پیر، 2 ستمبر، 2019

عاشوراء کا روزہ رکھنے والا وسعت علی العیال کی فضیلت کیسے حاصل کرے؟

*عاشوراء کا روزہ رکھنے والا وسعت علی العیال کی فضیلت کیسے حاصل کرے؟*

سوال :

عاشورہ کے روز اہل و اعیال پر خرچ میں وسعت کرنے کے بارے میں پڑھنے اور سننے میں آتا ہے، اور روزہ رکھنے کے متعلق بھی حکم ہے، لہٰذا ان دونوں پر عمل کس طرح ہوگا؟ اور وسعت علی العیال کے پیش نظر کھچڑا بنانا کیسا ہے؟ اس سلسلہ میں مدلل ومفصل رہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : عامر ایوبی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : یوم عاشوراء کو اہل وعیال کو اچھا کھلانا حدیث و کتب فقہ سے ثابت ہے، اور اس کی فضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالٰی پورے سال اس کے رزق میں برکت و وُسعت فرمائیں گے، یہ روایت اگرچہ سند کے لحاظ سے ضعیف ہے، لیکن مختلف طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے فضائل میں قابل استدلال ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس روایت سے کھچڑا اور حلیم پکانا ثابت کیا جائے، کھچڑا آج کل اہل بدعت کا شعار بن چکا ہے اور یہ لوگ روزہ رکھنے کے بجائے دن بھر کھچڑا کھاتے کھلاتے رہتے ہیں، جو منشائے نبوی کے بالکل خلاف ہے، نیز اس میں التزام مالا یلزم کے معنی بھی پائے جاتے ہیں، کیونکہ وسعت پر عمل کھچڑا پکانے پر ہی منحصر نہیں، بلکہ کسی بھی طرح دستر خوان وسیع کرنے سے یہ فضیلت حاصل ہوسکتی ہے۔

اسی طرح یوم عاشوراء کو روزہ رکھنا بھی مسنون و مستحب ہے، جس کی فضیلت صحیح احادیث میں وارد ہوئی ہے۔
حضرت ابوقتادہ ؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھے اللہ سے امید ہے کہ یوم عاشورہ کے روزہ سے گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا۔

لہٰذا اگر روزہ دار وسعت علی العیال اور دسترخوان وسیع کرنا چاہے تو دسویں تاریخ کی سحری میں کرلے، یا افطار کے وقت کرلے، افطار کی تیاری، سامان خریدنا اور پکانا چونکہ دن ہی میں کیا جاتا ہے، اس لئے یہ تیاری بھی توسیع کے مفہوم میں داخل ہے، اگرچہ یہ کھانا مغرب کے بعد کھایا جائے، پھربھی عاشوراء کے دن ہی کھانا سمجھا جائے گا اور ایسا شخص حدیث شریف میں مذکور فضیلت کا مستحق ہوگا۔ نیز نفقہ سے مراد کھانا، کپڑا وغیرہ دیگر ضروریات ہیں، لہٰذا اگر بیوی بچوں کو کچھ نقد پیسے اس نیت سے دے دیئے جائیں تب بھی حدیث شریف پر عمل ہوجائے گا۔

عن عبد اللہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من وسع علی عیالہ یوم عاشوراء وسع اللہ علیہ فی سائر سنتہ۔ (شعب الإیمان ۵/۳۳۱، رقم : ۳۵۱۳، ۳۵۱۵، ۳۵۱۶)

وقال البیھقیؒ ھذہ الأسانید وان کانت ضعیفۃ فھی اذاضم بعضھا الی بعض أخذت قوۃ واللہ اعلم۔ (الترغیب و الترھیب : ۲/۱۱۶)

قال الطیبي: وفیہ من أصر علی أمر مندوب وجعلہ عزمًا، ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب من الشیطان من الإضلال، فکیف من أصر علی أمر بدعۃ أو منکر۔ (مرقاۃ المفاتیح : ۲؍۱۴)

عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ۔ (سنن الترمذی، رقم : ٧٥٢)
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 محرم الحرام 1440

3 تبصرے: