پیر، 19 اگست، 2019

مسلمانوں کا راکھی بندھوانا

*مسلمانوں کا راکھی بندھوانا*

سوال :

دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ ایک علاقہ میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مسلمانوں نے بلاتفریق مذہب و ملت امداد کی غیر مسلم خواتین نے ان کے تہوار کے موقع پر مسلمانوں کو صرف راکھیاں باندھی، سوشل میڈیا پر اس کی تصاویر وائرل ہوئیں کچھ لوگوں نے کمنٹس کرکے سوال کیا کہ خدمت خلق بہت بہتر مگر راکھیاں باندھنا؟
(المستفتی : محمد علی، کنڑ)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی مسلمان برضا ورغبت اور بشاشت قلبی کے ساتھ غیرمسلموں کا لباس پہنے، غیروں کی مشابہت اختیار کرے، اور ان کے جیسا کام کرے تو وہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں تجديدِ ایمان وتجديدِ نکاح کی ضرورت ہوتی ہے ۔

کما استفید من عبارۃ الہندیۃ يَكْفُرُ بِوَضْعِ قَلَنْسُوَةِ الْمَجُوسِ عَلَى رَأْسِهِ عَلَى الصَّحِيحِ إلَّا لِضَرُورَةِ دَفْعِ الْحَرِّ وَالْبَرْدِ وَبِشَدِّ الزُّنَّارِ فِي وَسْطِهِ إلَّا إذَا فَعَلَ ذَلِكَ خَدِيعَةً فِي الْحَرْبِ وَطَلِيعَةً لِلْمُسْلِمِينَ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٢٧٦)

ولو شبہ نفسہ بالیہود والنصاریٰ أی صورۃ أو سیرۃ علی طریق المزاح والہزل أي: ولوعلی ہذا المنوال کفر۔ (شرح الفقہ الأکبر،ص: ۲۲۷، ۲۲۸، فصل في الکفر صریحا وکنایۃ، یاسر ندیم- دیوبند)

وَإِنْ كَانَتْ نِيَّتُهُ الْوَجْهَ الَّذِي يُوجِبُ التَّكْفِيرَ لَا تَنْفَعُهُ فَتْوَى الْمُفْتِي، وَيُؤْمَرُ بِالتَّوْبَةِ وَالرُّجُوعِ عَنْ ذَلِكَ وَبِتَجْدِيدِ النِّكَاحِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ امْرَأَتِهِ كَذَا فِي الْمُحِيطِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٢٨٣)

البتہ اگر اس عمل کی عظمت دل میں نہ ہو اور دینِ اسلام کی پوری عظمت قلب میں موجود ہو تو اس کے کفر کا فتوی تو نہیں دیا جائے گا، لیکن یہ صورت بھی ناجائز اور حرام ہے۔

صورتِ مسئولہ میں جن مسلمانوں نے غیرمسلم عورتوں سے راکھی بندھوائی ہے، وہ من تشبہ بقوم فہو منہم کی وعید میں داخل ہوکر سخت گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں، لہٰذا ان پر ضروری ہے کہ اس غیرشرعی فعل پر ندامت و شرمندگی کے ساتھ سچی پکی توبہ و استغفار کریں، اور آئندہ ایسی چیزوں سے قطعاً دور رہیں۔

بلاشبہ مخلوقِ خدا کی خدمت کرنا ایک بہترین عمل اور کارِ ثواب ہے، لیکن اس میں بھی شرعی حدود و قیود کی پاسداری انتہائی ضروری ہے، ورنہ نیکی برباد گناہ لازم آئے گا۔

وقال علیہ السلام : من تشبہ بقوم فہو منہم وفي البذل: قال القاري أي: من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار أو بأہل التصوف والصلحاء الأبرار فہو منہم أي في الإثم أو الخیر عند اللہ تعالی۔ (بذل المجہود : ۱۲/ ۵۹ باب في لبس الشہرة)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 ذی الحجہ 1440

5 تبصرے:

  1. ماشاءﷲ
    ﷲپاک مفتی صاحب کےعلم وفضل مقام ومرتبہ میں اضافہ فرمائے۔۔(آمین)

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاءاللہ
    اللہ‎ پاک مفتی صاحب کو اسی طرح حالات کے مطابق مسائل پر روشنی ڈال کر راھنمائی کی توفیق عطا فرمائیں ۔

    جواب دیںحذف کریں