پیر، 5 اگست، 2019

قربانی کا جانور پولیس پکڑ لے، گُم ہوجائے یا مرجائے؟

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درج ذیل صورتوں کے متعلق کہ
١) زید مالدار (صاحبِ نصاب) ہے، اس نے قربانی کے لئے ایک جانور خریدا کسی وجہ سے اس جانور کو پولیس نے اپنی گرفت میں لے لیا، اب وہ جانور بقرعید سے پہلے ملنا ممکن نہیں، لہٰذا اس صورت میں زید کے لئے کیا حکم ہے؟
٢) عمر غريب (غیر صاحب نصاب) ہے، اس نے بھی قربانی کی نیت سے جانور خریدا اور اس کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا، عمر کے لئے شریعت کا کیا حکم ہے؟
٣) بکر جو کہ صاحب نصاب بھی ہے، اس نے قربانی کے لئے ایک جانور خریدا ،پھر اسے فروخت کرکے دوسرا جانور خرید لیا جس کی قیمت پہلے جانور سے کم ہے، اب اس بچی ہوئی رقم کا کیا حکم ہے؟ اگر غریب (غیر صاحب نصاب) آدمی نے ایسا کیا تو بقیہ رقم کا کیا حکم ہوگا؟
برائے مہربانی ان تمام صورتوں کے متعلق واضح اور مدلل جواب عنایت فرمائیں، اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : کلیم احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور تمام صورتوں کے جوابات ترتیب وار ملاحظہ فرمائیں۔

١) صورتِ مسئولہ میں زید پر واجب ہے کہ وہ دوسرا جانور خریدے یا اجتماعی قربانی میں حصہ لے کر اپنی واجب قربانی ادا کرے، اور اگر بعد میں وہ جانور مل جائے تو اسے فروخت کرکے اس رقم کو استعمال کرسکتا ہے، اس جانور کو صدقہ کرنا مالدار (صاحبِ نصاب) کے لئے واجب نہیں ہے۔

٢) عمر جو کہ صاحبِ نصاب نہیں ہے، اس لئے اس پر دوسری قربانی واجب نہیں، لیکن اگر وہ دوسرا جانور خرید لے اور پہلا جانور قربانی کے ایام میں مل جائے تو عمر پر دونوں جانوروں کی قربانی کرنا واجب ہے، اس لئے کہ غریب کے قربانی کی نیت سے جانور خریدنے سے اس جانور کی قربانی غریب پر واجب ہوجاتی ہے، اور اگر ایامِ قربانی کے بعد وہ جانور ملے تو اس جانور کا زندہ یا اس کی قیمت صدقہ کر دینا ضروری ہوگا۔

٣) مالدار اور غریب دونوں کے لئے حکم یہی ہے کہ وہ بقیہ رقم صدقہ کردیں اسے استعمال نہ کریں۔

١، ٢،) وَفِي فَتَاوَى أَهْلِ سَمَرْقَنْدَ: الْفَقِيرُ إذَا اشْتَرَى شَاةً لِلْأُضْحِيَّةِ فَسُرِقَتْ فَاشْتَرَى مَكَانَهَا، ثُمَّ وَجَدَ الْأُولَى فَعَلَيْهِ أَنْ يُضَحِّيَ بِهِمَا، وَلَوْ ضَلَّتْ فَلَيْسَ عَلَيْهِ أَنْ يَشْتَرِيَ أُخْرَى مَكَانَهَا، وَإِنْ كَانَ غَنِيًّا فَعَلَيْهِ أَنْ يَشْتَرِيَ أُخْرَى مَكَانَهَا،۔ (البحر الرائق، کتاب الأضحیۃ : ٨/١٩٩)

وَإِذَا اشْتَرَى الْغَنِيُّ أُضْحِيَّةً فَضَلَّتْ فَاشْتَرَى أُخْرَى، ثُمَّ وَجَدَ الْأُولَى فِي أَيَّامِ النَّحْرِ كَانَ لَهُ أَنْ يُضَحِّيَ بِأَيَّتِهِمَا شَاءَ، وَلَوْ كَانَ مُعْسِرًا فَاشْتَرَى شَاةً وَأَوْجَبَهَا ثُمَّ وَجَدَ الْأُولَى قَالُوا: عَلَيْهِ أَنْ يُضَحِّيَ بِهِمَا، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الأضحیۃ : ۵/۲۹۴)

وإن سرقت أو ضلت، فشری أخریٰ ثم وجدہا في أیام النحر، ذبح إحداہما لو غنیًا۔ وکلاہما لو فقیرًا، إلا إذا نواہا عن الأولیٰ، لعدم تعدد الالتزام بالشراء حینئذٍ۔ (الدر المنتقی علی ہامش مجمع الأنہر / کتاب الأضحیۃ ۲؍۵۲۰)

أَنَّ الشِّرَاءَ لِلْأُضْحِيَّةِ مِمَّنْ لَا أُضْحِيَّةَ عَلَيْهِ يَجْرِي مَجْرَى الْإِيجَابِ وَهُوَ النَّذْرُ بِالتَّضْحِيَةِ عُرْفًا؛ لِأَنَّهُ إذَا اشْتَرَى لِلْأُضْحِيَّةِ مَعَ فَقْرِهِ فَالظَّاهِرُ أَنَّهُ يُضَحِّي فَيَصِيرُ كَأَنَّهُ قَالَ: جَعَلْت هَذِهِ الشَّاةَ أُضْحِيَّةً۔ (بدائع الصنائع، أول کتاب التضحیۃ : ٥/٦٢)

٣) وَلَوْ بَاعَ الْأُولَى بِعِشْرِينَ فَزَادَتْ الْأُولَى عِنْدَ الْمُشْتَرِي فَصَارَتْ تُسَاوِي ثَلَاثِينَ عَلَى قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ وَمُحَمَّدٍ - رَحِمَهُمَا اللَّهُ تَعَالَى - بَيْعُ الْأَوْلَى جَائِزٌ، فَكَانَ عَلَيْهِ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِحِصَّةِ زِيَادَةٍ حَدَثَتْ عِنْدَ الْمُشْتَرِي۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الاضحیۃ : ۵/ ۲۹۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 ذی الحجہ 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں