ہفتہ، 31 اگست، 2019

موبائیل کَوَر پر تصویر بنوانے کا حکم

*موبائیل کَوَر پر تصویر بنوانے کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب آج کل موبائیل کور اپنی یا کسی کی بھی تصویر بنوانے کا رجحان بڑھ رہا ہے، شریعت میں یہ عمل کیا حکم رکھتا ہے؟ اور تصویر جیب میں ہونے کی صورت میں نماز کا کیا حکم ہے؟
رہنمائی فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ آمین
(المستفتی : محمد وارث، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ذخیرۂ احادیث میں ایسی متعدد روایات موجود ہیں جن میں تصویر کشی کرنے والوں سے متعلق انتہائی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، ان میں چند احادیث ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو میری تخلیق جیسی تخلیق کرنے کی کوشش کرتا ہے، ایسے لوگ ایک ذرہ، ایک دانہ یا ایک جَو ہی بناکر دکھلائیں۔ (صحیح بخاری، حدیث : 5953، 7559)

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
قیامت کے دن سب سے سخت ترین عذاب تصویریں بنانے والے لوگوں کو ہوگا۔ (صحیح مسلم، حدیث : 2109)

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ہر مصور جہنم میں جائے گا۔ اس کی بنائی ہوئی ہر تصویر کے بدلے میں ایک جان بنائی جائے گی جس کے ذریعہ سے اس (مصور) کو جہنم میں عذاب دیا جائےگا۔ (صحیح بخاری، حدیث : 2225، 5963)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے دنیا میں کوئی تصویر بنائی، اسے قیامت کے دن اس تصویر میں روح پھونکنے کا حکم دیا جائے گا مگر وہ اس میں روح ہر گز نہ پھونک سکے گا۔ (صحیح بخاری، حدیث : 5963)

درج بالا احادیثِ مبارکہ میں بیان کی گئی تصویر سے مراد جانداروں کے پُتلے اور مجسمے، ہاتھ سے کسی کاغذ وغیرہ پر بنائی گئی اور کیمرہ سے شوٹ کرکے اس کی پرنٹ نکال لی گئی تصویریں ہیں، ایسی تصویروں کے متعلق برصغیر کے علماء کرام کا اتفاق ہے کہ یہ تصویریں جائز نہیں ہے، اور مذکورہ احادیث میں بیان کی گئی وعید کا مصداق ہیں۔

لہٰذا بلا ضرورتِ شدیدہ کیمرے سے تصویر لے کر اس کا پرنٹ نکال لینا جائز نہیں ہے، البتہ ضرورت کی وجہ سے یہ تصویر کھنچوانے کی گنجائش ہے، مثلاً پاسپورٹ، ایڈنٹی کارڈ، اسکولوں اور مدارس کے داخلہ فارم میں یا سرکاری کام کے فارم کے لئے تصویر کھنچوانے کی گنجائش ہے۔
الضرورات تبیح المحظورات۔ (الأشباہ والنظائر قدیم۱۴۰)

مندرجہ بالا تفصیلات سے واضح ہوگیا کہ موبائیل کَوَر پر تصویر بنانا یا بنوانا بلاشبہ ایک ناجائز عمل ہے، اس لئے کہ یہ کوئی شرعی ضرورت نہیں ہے، جس کے لیے تصویر کشی کی اجازت ہو۔ اس میں قطعاً کوئی خیر نہیں ہے۔ نیز یہ عمل سراسر فضول خرچی پر مبنی اور بے برکتی کا باعث ہے، اور قرآنِ کریم میں فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ ایسے عمل سے خود بھی بچے اور بقدر استطاعت دوسروں کو بھی اس گناہ سے بچانے کی کوشش کرے۔

بعض فقہاء نے ایسی  تصویر جو نمازی کے پیچھے کی طرف یا اس کے پاؤں کے نیچے ہو، یا  جیب  اور غلاف کے اندر ہو   نماز  میں کراہت کا باعث قرار نہیں دیا ہے۔ لہٰذا تصویری کَوَر والا موبائیل جیب میں ہوتو نماز بلاکراہت ادا ہوجائے گی، لیکن یہ عمل چونکہ سِرے سے ناجائز ہے، لہٰذا اس سے اجتناب بہرحال ضروری ہے۔

قال النووي : قال أصحابنا وغیرہم من العلماء: تصویر صورۃ الحیوان حرامٌ شدید التحریم، وہو من الکبائر … فصنعتہ حرام بکل حال۔ (شرح النووي علی صحیح مسلم ۲؍۱۹۹، ونحو ذٰلک في الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۳۵۹)

ظاہر کلام النووي في شرح مسلم: الإجماع علی تحریم تصویر الحیوان۔ (شامي، کتاب الصلاۃ / باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ ۲؍۴۱۶ زکریا، وکذا في فتح الباري ۱۰؍۳۸۴)

قال اللہ تعالیٰ : اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ۔ (سورۂ بنی اسرائیل : ۲۷)

وقال القرطبي : من أنفق مالہ في الشہوات زائداً علی قدر الحاجات وعرّضہ بذٰلک للنفاد فہو مبذر۔ (تفسیر القرطبي ۵؍۲۲۴ بیروت)

فلو کانت الصورۃ خلفہ أو تحت رجلیہ ففي شرح عتاب لا تکرہ الصلاۃ۔(فتح القدیر : ۱/۴۱۵)

قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: (قولہ لا لمستتر بکیس او صرۃ) بان صلی ومعہ صرۃ او کیس فیہ دنانیر او دراہم فیہا صور صغار فلا تکرہ لاستتارہا بحر ومقتضآہ انہا لو کانت مکشوفۃ تکرہ الصلاۃ مع ان الصغیرہ لا تکرہ الصلاۃ معہا کما یأتی لکن یکرہ کراہۃ تنزیہ جعل الصورۃ فی البیت نہر۔ (ردالمحتار ہامش الدرالمختار :۴۷۹/۱، قبیل مطلب الکلام علی اتخاذ المسبحۃ، باب ما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا/بحوالہ کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 ذی الحجہ 1440

ہجری نئے سال کی مبارکباد، اس کی دعا؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسائل ذیل کے متعلق کہ نئے اسلامی سال کی مبارکباد دینا کیسا ہے؟ اور نئے سال کا چاند دیکھ کر کونسی دعا پڑھنا مسنون ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عامر ایوبی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہجری نئے سال کی مبارکباد دینا اگرچہ حدِ جواز میں داخل ہے، لیکن آج کل نہ دینے میں احتیاط و سلامتی ہے، کیونکہ عوام الناس اسے ثواب کا کام سمجھنے لگتے ہیں۔

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی لکھتے ہیں :
اس طرح مبارک باد سے آہستہ آہستہ یہ عمل رسم و رواج کا درجہ اختیار کرلے گا، اور اسی طرح بدعتیں وجود میں آتی ہیں، ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دس سال مدینہ میں رہے اور آپ کے بعد ۳۰؍ سال خلافت راشدہ کا عہد رہا، صحابہ رضی اللہ عنھم کی نگاہ میں اس واقعہ ہجرت کی اتنی زیادہ اہمیت تھی کہ اسی کو اسلامی کلینڈر کی بنیاد واساس بنایا گیا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد سے ہی ہجری تقویم کو اختیار کر لیا گیا تھا، لیکن ان حضرات نے کبھی سالِ نو یا یوم ہجرت منانے کی کوشش نہیں کی، اس سے معلوم ہوا کہ اسلام اس طرح کے رسوم و رواج کا قائل نہیں ہے، کیونکہ عام طور پر رسمیں نیک مقصد اور سادہ جذبہ کے تحت وجود میں آتی ہیں، پھر وہ آہستہ آہستہ دین کا جزو بن کر رہ جاتی ہیں، اس لئے اسلام کو بے آمیز رکھنے کے لیے ایسی رسموں سے گریز ضروری ہے۔ (کتاب الفتاویٰ : ١/٢٧٠)

تاہم اگر مبارک باد دینے کا مقصد یہ ہو کہ لوگوں کو اِسلامی مہینوں کے متعلق اَہمیت کا احساس ہو اور محض رسم مقصود نہ ہو، تو اِسلامی سال پر مبارک  باد دینے کی گنجائش ہے۔ 

زیر بحث مسئلہ کی تمام نزاکتوں کو ذکر کردیا گیا ہے، لہٰذا عمل کرنے والے اس کا خیال رکھتے ہوئے عمل کریں۔

2) ایک روایت میں یہ دعا اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول ہے، لیکن اس کی سند اور متن دونوں میں کلام ہے، لہٰذا نئے ہجری سال پر اس دعا کا پڑھنا جائز اور درست تو ہے لیکن اسے مسنون نہیں کہا جائے گا۔

1) قَال ابْنُ حَجَرٍ الْعَسْقَلاَنِيُّ : إِنَّهَا (التهنئة بالاعوام والاشهر ) مَشْرُوعَةٌ، وَاحْتَجَّ لَهُ بِأَنَّ الْبَيْهَقِيّ عَقَدَ لِذَلِكَ بَابًا فَقَال: بَابُ مَا رُوِيَ فِي قَوْل النَّاسِ بَعْضِهِمْ لِبَعْضٍ فِي يَوْمِ الْعِيدِ: تَقَبَّل اللَّهُ مِنَّا وَمِنْك، وَسَاقَ مَا ذَكَرَهُ مِنْ أَخْبَارٍ وَآثَارٍ ضَعِيفَةٍ لَكِنْ مَجْمُوعُهَا يُحْتَجُّ بِهِ فِي مِثْل ذَلِكَ، ثُمَّ قَال: وَيُحْتَجُّ لِعُمُومِ التَّهْنِئَةِ لِمَا يَحْدُثُ مِنْ نِعْمَةٍ أَوْ يَنْدَفِعُ مِنْ نِقْمَةٍ بِمَشْرُوعِيَّةِ سُجُودِ الشُّكْرِ وَالتَّعْزِيَةِ، وَبِمَا فِي الصَّحِيحَيْنِ عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ فِي قِصَّةِ تَوْبَتِهِ لَمَّا تَخَلَّفَ عَنْ غَزْوَةِ تَبُوكٍ أَنَّهُ لَمَّا بُشِّرَ بِقَبُول تَوْبَتِهِ وَمَضَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ إِلَيْهِ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ فَهَنَّأَهُ. وَكَذَلِكَ نَقَل الْقَلْيُوبِيُّ عَنِ ابْنِ حَجَرٍ أَنَّ التَّهْنِئَةَ بِالأَْعْيَادِ وَالشُّهُورِ وَالأَْعْوَامِ مَنْدُوبَةٌ. قَال الْبَيْجُورِيُّ: وَهُوَ الْمُعْتَمَدُ۔ ( نهاية المحتاج 2 / 391، ومغني المحتاج 1 / 316، وأسنى المطالب 1 / 283، والقليوبي وعميرة 1 / 310، وحاشية البيجوري 1 / 233. الموسوعة الفقهية)

2) حدثني إبراهيم بن هَانىء، حدثنا أصبَغُ قال : أخبرني ابنُ وَهب، عن حَيْوَة ، عن أبي عَقيل ، عن جدِّه عبدِ الله بن هشام قال : كان أصحابُ رسولِ الله صلى الله عليه وسلم يتعلَّمون هذا الدعاءَ كما يتعلَّمون القرآنَ إذا دخل الشهرُ أو السنةُ : اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ۔ (معجم الصحابہ، 1539)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
30 محرم الحرام 1439

جمعرات، 29 اگست، 2019

ماہِ محرم میں نئے کپڑے پہننے کا حکم


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کیا محرم الحرام کے مہینے میں نیا کپڑا پہننا منع ہے؟ زید کہتا ہے کہ یہ غم کا مہینہ ہے، اس لئے نیا کپڑا نہیں پہننا چاہیے۔
(المستفتی : عبدالمتین، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ جب ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس ان کے والد کے انتقال کی خبر آئی تو انہوں نے خوشبو منگوا کر دونوں ہاتھوں پر ملی اور کہا کہ مجھے خوشبو کی کوئی حاجت نہ تھی اگر میں آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنتی کہ کسی عورت کے لئے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ جائز نہیں ہے کہ سوائے شوہر کے کسی پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے مگر شوہر کا سوگ چار مہینے دس دن تک منائے۔

درج بالا حدیث شریف کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کہا جائے تو صورتِ مسئولہ تعلیماتِ شرعیہ کے خلاف جارہی ہے، اس لئے کہ شریعتِ مطہرہ میں سوائے معتدہ کے، کسی اور کے لیے کسی بھی وقت زیب و زینت اختیار کرنے اور نئے کپڑے پہننے سے منع نہیں کیا گیا ہے۔ نیز محرم الحرام کو غم کا مہینہ کہنا شریعت میں زیادتی کرنا ہے جو بدعت کہلاتا ہے، ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔ لہٰذا زید کو محرم کے مہینے میں سوگ منانے اور اسے غم کا مہینہ کہنے سے باز رہنا چاہیے، اس لئے کہ شریعتِ کاملہ میں سوگ کی اجازت تین دن سے زیادہ نہیں ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَکْرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ نَافِعٍ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ أَبِي سُفْيَانَ لَمَّا جَائَهَا نَعِيُّ أَبِيهَا دَعَتْ بِطِيبٍ فَمَسَحَتْ ذِرَاعَيْهَا وَقَالَتْ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تُحِدُّ عَلَی مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَی زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا۔(بخاری، رقم : ٥٣٤٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
28 ذی الحجہ 1440

پیپر پر دستخط کردینے سے طلاق کا حکم

*پیپر پر دستخط کردینے سے طلاق کا حکم*

سوال :

دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا صرف طلاق کے پیپر (نوٹری) پر (طلاق کی نیت سے) دستخط کرنے سے طلاق واقع ہوگی یا پھر زبان سے طلاق بولنا ضروری ہے؟ اور نوٹری پر دستخط کرنے سے کتنی طلاق واقع ہوگی؟ اس بارے میں وضاحت فرمائیں۔
(المستفتی : شاہ تبریز احمد، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں اگر اس شخص نے خود طلاق نامہ نہیں  لکھا ہے، نہ اس نے لکھوایا ہے، نہ لکھے ہوئے طلاق  نامہ کو خود پڑھا ہے اور نہ ہی اسے  پڑھوا کر پوری عبارت سنی ہے، بلکہ صرف دستخط کردی ہے تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ لیکن اگر اس نے پیپر پر لکھی ہوئی طلاق کی عبارت پڑھ کر یا کسی اور طریقے سے مطلع ہوکر دستخط کیا ہے تو طلاق واقع ہوگئی، پیپر پر جتنی طلاق کے بارے میں لکھا ہوگا اور اسے اس کا علم ہوگا تو اتنی طلاق واقع ہوجائے گی۔ مسئلہ ھذا میں لفظِ طلاق کا زبان سے ادا کرنا ضروری نہیں۔

وکذا کل کتاب لم یکتبہ بخطہ ولم یملہ بنفسہ لا یقع الطلاق  مالم یقرأنہ کتابہ الخ۔ (شامي، کتاب الطلاق، مطلب في الطلاق بالکتابۃ، ۴/۴۵۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 ذی الحجہ 1440

پیر، 26 اگست، 2019

عاشوراء کا صرف ایک روزہ رکھنا

*عاشوراء کا صرف ایک روزہ رکھنا*

سوال :

کیا آج کے دور کے یہودی بھی عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں؟ اور اگر آج کے مسلمان عاشورہ کا صرف ایک روزہ رکھے تو کیا یہودیوں سے مشابہت پائی جائے گی؟
(المستفتی : صغير احمد، جلگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فقہاء کرام نے حدیث تشابہ بالیہود کے سبب بجائے ایک روزہ کے دو روزے کو مسنون و مستحب قرار دیا ہے، اور صرف  عاشوراء کے روزے کو مکروہ تنزیہی لکھا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں آپ کے سوال پر خود ایک سوال قائم ہوتا ہے وہ یہ کہ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ موجودہ دور میں یہودی عاشوراء کا روزہ نہیں رکھتے؟ اگر بات عیسائیوں کی ہوتی تو اسے قبول کرنے میں زیادہ تردد نہیں ہوتا، کیونکہ عیسائی اپنے مذہب سے بڑی حد تک دور ہوچکے ہیں، اور دہریت کی طرف جاچکے ہیں، جبکہ یہودیوں کا یہ معاملہ نہیں ہے۔ یہودی اپنے مذہب کے تئیں سنجیدہ ہوتے ہیں، لہٰذا یقینی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ تمام یہودیوں نے عاشوراء کا روزہ ترک کردیا ہو، جس کی وجہ سے ایک گونہ مشابہت کا شبہ باقی رہتا ہے۔

چنانچہ اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں مفتی عبدالرحیم صاحب لاجپوری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

ماہِ محرم کی دسویں تاریخ یعنی  عاشوراء کے روزہ کا سنت ہونا حضورﷺ کے عمل اور قول سے ثابت ہے، اور تشبہ سے بچنے کے لئے نویں تاریخ کے روزے کا قصد بھی ثابت ہے۔ یہودیوں میں  عاشوراء کے روزے کا رواج نہیں ہے یہ ثابت کرنا مشکل ہے ان میں سے بعض پرانے لوگ جو بزعم خود اپنے مذہب کے پابند ہیں روزہ رکھتے ہوں گے، لہٰذا علت تشبہ قائم ہے اور اس میں بھی انکار نہیں کہ چودہ سو سال سے امت کا اس پر عمل چلا آرہا ہے، تراویح کی بیس رکعت کے بعد اجتماعی دعا منقول نہیں، لیکن امت اور اکابر کے عمل کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے اور دعا مانگی جاتی ہے۔ علی ہذا عیدالاضحی کی نماز کے بعد تکبیر ثابت نہیں ہے فقہاء نے ۲۳ نمازیں شمار کی ہیں جن کے بعد تکبیرات تشریق کہی جاتی ہیں اور یہ چوبیسویں نماز ہوجاتی ہے مگر توارث کی بنا پر تکبیر کہنے کو تسلیم کیا جاتا ہے اور بعض نے واجب تک فرما دیا ہے۔ (فتاوی رحیمیہ، ٧/٢٧٤)

البتہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ موجودہ زمانے میں یہودیوں سے مشابہت چونکہ پہلے جیسی یقینی نہیں رہی، جس کی وجہ سے کراہت میں بھی تخفیف آجاتی ہے۔ تاہم اسلم، افضل اور بہتر تو یہی ہے کہ عاشوراء (یعنی دسویں محرم) کے روزے کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا بھی روزہ رکھا جائے۔ لیکن اگر کوئی بالکل ہی روزہ نہ رکھتا ہو ایسا شخص اگر صرف دس محرم کا روزہ رکھ لے تو اس کا روزہ بلاکراہت درست ہوجائے گا، اور امید ہے کہ وہ عاشوراء کے روزے کی فضیلت حاصل کرلے گا۔

ولا بأ س بہ عقب العید لان المسلمین توارثوہ فوجب اتباعھم وعلیہ البلخیون۔ (درمختار مع الشامی،۱/ ۷۸۶، مطلب فی تکبیر التشریق)

ویستحب ان یصوم  یوم  عاشوراء  بصوم  یوم  قبلہ أو یوم  بعدہ لیکون مخالفاً لاھل الکتاب۔(شامی : ۲/۳۷۵)

والمکروہ ۔۔۔ وتنزیھا کعاشوراء  وحدہ۔ (الدر المختار : ۳۷۵/۲)

وافاد قولہ وحدہ انہ لو صام معہ  یوما آخر فلا کراھۃ لان الکراھۃ فی تخصیصہ بالصوم للتشبہ وھل اذا صام السبت مع الاحد تزول الکراھۃ الی قولہ وکذا لو صام مع  عاشوراء  یوما قبلہ او بعدہ مع ان الیھود تعظمہ۔(شامی : ۳۷۶/۲)

وحاصل الشريعة : أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم يوم قبله وبعده، ثم الأدون منه صوم عاشوراء مع صوم يوم قبله أو بعده، ثم الأدون صوم يوم عاشوراء فقط. والثلاثة عبادات عظمى، وأما ما في الدر المختار من كراهة صوم عاشوراء منفرداً تنزيهاً، فلا بد من التأويل فيه أي أنها عبادة مفضولة من القسمين الباقيين، ولا يحكم بكراهة؛ فإنه عليه الصلاة والسلام صام مدة عمره صوم عاشوراء منفرداً، وتمنى أن لو بقي إلى المستقبل صام يوماً معه۔ (العرف الشذي شرح سنن الترمذي : 2/ 177)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 ذی الحجہ 1440

اتوار، 25 اگست، 2019

رہبرِ انسانیت کا لقب استعمال کرنے کا حکم

*رہبرِ انسانیت کا لقب استعمال کرنے کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ *رہبرِ انسانیت* کا لفظ کس شخصیت سے منسوب ہے اور اسکی تعریف کیا ہے؟ اور اس لفظ کو کسی بھی انسان سے منسوب کرنا کیسا ہے؟
(المستفتی : اشتیاق احمد 42، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسئلہ ھذا کو سمجھنے کے لیے ہمیں مذکورہ الفاظ کے معنی پر غور کرنا پڑے گا، چنانچہ لغت میں دیکھنے پر ہمیں رہبر کے معنی ملتے ہیں، رہنمائی کرنے والا، راستہ دکھانے والا۔ اور انسانیت کے معنی ہوتے ہیں، انسان، بنی آدم۔ معلوم ہوا کہ رہبرِ انسانیت کے معنی ہوئے، انسانوں کی رہنمائی کرنے والا۔

اب اگر کوئی شخص انسانیت کی فلاح و بہبود اور ان کے فائدے کے لیے کوئی غیرمعمولی کام کرتا ہے تو اسے جزوی طور رہبرِ انسانیت کہا جاسکتا ہے، مثال کے طور پر جابر ابن حیان جس نے علم کیمیاء ایجاد کرکے انسانیت کی رہبری کی۔ لہٰذا اسے اور جیسے دیگر لوگوں کو رہبر انسانیت کہنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔

درج بالا تفصیل سے واضح ہوگیا کہ رہبرِ انسانیت کا لقب کسی شخصیت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، نہ ہی شریعت نے اس لفظ کو کسی شخصیت کے ساتھ متعین کیا ہے، بلکہ فقہاء کرام نے اسماء و القاب کے سلسلے میں یہاں تک لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام جو اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان مشترک ہیں، جیسے عزیز، حفیظ، رشید، وغیرہ ان کو بغیر "عبد" کے رکھنے لکھنے اور پکارنے کی گنجائش ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ کے بعض صفاتی نام غیراللہ کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں، تو پھر ایسا کوئی لقب جسے شریعت نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے مخصوص نہیں کیا، وہ کیونکر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ کے لیے استعمال نہیں ہوسکتا؟

البتہ جب رہبرِ انسانیت کا لقب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے کہا جائے تو یہاں اس لقب کا حق ادا ہوجاتا ہے، اس لئے کہ آپ علیہ السلام کی بابرکت ذات انسانیت کے لیے سراپا رہنما اور رہبر ہے، جبکہ دیگر عام لوگوں کے لیے اس لقب کے استعمال میں مبالغہ کا پہلو پایا جاتا ہے، لہٰذا عام لوگوں کے لیے اس لقب کے استعمال سے اجتناب بہتر ہے۔

التسمیۃ باسم یوجدفی کتاب اﷲ تعالیٰ کالعلی والکبیر والرشید والبدیع جائزۃ لأنہ من الاسماء المشترکۃ ویراد فی حق العباد غیر مایراد فی حق اﷲ تعالیٰ۔ (الھندیۃ،۳۶۲/۵)

وجاز التسمیۃ بعلی ورشید من الأسماء المشترکۃ ویراد فی حقنا غیر ما یراد فی حق اﷲ تعالیٰ۔ (الدرالمختار، ۴۱۷/۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 ذی الحجہ 1440

جمعہ، 23 اگست، 2019

جھوٹی قسم کا کفارہ؟

*جھوٹی قسم کا کفارہ؟*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین درمیان اس مسئلہ کے کہ زید نے بکر کو یقین دلانے کے کہا کہ اللہ کی قسم میں نے فلاں کام کرلیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نے وہ کام نہیں کیا ہے، اب اسے افسوس ہے کے اس نے جھوٹی قسم کھالی، چنانچہ وہ اس جھوٹی قسم کا کفارہ ادا کرنا چاہتا ہے، برام کرم بتائیں اس کا کفارہ کیا ہوگا؟
(المستفتی : اشفاق احمد، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جھوٹی قسم کھانا ناجائز اور حرام ہے۔ متعدد احادیث میں جھوٹی قسم کھانے والے کے بارے میں سخت وعید وارد ہوئی ہیں۔

حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمائی کرنا، ناحق کسی کو مار ڈالنا اور جھوٹی قسم کھانا بڑے گناہ ہیں۔(1)

حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص (کسی حاکم وغیرہ کی مجلس میں) محبوس ہو کر (یا دیدہ و دانستہ) جھوٹی قسم کھالے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔(2)

جھوٹی قسم کو یمین غموس کہا جاتا ہے جس کا دنیا میں کوئی کفارہ نہیں ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں زید کو چاہیے کہ اس کبیرہ گناہ پر ندامت و شرمندگی کے ساتھ سچی پکی توبہ و استغفار بھی کرتا رہے اور کچھ صدقہ بھی کردے اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بے شک صدقہ اﷲ تعالیٰ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔ امید ہے کہ اللہ تعالٰی عفو در گذر کا معاملہ فرمائیں۔(3)

1) عن عبد الله بن عمرو، عن النبی ﷺ قال: الکبائر ، الإشراک بالله وعقوق الوالدین ، وقتل النفس، والیمین الغموس۔(صحیح البخاری، الأیمان والنذور، باب الیمین الغموس، النسخۃ الہندیہ ۲/۹۸۷، رقم:۶۴۱۹، ف:۶۶۷۵)

2) عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ حَلَفَ عَلَی يَمِينٍ مَصْبُورَةٍ کَاذِبًا فَلْيَتَبَوَّأْ بِوَجْهِهِ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ۔ (سنن أبي داود، الصفحة أو الرقم : 3242)

3) فالغموس ھو الحلف علی امر مامن یتعمد الکذب فیہ فھذہ الیمین یا ثم صاحبا لقولہ علیہ السلام من حلف کا ذبا ادخلہ اﷲ النار ولا کفارۃ فیھا الا التوبۃ والا ستغفار۔ (ھدایہ، کتاب الایمان، ۲/ ۴۷۸)

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِيئُ غَضَبَ الرَّبِّ، وَتَدْفَعُ عَنْ مِيْتَةِ السُّوْئِ۔ (رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 ذی الحجہ 1440

جمعرات، 22 اگست، 2019

بغیر گواہوں کے نکاح کا حکم

*بغیر گواہوں کے نکاح کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب تنہائی میں بالغ لڑکی نے بالغ لڑکے سے کہا میں اپنے آپ کو تمہارے نکاح میں دیتی ہوں، اور لڑکے نے کہا میں قبول کرتا ہوں، تو کیا نکاح منعقد ہوجائے گا؟ برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عمیر، مالیگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نکاح  کے صحیح ہونے کے لئے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کا گواہ ہونا شرط ہے، نیز ان  گواہوں  کا مسلمان، عاقل، بالغ اور مجلسِ نکاح  میں موجود ہونا لازم ہوتا ہے۔

احادیثِ مبارکہ میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : وہ عورتیں زنا کرنے والی ہیں جو گواہوں کے بغیر نکاح کرلیتی ہیں۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں لڑکا اور لڑکی کا تنہائی میں جب کہ وہاں تیسرا کوئی اور نہیں تھا ایجاب و قبول کرلینے سے نکاح منعقد نہیں ہوگا۔

عن ابن عباسؓ، أن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم، قال: البغایا اللاتي ینکحن أنفسہن بغیر بینۃ۔ (سنن الترمذي، کتاب النکاح، باب ماجاء لانکاح إلا ببینۃ، رقم : ۱۱۰۳)

عن عمران بن حصین، أن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم قال: لانکاح إلا بولي، وشاہدي عدل۔ (المعجم الکبیر للطبراني، رقم : ۲۹۹)

ولاینعقد نکاح المسلمین إلابحضور شاہدین حرین عاقلین بالغین مسلمین رجلین أو رجل، و امرأ تین۔ (ہدایۃ، کتاب النکاح ، ۲/۳۰۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 ذی الحجہ 1440