اتوار، 25 اگست، 2019

رہبرِ انسانیت کا لقب استعمال کرنے کا حکم

*رہبرِ انسانیت کا لقب استعمال کرنے کا حکم*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ *رہبرِ انسانیت* کا لفظ کس شخصیت سے منسوب ہے اور اسکی تعریف کیا ہے؟ اور اس لفظ کو کسی بھی انسان سے منسوب کرنا کیسا ہے؟
(المستفتی : اشتیاق احمد 42، مالیگاؤں)
-----------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مسئلہ ھذا کو سمجھنے کے لیے ہمیں مذکورہ الفاظ کے معنی پر غور کرنا پڑے گا، چنانچہ لغت میں دیکھنے پر ہمیں رہبر کے معنی ملتے ہیں، رہنمائی کرنے والا، راستہ دکھانے والا۔ اور انسانیت کے معنی ہوتے ہیں، انسان، بنی آدم۔ معلوم ہوا کہ رہبرِ انسانیت کے معنی ہوئے، انسانوں کی رہنمائی کرنے والا۔

اب اگر کوئی شخص انسانیت کی فلاح و بہبود اور ان کے فائدے کے لیے کوئی غیرمعمولی کام کرتا ہے تو اسے جزوی طور رہبرِ انسانیت کہا جاسکتا ہے، مثال کے طور پر جابر ابن حیان جس نے علم کیمیاء ایجاد کرکے انسانیت کی رہبری کی۔ لہٰذا اسے اور جیسے دیگر لوگوں کو رہبر انسانیت کہنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔

درج بالا تفصیل سے واضح ہوگیا کہ رہبرِ انسانیت کا لقب کسی شخصیت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، نہ ہی شریعت نے اس لفظ کو کسی شخصیت کے ساتھ متعین کیا ہے، بلکہ فقہاء کرام نے اسماء و القاب کے سلسلے میں یہاں تک لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام جو اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان مشترک ہیں، جیسے عزیز، حفیظ، رشید، وغیرہ ان کو بغیر "عبد" کے رکھنے لکھنے اور پکارنے کی گنجائش ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ کے بعض صفاتی نام غیراللہ کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں، تو پھر ایسا کوئی لقب جسے شریعت نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے مخصوص نہیں کیا، وہ کیونکر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ کے لیے استعمال نہیں ہوسکتا؟

البتہ جب رہبرِ انسانیت کا لقب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے کہا جائے تو یہاں اس لقب کا حق ادا ہوجاتا ہے، اس لئے کہ آپ علیہ السلام کی بابرکت ذات انسانیت کے لیے سراپا رہنما اور رہبر ہے، جبکہ دیگر عام لوگوں کے لیے اس لقب کے استعمال میں مبالغہ کا پہلو پایا جاتا ہے، لہٰذا عام لوگوں کے لیے اس لقب کے استعمال سے اجتناب بہتر ہے۔

التسمیۃ باسم یوجدفی کتاب اﷲ تعالیٰ کالعلی والکبیر والرشید والبدیع جائزۃ لأنہ من الاسماء المشترکۃ ویراد فی حق العباد غیر مایراد فی حق اﷲ تعالیٰ۔ (الھندیۃ،۳۶۲/۵)

وجاز التسمیۃ بعلی ورشید من الأسماء المشترکۃ ویراد فی حقنا غیر ما یراد فی حق اﷲ تعالیٰ۔ (الدرالمختار، ۴۱۷/۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
23 ذی الحجہ 1440

3 تبصرے:

  1. جزاک اللہ خیرا کثیرا
    جناب آپ کے فتاوے کافی مدلل ہوتے ہیں اور المستفتی کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاء اللہ تبارک اللہ
    آپ کے فتاوے مدلل ہونے کے ساتھ ساتھ ساتھ بہت ہی آسانی سے سمجھ آ جاتے ہیں۔ کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔
    💐💐🌹💐💐

    جواب دیںحذف کریں