جمعہ، 16 اگست، 2019

قربانی کی قضا

*قربانی کی قضا*

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ہذا کے بارے میں کہ ایک شخص صاحب نصاب تھا جس پر قربانی واجب تھی لیکن اس کو پتہ نہیں کہ میں صاحبِ نصاب ہوں اور مجھ پر قربانی واجب ہے جب اس کو مسئلہ معلوم ہوا تو قربانی کے ایام گزر چکے تھے اب یہ شخص کیا کرے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ مدثر، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کسی شخص پر قربانی واجب تھی، لیکن اس نے ایامِ قربانی میں نہ تو قربانی کی اور نہ جانور خریدا تو بعد میں اس پر ایک سالہ متوسط بکرے/بکری کی قیمت کا غریبوں پر صدقہ کرنا واجب ہے۔

عموماً مطبوعہ فتاوی میں یہی لکھا ہے کہ قربانی کی قضا میں بڑے جانور کے ساتویں حصہ کی قیمت کا صدقہ کرنا کافی نہ ہوگا، بلکہ ایک سالہ بکرے یا بکری کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے۔ البتہ مفتی احمد خانپوری دامت برکاتہم نے فتاوی محمودیہ کے حوالہ سے بڑے جانور کے ساتویں حصے کی قیمت صدقہ کرنے کی گنجائش لکھی ہے۔ (محمود الفتاویٰ : ٧/٤٧٦)

تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ ایک سالہ متوسط بکری کی قیمت صدقہ کی جائے اور جو افراد کم استطاعت رکھتے ہیں ان کے لیے یہ سہولت ہوسکتی ہے کہ جن علاقوں میں بکریوں کی قیمت کم ہو وہاں کی قیمت کا اعتبار کرتے ہوئے اتنی رقم صدقہ کردیں۔ لیکن اگر کوئی اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہوتو بڑے جانور کے ساتویں حصے کی قیمت صدقہ کردے تو امید ہے کہ اس کی قضا ادا ہوجائے گی۔

صورتِ مسئولہ میں اس شخص کو اگرچہ اپنے اوپر قربانی واجب ہونے کا علم نہ ہو تب بھی اسے اوپر کی ہدایت کے مطابق قربانی کی قضا کرنا ضروری ہے۔

(وَلَوْ) (تُرِكَتْ التَّضْحِيَةُ وَمَضَتْ أَيَّامُهَا) تَصَدَّقَ (بِقِيمَتِهَا غَنِيٌّ شَرَاهَا أَوَّلًا) لِتَعَلُّقِهَا بِذِمَّتِهِ بِشِرَائِهَا أَوَّلًا، فَالْمُرَادُ بِالْقِيمَةِ قِيمَةُ شَاةٍ تُجْزِي فِيهَا۔ وفی الشامیۃ تحت قولہ : فَالْمُرَادُ بِالْقِيمَةِ إلَخْ، قَالَ الْقُهُسْتَانِيُّ، أَوْ قِيمَةُ شَاةٍ وَسَطٍ كَمَا فِي الزَّاهِدِيِّ۔ (شامی : ٣٢٠-٣٢١/ ٦)

وَلَوْ لَمْ يُضَحِّ حَتَّى مَضَتْ أَيَّامُ النَّحْرِ فَقَدْ فَاتَهُ الذَّبْحُ فَإِنْ كَانَ أَوْجَبَ عَلَى نَفْسِهِ شَاةً بِعَيْنِهَا بِأَنْ قَالَ: لِلَّهِ عَلَيَّ أَنْ أُضَحِّيَ بِهَذِهِ الشَّاةِ سَوَاءٌ كَانَ الْمُوجِبُ فَقِيرًا أَوْ غَنِيًّا، أَوْ كَانَ الْمُضَحِّي فَقِيرًا وَقَدْ اشْتَرَى شَاةً بِنِيَّةِ الْأُضْحِيَّةِ فَلَمْ يَفْعَلْ حَتَّى مَضَتْ أَيَّامُ النَّحْرِ تَصَدَّقَ بِهَا حَيَّةً، وَإِنْ كَانَ مَنْ لَمْ يُضَحِّ غَنِيًّا وَلَمْ يُوجِبْ عَلَى نَفْسِهِ شَاةً بِعَيْنِهَا تَصَدَّقَ بِقِيمَةِ شَاةٍ اشْتَرَى أَوْ لَمْ يَشْتَرِي، كَذَا فِي الْعَتَّابِيَّةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٢٩٦)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 ذی الحجہ 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں