے، بیوی کے حقوق شوہر پر مہر، نان و نفقہ، لباس، مکان، عدل وانصاف اور اس کی عزت و ناموس کی حفاظت وغیرہ ہیں۔ اسی طرح اولاد کا نان و نفقہ، رہائش اور ان کی اچھی تربیت کا انتظام کرنا بھی اس کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ نیز دیگر آیتِ قرآنیہ اور متعدد احادیثِ مبارکہ میں شوہروں کو اپنی بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ  اور گذران کرو خوبی کے ساتھ۔ یعنی حسن معاملہ، ادائے حقوق اور اچھے کلام کے ساتھ۔
فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ۔ اور اگر تم ان کو ناپسند کرتے ہو یعنی بد صورتی یا بد اخلاقی کی وجہ سے تو پھر بھی صبر کرو نہ ان کو دُکھ دو نہ ترک تعلق کرو۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے اور پسلی میں سب سے زیادہ کجی اس کے اوپر والے حصہ میں ہوتی ہے اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی اور اگر چھوڑ دو گے تو ٹیڑھی رہے گی لہٰذا تم عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ (بخاری)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنے گھر والوں کے لئے بہترین ہیں اور میں تم میں سب سے زیادہ اپنے گھر والوں سے اچھا برتاؤ کرنے والا ہوں۔ (ابن ماجہ)

حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اللہ کی مخلوق کے نزدیک تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی اپنے بچوں اپنے عزیزوں واقارب اور اپنے خدمت گاروں و ماتحتوں کے ساتھ بھلائی اور اچھا سلوک کرتا ہے کیونکہ اس کا بھلائی اور اچھا سلوک کرنا اس کی خوش اخلاقی وخوش مزاجی پر دلالت کرتا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں زید کا عمل بڑا تعجب خیز اور افسوسناک ہے، استطاعت کے باوجود بلاعذر بیوی بچوں کے نان و نفقہ کی ادائیگی میں کوتاہی اور غفلت برتنے کی وجہ سے وہ سخت گناہ گار ہوگا، اور بیوی بچوں کے حقوق کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بروزِ حشر اس سے مؤاخذہ ہوگا۔

نیز سوال نامہ میں مذکور زید کے دیگر نیک اعمال مثلاً دین کے کاموں میں اور بہن، بھانجوں پر خرچ  کا اجر و ثواب اسے ان شاءاللہ ملے گا، ایک طرف کوتاہی کی وجہ سے دوسرے اعمال ناقابلِ قبول تو نہ ہوں گے۔ لیکن اصل اور ضروری حقوق کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے ان نفل اعمال کا کیا بنے گا؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لہٰذا زید کو درج ذیل حدیث شریف ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ تاکہ وہ بیوی بچوں کے حقوق پامال کرنے سے اجتناب کرکے اپنے دیگر نیک اعمال کو برباد ہونے سے بچالے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا ہم میں مفلس وہ آدمی ہے کہ جس کے پاس مال اسباب نہ ہو۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن میری امت کا مفلس وہ آدمی ہوگا کہ جو نماز روزے زکوٰۃ وغیرہ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس آدمی نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی اور کسی پر تہمت لگائی ہوگی اور کسی کا مال کھایا ہوگا اور کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا تو ان سب لوگوں کو اس آدمی کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پر ڈال دئے جائیں گے پھر اس آدمی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم)

وَعَلٰی الْمَوْلُوْدِ لَہُ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۔ (سورۃ البقرۃ : ۲۳۳)

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في حدیث طویل، وطرفہ ہذا : ’’ولہن علیکم رزقہن وکسوتہن بالمعروف‘‘ (صحیح مسلم، حدیث نمبر ۱۲۱۸)

وکون الرجال قوامین علی النساء متکفلین معاشہن وکونہن خادمات حاضنات مطیعات سنۃ لازمۃ وأمراً مسلمًا عند الکافۃ، وفطرۃ فطر اللّٰہ الناس علیہا لا یختلف في ذٰلک عربہم ولا عجمہم۔ (حجۃ اللّٰہ البالغۃ ۱/۱۳۳)

تجب النفقۃ للزوجۃ علی زوجہا، والکسوۃ بقدر حالہما۔ (تبیین الحقائق، باب النفقۃ، ۳/ ۳۰۰)

وتجب النفقۃ بأنواعہا علی الحر لطفلہ الفقیر۔ (درمختار علی الشامي، کتاب الطلاق، باب النفقۃ، مطلب الصغیر والمکتسب نفقۃ في کسبہ لا علی أبیہ، ۵/ ۳۳۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
22 محرم الحرام 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں