پیر، 26 اگست، 2019

عاشوراء کا صرف ایک روزہ رکھنا

*عاشوراء کا صرف ایک روزہ رکھنا*

سوال :

کیا آج کے دور کے یہودی بھی عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں؟ اور اگر آج کے مسلمان عاشورہ کا صرف ایک روزہ رکھے تو کیا یہودیوں سے مشابہت پائی جائے گی؟
(المستفتی : صغير احمد، جلگاؤں)
----------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فقہاء کرام نے حدیث تشابہ بالیہود کے سبب بجائے ایک روزہ کے دو روزے کو مسنون و مستحب قرار دیا ہے، اور صرف  عاشوراء کے روزے کو مکروہ تنزیہی لکھا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں آپ کے سوال پر خود ایک سوال قائم ہوتا ہے وہ یہ کہ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ موجودہ دور میں یہودی عاشوراء کا روزہ نہیں رکھتے؟ اگر بات عیسائیوں کی ہوتی تو اسے قبول کرنے میں زیادہ تردد نہیں ہوتا، کیونکہ عیسائی اپنے مذہب سے بڑی حد تک دور ہوچکے ہیں، اور دہریت کی طرف جاچکے ہیں، جبکہ یہودیوں کا یہ معاملہ نہیں ہے۔ یہودی اپنے مذہب کے تئیں سنجیدہ ہوتے ہیں، لہٰذا یقینی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ تمام یہودیوں نے عاشوراء کا روزہ ترک کردیا ہو، جس کی وجہ سے ایک گونہ مشابہت کا شبہ باقی رہتا ہے۔

چنانچہ اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں مفتی عبدالرحیم صاحب لاجپوری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

ماہِ محرم کی دسویں تاریخ یعنی  عاشوراء کے روزہ کا سنت ہونا حضورﷺ کے عمل اور قول سے ثابت ہے، اور تشبہ سے بچنے کے لئے نویں تاریخ کے روزے کا قصد بھی ثابت ہے۔ یہودیوں میں  عاشوراء کے روزے کا رواج نہیں ہے یہ ثابت کرنا مشکل ہے ان میں سے بعض پرانے لوگ جو بزعم خود اپنے مذہب کے پابند ہیں روزہ رکھتے ہوں گے، لہٰذا علت تشبہ قائم ہے اور اس میں بھی انکار نہیں کہ چودہ سو سال سے امت کا اس پر عمل چلا آرہا ہے، تراویح کی بیس رکعت کے بعد اجتماعی دعا منقول نہیں، لیکن امت اور اکابر کے عمل کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے اور دعا مانگی جاتی ہے۔ علی ہذا عیدالاضحی کی نماز کے بعد تکبیر ثابت نہیں ہے فقہاء نے ۲۳ نمازیں شمار کی ہیں جن کے بعد تکبیرات تشریق کہی جاتی ہیں اور یہ چوبیسویں نماز ہوجاتی ہے مگر توارث کی بنا پر تکبیر کہنے کو تسلیم کیا جاتا ہے اور بعض نے واجب تک فرما دیا ہے۔ (فتاوی رحیمیہ، ٧/٢٧٤)

البتہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ موجودہ زمانے میں یہودیوں سے مشابہت چونکہ پہلے جیسی یقینی نہیں رہی، جس کی وجہ سے کراہت میں بھی تخفیف آجاتی ہے۔ تاہم اسلم، افضل اور بہتر تو یہی ہے کہ عاشوراء (یعنی دسویں محرم) کے روزے کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا بھی روزہ رکھا جائے۔ لیکن اگر کوئی بالکل ہی روزہ نہ رکھتا ہو ایسا شخص اگر صرف دس محرم کا روزہ رکھ لے تو اس کا روزہ بلاکراہت درست ہوجائے گا، اور امید ہے کہ وہ عاشوراء کے روزے کی فضیلت حاصل کرلے گا۔

ولا بأ س بہ عقب العید لان المسلمین توارثوہ فوجب اتباعھم وعلیہ البلخیون۔ (درمختار مع الشامی،۱/ ۷۸۶، مطلب فی تکبیر التشریق)

ویستحب ان یصوم  یوم  عاشوراء  بصوم  یوم  قبلہ أو یوم  بعدہ لیکون مخالفاً لاھل الکتاب۔(شامی : ۲/۳۷۵)

والمکروہ ۔۔۔ وتنزیھا کعاشوراء  وحدہ۔ (الدر المختار : ۳۷۵/۲)

وافاد قولہ وحدہ انہ لو صام معہ  یوما آخر فلا کراھۃ لان الکراھۃ فی تخصیصہ بالصوم للتشبہ وھل اذا صام السبت مع الاحد تزول الکراھۃ الی قولہ وکذا لو صام مع  عاشوراء  یوما قبلہ او بعدہ مع ان الیھود تعظمہ۔(شامی : ۳۷۶/۲)

وحاصل الشريعة : أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم يوم قبله وبعده، ثم الأدون منه صوم عاشوراء مع صوم يوم قبله أو بعده، ثم الأدون صوم يوم عاشوراء فقط. والثلاثة عبادات عظمى، وأما ما في الدر المختار من كراهة صوم عاشوراء منفرداً تنزيهاً، فلا بد من التأويل فيه أي أنها عبادة مفضولة من القسمين الباقيين، ولا يحكم بكراهة؛ فإنه عليه الصلاة والسلام صام مدة عمره صوم عاشوراء منفرداً، وتمنى أن لو بقي إلى المستقبل صام يوماً معه۔ (العرف الشذي شرح سنن الترمذي : 2/ 177)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 ذی الحجہ 1440

3 تبصرے:

  1. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم ۔ امید ہے کہ آپ بخیر ہوں گے ۔
    شاید اگر "معارف الحدیث" حضرت مولانا منظور نعمانیؒ کا یہ عاجز مطالعہ کرتا تو چھوٹوں پر شفقت ہوتی بہتر رہتا ۔
    اللہ ہم سب کو قبول فرمائے آمین ۔ والسلام ۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. آپکے کے رپلائی میں اور سوال میں کیا جوڑ ہے،🤔🤔

      حذف کریں