ہفتہ، 7 ستمبر، 2019

عربوں کو بُرا بھلا کہنے کا حکم

*عربوں کو بُرا بھلا کہنے کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب بہت سارے لوگ سعودی عرب کے بادشاہ خادم الحرمین شریفین کو کم زیادہ بولتے ہیں، جبکہ اس مقدس سر زمین پر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اقتدار سونپا ہے تو کیا ان لوگوں کو برا بھلا کہنا مناسب ہے؟ چونکہ میڈیا سعودی فرمانروا کے خلاف خبروں کو پیش کرتا ہے اسی کو بنیاد بنا کر عوام ان کے خلاف کچھ بھی بولتے ہیں۔
(المستفتی : فرید بھائی، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد احادیث میں عربوں سے محبت کرنے کا حکم اور ان سے بغض رکھنے کی ممانعت کی گئی ہے، جن میں سے دو احادیث ذیل میں ذکر جاتی ہیں۔

حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تین اسباب کی بناء پر تمہیں عرب سے محبت رکھنی چاہئے ایک تو اس وجہ سے کہ میں عرب میں سے ہوں دوسرے اس وجہ سے کہ قرآن عربی زبان میں ہے اور تیسرے اس وجہ سے کہ جنتیوں کی زبان عربی ہے۔ (بیہقی)

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو پیدا فرمایا تو ان میں سے بنو آدم کو منتخب فرمایا، بنو آدم سے عرب کو، عرب سے مضر کو، مضر سے قریش کو، قریش سے بنوہاشم کو اور مجھے بنو ہاشم میں سے منتخب فرمایا، لہٰذا میں اچھے لوگوں میں منتخب کیا گیا ہوں، پس جس نے عربوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے عربوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا۔ (معجم کبیر)

ان روایات کی بناء پر ہمیں عربوں سے خصوصی محبت رکھنی چاہیے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کی کوتاہیوں اور برائیوں سے بھی چشم پوشی کی جائے گی۔

فی زمانہ عرب حکمرانوں کی بعض سنگین کوتاہیوں اور ان میں در آئے بڑے بڑے منکرات جن کی خبریں پایۂ ثبوت تک پہنچی ہوئی ہیں، لہٰذا اس کی وجہ سے ان پر نکیر کرنا تو البغض فی اللہ کے تحت آتا ہے، جو شرعاً محمود ہے۔ ویسے بھی چند عرب حکمرانوں کو ان کی کوتاہیوں کی وجہ سے ان پر نکیر کرنے سے پوری عرب قوم کا مطعون ہونا کہاں لازم آتا ہے؟ تاہم ان پر نکیر بھی شرعی حدود میں ہونی چاہیے، یہ نہ ہو کہ مذمت کرنے والے زبان و الفاظ کے استعمال میں حد سے تجاوز کرجائیں اور بذات خود ظالم ٹھہریں۔

نیز اس سلسلے میں آیت کریمہ :
یأَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْٓا  اِنْ جَآئکُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا أَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَھَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ۔
ترجمہ : اے ایمان والو ! اگر کوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کرلیا کرو، کبھی کسی قوم کو نادانی سے ضرر نہ پہنچادو، پھر اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔ (سورۃ الحجرات : ۶)

ہمیشہ پیشِ نظر رہنا چاہیے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ بلاتحقیق کسی کے متعلق کوئی رائے قائم نہ کی جائے۔

عن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أحبوا العرب لثلاث : لأني عربي والقرآن عربي وكلام أهل الجنة عربي " . رواه البيهقي في " شعب الإيمان "

وأخرج الحاكم في المستدرك والطبراني في المعجم الكبير والأوسط عن ابن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : وخلق الخلق فاختار من الخلق بني آدم، واختار من بني آدم العرب، واختار من العرب مضر، واختار من مضر قريشا، واختار من قريش بني هاشم، واختارني من بني هاشم، فأنا خيار إلى خيار، فمن أحب العرب فبحبي أحبهم، ومن أبغض العرب فببغضي أبغضهم۔

قال الهيثمي : وفيه حماد بن واقد وهو ضعيف يعتبر به، وبقية رجاله وثقوا وقال الهيتمي في مبلغ الأرب : حديث سنده لا بأس به، وإن تكلم الجمهور في غير واحد من روات۔

قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم : أفضل العمل الحب فی اﷲ والبغض فی اﷲ۔ (ابو داؤد ۴۵۹۹)
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامرعثمانی ملی
07 محرم الحرام 1441

1 تبصرہ: