جمعرات، 12 ستمبر، 2019

چوری کا مال خریدنے اور استعمال کرنے کا حکم

*چوری کا مال خریدنے اور استعمال کرنے کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب ! امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے، ایک مسئلہ در پیش تھا۔
کیا چور بازار سے چوری کے موبائیل خرید کر اپنے استعمال میں لاسکتے ہیں؟ یہ مسئلہ میں نے زید سے بیان کیا تو زید نے چوری کے جوتے کو خرید کر اپنے استعمال میں لانے کو جائز کہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قصہ سنایا جس میں ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کچھ کام کے لیے اپنے گھوڑے کو ایک آدمی کے حوالے کر کے گئے، جب واپس آئے تو گھوڑے کی زین وہ آدمی چوری کر کے چلا گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب بازار میں نئی زین لینے گئے تو وہاں پر ان کی چوری کی زین بک رہی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس چوری ہوئی زین کو خرید لیا۔ یہ قصہ سنا کر زید نے کہا کہ چوری کے جوتے خرید کر اپنے استعمال میں لاسکتے ہیں۔ چنانچہ اس مسئلہ میں آپ کا جواب چاہتا ہوں، قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت کر کے عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد عاکف، مالیگاؤں)
------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جس موبائیل  کے بارے میں  علم ہو کہ یہ چوری  کا ہے، اس کا خریدنا قطعاً ناجائز اور حرام ہے، اس لئے کہ چوری کرنے والا اس موبائیل کا مالک نہیں ہوتا، چنانچہ اس سے خریدنے سے مشتری (خریدنے والے) کی ملکیت بھی اس پر ثابت نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے اس کا استعمال بھی مشتری کے لیے جائز نہیں ہے۔ خواہ موبائیل چور بازار سے خریدا گیا ہو یا اور کہیں سے۔ لہٰذا مشتری پر ضروری ہے کہ وہ اصل  مالک کو تلاش کرکے اسے موبائیل واپس کرے، یا کم از کم جس سے خریدا ہے اُسے لوٹادے، اور اپنا پیسہ واپس لے لے۔

سوال نامہ میں مذکور زید کے بیان کردہ واقعہ کو اگر بالفرض درست مان بھی لیا جائے تو اس سے جو استدلال کیا گیا وہ بالکل باطل ہے، کیونکہ اس واقعہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اعلی ظرفی بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے چور اور چوری کی زین خرید کر فروخت کرنے والے پر کارروائی نہیں کی، بلکہ اپنی ہی زین کو قیمت دے کر خرید لیا، لہٰذا یہاں چوری کا مال خریدنا کہاں پایا گیا؟ یہ تو انہیں کا مال تھا جو انہوں نے قیمت دے کر خریدلیا۔

قال علیہ الصلاۃ والسلام : من اشتری سرقۃ وہو یعلم أنہا سرقۃ، فقد شرک في عارہا وإثمہا۔ (فیض القدیر ۱۱؍۵۶۵۴، بحوالہ : فتاویٰ محمودیہ ۱۶؍۸۶ ڈابھیل)

وبطل بیع  ما لیس فی ملکہ ۔۔۔۔ و حکمہ عدم ملک المشتری۔ ( الدر المختار مع الرد، باب بیع الفاسد، ۵/ ۵۸ - ۵۹)

ان  کان السارق قد ملک المسروق رجلا ببیع أو ہبۃ اوصدقۃ (الیٰ قولہ) فلصاحبہ أن یاخذہ لانہ ملکہ اذ السرقۃ لاتوجب زوال الملک عن العین المسروقۃ فکان تملیک السارق باطلا۔ (بدائع الصنائع، ۶؍۴۵، کتاب السرقۃ، قبیل کتاب قطاع الطریق)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 محرم الحرام 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں