ہفتہ، 31 اگست، 2019

موبائیل کَوَر پر تصویر بنوانے کا حکم

*موبائیل کَوَر پر تصویر بنوانے کا حکم*

سوال :

مفتی صاحب آج کل موبائیل کور اپنی یا کسی کی بھی تصویر بنوانے کا رجحان بڑھ رہا ہے، شریعت میں یہ عمل کیا حکم رکھتا ہے؟ اور تصویر جیب میں ہونے کی صورت میں نماز کا کیا حکم ہے؟
رہنمائی فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ آمین
(المستفتی : محمد وارث، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ذخیرۂ احادیث میں ایسی متعدد روایات موجود ہیں جن میں تصویر کشی کرنے والوں سے متعلق انتہائی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، ان میں چند احادیث ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو میری تخلیق جیسی تخلیق کرنے کی کوشش کرتا ہے، ایسے لوگ ایک ذرہ، ایک دانہ یا ایک جَو ہی بناکر دکھلائیں۔ (صحیح بخاری، حدیث : 5953، 7559)

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
قیامت کے دن سب سے سخت ترین عذاب تصویریں بنانے والے لوگوں کو ہوگا۔ (صحیح مسلم، حدیث : 2109)

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : ہر مصور جہنم میں جائے گا۔ اس کی بنائی ہوئی ہر تصویر کے بدلے میں ایک جان بنائی جائے گی جس کے ذریعہ سے اس (مصور) کو جہنم میں عذاب دیا جائےگا۔ (صحیح بخاری، حدیث : 2225، 5963)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے دنیا میں کوئی تصویر بنائی، اسے قیامت کے دن اس تصویر میں روح پھونکنے کا حکم دیا جائے گا مگر وہ اس میں روح ہر گز نہ پھونک سکے گا۔ (صحیح بخاری، حدیث : 5963)

درج بالا احادیثِ مبارکہ میں بیان کی گئی تصویر سے مراد جانداروں کے پُتلے اور مجسمے، ہاتھ سے کسی کاغذ وغیرہ پر بنائی گئی اور کیمرہ سے شوٹ کرکے اس کی پرنٹ نکال لی گئی تصویریں ہیں، ایسی تصویروں کے متعلق برصغیر کے علماء کرام کا اتفاق ہے کہ یہ تصویریں جائز نہیں ہے، اور مذکورہ احادیث میں بیان کی گئی وعید کا مصداق ہیں۔

لہٰذا بلا ضرورتِ شدیدہ کیمرے سے تصویر لے کر اس کا پرنٹ نکال لینا جائز نہیں ہے، البتہ ضرورت کی وجہ سے یہ تصویر کھنچوانے کی گنجائش ہے، مثلاً پاسپورٹ، ایڈنٹی کارڈ، اسکولوں اور مدارس کے داخلہ فارم میں یا سرکاری کام کے فارم کے لئے تصویر کھنچوانے کی گنجائش ہے۔
الضرورات تبیح المحظورات۔ (الأشباہ والنظائر قدیم۱۴۰)

مندرجہ بالا تفصیلات سے واضح ہوگیا کہ موبائیل کَوَر پر تصویر بنانا یا بنوانا بلاشبہ ایک ناجائز عمل ہے، اس لئے کہ یہ کوئی شرعی ضرورت نہیں ہے، جس کے لیے تصویر کشی کی اجازت ہو۔ اس میں قطعاً کوئی خیر نہیں ہے۔ نیز یہ عمل سراسر فضول خرچی پر مبنی اور بے برکتی کا باعث ہے، اور قرآنِ کریم میں فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ ایسے عمل سے خود بھی بچے اور بقدر استطاعت دوسروں کو بھی اس گناہ سے بچانے کی کوشش کرے۔

بعض فقہاء نے ایسی  تصویر جو نمازی کے پیچھے کی طرف یا اس کے پاؤں کے نیچے ہو، یا  جیب  اور غلاف کے اندر ہو   نماز  میں کراہت کا باعث قرار نہیں دیا ہے۔ لہٰذا تصویری کَوَر والا موبائیل جیب میں ہوتو نماز بلاکراہت ادا ہوجائے گی، لیکن یہ عمل چونکہ سِرے سے ناجائز ہے، لہٰذا اس سے اجتناب بہرحال ضروری ہے۔

قال النووي : قال أصحابنا وغیرہم من العلماء: تصویر صورۃ الحیوان حرامٌ شدید التحریم، وہو من الکبائر … فصنعتہ حرام بکل حال۔ (شرح النووي علی صحیح مسلم ۲؍۱۹۹، ونحو ذٰلک في الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۳۵۹)

ظاہر کلام النووي في شرح مسلم: الإجماع علی تحریم تصویر الحیوان۔ (شامي، کتاب الصلاۃ / باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب إذا تردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ ۲؍۴۱۶ زکریا، وکذا في فتح الباري ۱۰؍۳۸۴)

قال اللہ تعالیٰ : اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ۔ (سورۂ بنی اسرائیل : ۲۷)

وقال القرطبي : من أنفق مالہ في الشہوات زائداً علی قدر الحاجات وعرّضہ بذٰلک للنفاد فہو مبذر۔ (تفسیر القرطبي ۵؍۲۲۴ بیروت)

فلو کانت الصورۃ خلفہ أو تحت رجلیہ ففي شرح عتاب لا تکرہ الصلاۃ۔(فتح القدیر : ۱/۴۱۵)

قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: (قولہ لا لمستتر بکیس او صرۃ) بان صلی ومعہ صرۃ او کیس فیہ دنانیر او دراہم فیہا صور صغار فلا تکرہ لاستتارہا بحر ومقتضآہ انہا لو کانت مکشوفۃ تکرہ الصلاۃ مع ان الصغیرہ لا تکرہ الصلاۃ معہا کما یأتی لکن یکرہ کراہۃ تنزیہ جعل الصورۃ فی البیت نہر۔ (ردالمحتار ہامش الدرالمختار :۴۷۹/۱، قبیل مطلب الکلام علی اتخاذ المسبحۃ، باب ما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا/بحوالہ کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 ذی الحجہ 1440

1 تبصرہ: