جمعہ، 30 اپریل، 2021

قُرب قیامت میں قرآن مجید کے نسخوں سے آیات کا اٹھالیا جانا

سوال :

مفتی صاحب ابھی ایک پوسٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں قرآن کا ایک صفحہ بالکل خالی ہے اور نیچے لکھا ہوا ہے کہ یہ منظر ایک دن سچ ہوگا۔ لوگ قرآن کھولیں گے، اور اوراق خالی پائیں گے، سارے لفظ اٹھا لیے جائیں گے۔ دوسرا قرآن مجید لیکر آئیں گے۔ تیسرا، چوتھا سب کو خالی پائیں گے۔ جو یاد ہوگا لوگ وہ قرآن دہرائیں گے لیکن افسوس وہ سینوں سے بھی اٹھا لیا گیا جاچکا ہوگا۔ اس دن سب کو احساس ہوگا کہ قرآن کریم کو زمین سے اٹھا لیا گیا ہے، کتابوں سے نکال دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ دن آ جائے، ہمیں اپنی اور اپنی اولادوں کی زندگیوں کو قرآن کریم سے منور کرنا ہوگا۔
براہ کرم اس پوسٹ کی حقیقت سے مطلع فرمائیں۔
(المستفتی : راشد فیض، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آپ کی ارسال کردہ پوسٹ میں مذکور یہ بات درست ہے اور قیامت کی یہ نشانی متعدد معتبر روایات میں بیان کی گئی ہے کہ قیامت کے قریب قرآن کریم کی آیات کو لوگوں کے دلوں کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کےنسخوں سے بھی اٹھا لیا جائے گا۔

روایات ملاحظہ فرمائیں :
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ قرآن تم لوگوں کے درمیان سے کھینچ کر نکال لیا جائے گا، ان سے پوچھا گیا کہ اے ابو عبد الرحمن یہ کیسے ہوگا؟ جب کہ ہم نے قرآن کو دلوں میں محفوظ کر لیا ہے اور مصاحف میں اچھی طرح لکھ دیا ہے، تو انہوں نے جواب دیا : ایک رات کو وہ اٹھا لیا جائے گا، پھر کسی بندے کے دل اور کسی مصحف میں قرآن کا ذرا سا بھی حصہ باقی نہیں رہے گا۔ پھر حضرت ابن مسعود نے یہ آیت پڑھی : وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْہَبَنَّ بِالَّذِیْ اَوْحَیْنَا الخ (اگر ہم چاہیں تو جس قدر آپ پر وحی بھیجی ہے سلب کرلیں، پھر اس کو واپس لانے کے لئے آپ کو ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہ ملے۔ (1)

حضرت عبداللہ روایت کرتے ہیں قرآن کی کثرت سے تلاوت کیا کرو اس سے پہلے کہ اسے اٹھالیا جائے لوگوں نے دریافت کیا ان مصاحف کو اٹھا لیا جائے گا لیکن جو انسانوں کے سینوں میں ہے اس کا کیا ہوگا؟ تو حضرت عبداللہ نے فرمایا ایک رات ایسی آئے گی کہ لوگوں کو قرآن کا علم ہوگا لیکن اگلے دن انہیں اس کا علم نہیں ہوگا۔ وہ لاالہ اللہ پڑھنا بھی بھول چکے ہوں گے اور زمانہ جاہلیت کی باتوں اور اشعار میں مبتلا ہوجائیں گے یہ وہ وقت ہوگا جب قیامت آجائے گی۔ (2)

3) حضرت ابن مسعود بیان کرتے ہیں ایک رات ایسی آئے گی کہ لوگوں کو قرآن کا علم ہوگا اور پھر کسی مصحف میں اور کسی بھی دل میں کوئی آیت نہیں رہنے دی جائے گی ہر ایک آیت کو اٹھا لیا جائے گا۔ (3)

حضرت حذیفہ بن یمان ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسلام پرانا ہو (کرمٹنے کے قریب) ہو جائے گا یہاں تک کہ کسی کو بھی روزہ نماز قربانی اور صدقہ (وغیرہ کے متعلق کسی قسم) کا علم نہ رہے گا اور اللہ کی کتاب ایک ہی رات میں ایسی غائب ہوگی کہ زمین میں اس کی ایک آیت بھی باقی نہ رہے گی اور انسانوں کے کچھ قبائل (یا گروہ) ایسے رہ جائیں گے کہ ان میں بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں کہیں گی ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو یہ کلمہ پڑھتے سنالا الہ الا اللہ اس لئے ہم بھی یہ کلمہ کہتے ہیں حضرت حذیفہ کے شاگرد صلہ نے عرض کیا لا الہ الا اللہ سے انہیں کیا فائدہ ہوگا جب انہیں نماز کا علم ہے نہ روزہ کا نہ قربانی اور صدقہ (ان سب کا مطلقاً) کوئی علم نہیں اس پر حذیفہ ؓ نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا انہوں نے دوبارہ سہ بارہ عرض کیا حذیفہ منہ پھیرتے رہے تیسری مرتبہ میں ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے صلہ !لا الہ الا اللہ انہیں دوزخ سے نجات دلائے گا تین بار یہی فرمایا۔ (4)

1) ابن مسعود رضي اللہ عنہ قال: لینتزعن ہذا القرآن من بین أظہرکم، قیل لہ یا أبا عبد الرحمن! کیف ینتزع وقد أثبتناہ في قلوبنا و أثبتناہ في مصاحفنا، قال: یسری علیہ في لیلة، فلایبقی في قلب عبد ولا مصحف منہ شيء، ویصبح الناس کالبہائم، ثم قرأ قولہ تعالی:۔ وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْہَبَنَّ بِالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ بِہِ عَلَیْنَا وَکِیْلًا (الإسراء: 86) (المعجم الکبیر للطبراني، رقم : ۸۶۹۸)

2) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَكْثِرُوا تِلَاوَةَ الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ قَالُوا هَذِهِ الْمَصَاحِفُ تُرْفَعُ فَكَيْفَ بِمَا فِي صُدُورِ الرِّجَالِ قَالَ يُسْرَى عَلَيْهِ لَيْلًا فَيُصْبِحُونَ مِنْهُ فُقَرَاءَ وَيَنْسَوْنَ قَوْلَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَيَقَعُونَ فِي قَوْلِ الْجَاهِلِيَّةِ وَأَشْعَارِهِمْ وَذَلِكَ حِينَ يَقَعُ عَلَيْهِمْ الْقَوْلُ۔ (سنن دارمی : ۲/۵۳۰)

3) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرٍّ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ لَيُسْرَيَنَّ عَلَى الْقُرْآنِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَلَا يُتْرَكُ آيَةٌ فِي مُصْحَفٍ وَلَا فِي قَلْبِ أَحَدٍ إِلَّا رُفِعَتْ۔ (سنن دارمی، رقم : ۳۳۸۶)

4) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ أَبِي مَالِکٍ الْأَشْجَعِيِّ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْرُسُ الْإِسْلَامُ کَمَا يَدْرُسُ وَشْيُ الثَّوْبِ حَتَّی لَا يُدْرَی مَا صِيَامٌ وَلَا صَلَاةٌ وَلَا نُسُکٌ وَلَا صَدَقَةٌ وَلَيُسْرَی عَلَی کِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي لَيْلَةٍ فَلَا يَبْقَی فِي الْأَرْضِ مِنْهُ آيَةٌ وَتَبْقَی طَوَائِفُ مِنْ النَّاسِ الشَّيْخُ الْکَبِيرُ وَالْعَجُوزُ يَقُولُونَ أَدْرَکْنَا آبَائَنَا عَلَی هَذِهِ الْکَلِمَةِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَنَحْنُ نَقُولُهَا فَقَالَ لَهُ صِلَةُ مَا تُغْنِي عَنْهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَهُمْ لَا يَدْرُونَ مَا صَلَاةٌ وَلَا صِيَامٌ وَلَا نُسُکٌ وَلَا صَدَقَةٌ فَأَعْرَضَ عَنْهُ حُذَيْفَةُ ثُمَّ رَدَّهَا عَلَيْهِ ثَلَاثًا کُلَّ ذَلِکَ يُعْرِضُ عَنْهُ حُذَيْفَةُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْهِ فِي الثَّالِثَةِ فَقَالَ يَا صِلَةُ تُنْجِيهِمْ مِنْ النَّارِ ثَلَاثًا۔ (سنن ابن ماجہ :۲/۱۳۴۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
17 رمضان المبارک 1442

جمعرات، 29 اپریل، 2021

گھر بنانے کے لیے خریدی گئی زمین کو فروخت کرنے کی نیت کرلینا

مفتی صاحب سوال یہ ہے کہ زید نے ایک سال پہلے پلاٹ گھر بنانے کی نیت سے خریدا تھا۔ لیکن اب اِرادہ یہ ہے کہ اس پلاٹ کو بیچ کر اُسی رقم سے دوسری جگہ پلاٹ لیا جائے اور وہاں گھر بنائے۔ کیا اسکی زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی؟
(المستفتی : ڈاکٹر کلیم، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کسی نے مکان بنانے کیلئے زمین خریدی پھر اس کا ارادہ بدل گیا کہ قیمت بڑھ جانے پر اس کو فروخت کردوں گا تو ایسی زمین پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ جب یہ زمین فروخت کردے گا اور سالانہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت یہ رقم اس کے پاس موجود ہوگی تب دیگر اموال کے ساتھ اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی۔

صورتِ مسئولہ میں جبکہ زید نے یہ پلاٹ مکان بنانے کے لیے خریدا تھا تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے، اب اگر بعد میں اس کا ارادہ تبدیل ہوگیا کہ یہ پلاٹ فروخت کرکے دوسری جگہ مکان بنانے کے لیے پلاٹ خریدوں گا تب بھی اس پلاٹ پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔

عَنْ نافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قالَ : لَيْسَ فِی الْعُرُوْضِ  زَكاةٌ إلّا ما كانَ لِلتِّجارَةِ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ التجارۃ، رقم : ۷۶٠٥)

وتُشْتَرَطُ نِيَّةُ التِّجارَةِ فِي العُرُوضِ ولا بُدَّ أنْ تَكُونَ مُقارِنَةً لِلتِّجارَةِ، فَلَوْ اشْتَرى شَيْئًا لِلْقَنِيَّةِ ناوِيًا أنَّهُ إنْ وجَدَ رِبْحًا باعَهُ لا زَكاةَ عَلَيْهِ۔ (الاشباہ والنظائر : ۱/١٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 رمضان المبارک 1442

بدھ، 28 اپریل، 2021

عشاء پڑھے بغیر تراویح اور وتر ادا کرلینے کا حکم

سوال :

زید نے عشاء کی نماز نہیں پڑھی اور تراویح میں شامل ہوگیا اور امام کے ساتھ وتر بھی پڑھ لی تو کیا زید کی تراویح اور وتر ادا ہوگئی یا پھر عشاء پڑھ کر تراویح اور وتر پڑھنی ہوگی؟
(المستفتی : حافظ عتیق، واگلہ)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تراویح عشاء کے تابع ہے۔ لہٰذا زید پر ضروری تھا کہ وہ عشاء کی چار رکعت فرض پڑھنے کے بعد ہی تراویح میں شامل ہوتا۔ فرض نماز ادا کیے بغیر تراويح ادا نہیں ہوگی۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں تراویح کا اعادہ کیا جائے گا۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک وتر اگرچہ عشاء کے تابع نہیں ہے، بلکہ مستقل ایک نماز ہے۔ لیکن اس میں ترتیب قائم رکھنا واجب ہے، یعنی عشاء کے بعد ہی وتر پڑھنا چاہیے، لہٰذا اگر کسی نے قصداً وتر عشاء سے پہلے پڑھ لی جیسا کہ سوال نامہ میں زید نے کیا ہے تو اس کی وتر بھی ادا نہیں ہوئی، لہٰذا وہ تراویح کے ساتھ ساتھ وتر کا بھی اعادہ کرے گا۔

نوٹ : اگر بھول کر کوئی شخص وتر عشاء سے پہلے پڑھ لے یا کسی کی عشاء کی نماز فاسد ہوگئی ہو تو پھر ایسی صورت میں وتر کا اعادہ واجب نہیں ہوگا۔

وعند أبي حنیفۃ : وقتہ وقت العشاء، فإن قیل: لو کان وقت الوتر وقت العشاء لجاز تقدیمہ علی العشاء أجاب بقولہ: إلا أنہ لا یقدم علیہ عند التذکر یعني إذا لم یکن ناسیا للترتیب، وعلی ہذا إذا أوتر قبل العشاء متعمدا أعاد الوتر بلا خلاف، وإن أوتر ناسیا للعشاء، ثم تذکر لا یعیدہ؛ عندہ؛ لأن النسیان یسقط الترتیب، ویعیدہ عندہما؛ لأنہ سنۃ العشاء کرکعتي العشاء، فلو قدم الرکعتین علی العشاء لم یجز عامدا کان أو ناسیا، فکذلک الوتر۔ (عنایۃ علی الفتح، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الوتر، زکریا ۱/ ۲۲۶)

إن أوتر في وقت العشاء قبل أن یصلی العشاء، وہو ذاکر لذلک لم یجز بالإتفاق۔ وفي الکافي: ولو صلی العشاء بلا وضوء، ثم توضأ وصلی السنۃ والوتر، ثم علم أنہ صلی العشاء بلا وضوء یعید العشاء عندہ والسنۃ، ولا یعید الوتر، وعندہما یعید الوتر أیضا۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ، الفصل ۱۰، قضاء الفائتۃ، زکریا ۲/ ۴۵۰، رقم: ۲۹۵۰)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
15 رمضان المبارک 1442

پیر، 26 اپریل، 2021

قنوتِ نازلہ میں مقتدیوں کا جوابًا درود پڑھنا

سوال :

مفتی صاحب ! اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ مبارک آجائے مسنون دعا کے دوران قنوت نازلہ پڑھتے ہوئے، اور مقتدی درود شریف پڑھ لے (نماز میں) تو نماز کی صحت پر کوئی اثر تو نہیں ہوگا؟
(المستفتی : حافظ سعد فردوسی، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز کی حالت میں اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نامِ مبارک سن لے تو جواباً درود شریف نہیں پڑھنا چاہیے۔ لہٰذا نماز کے دوران قنوتِ نازلہ میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا نامِ مبارک آجائے تو مقتدیوں کو درود شریف نہیں پڑھنا چاہیے۔ اگر کسی مقتدی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نامِ مبارک سن کر جواباً درود شریف پڑھ دیا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ کیونکہ سوال وجواب کی نوعیت کی وجہ سے یہ بات کلام الناس (انسان کی باہمی گفتگو) کے قبیل سے ہوگئی اور گفتگو یعنی بات چیت سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔

اسی طرح اگر امام نے نماز میں قرآنِ کریم کی آیت ‌‌‌" ‌ان اللہ و ملئکتہ الخ یا‌‌ " ‌‌محمد رسول اﷲ والذین معہ" ‌‌کو نماز میں پڑھا اور مقتدی نے فوراً درود شریف پڑھ دیا، تو مقتدی کی نماز فاسد ہوجائے گی، لہٰذا جن نمازوں میں ایسا کیا گیا ہے ان نمازوں کا اعادہ ضروری ہے۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام سنے بغیر درود پڑھ دے تو نماز فاسد نہ ہوگی، اس لئے کہ یہاں سوال و جواب اور باہمی گفتگو کی صورت نہیں پائی جاتی۔

نوٹ : یہ مسئلہ اہمیت کا حامل ہے، لہٰذا قنوتِ نازلہ پڑھنے والے ائمہ مقتدیوں کو اس سے باخبر کردیں۔

ولو صلی علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الصلاۃ ان لم یکن جوابا لغیرہ لاتفسدصلاتہ وان سمع اسم النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال جوابا لہ تفسدصلاتہ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۹۹/۱)

اذا سمع اسم النبی ﷺ فصلی علیہ فہذا اجابۃ فتفسد وان صلی علیہ ولم یسمع اسمہ لاتفسد۔ (بحرالرائق، ٥/٢، باب مایفسد الصلوۃ، ومایکرہ فیہا)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 رمضان المبارک 1442

مباہلہ کی شرعی حیثیت

سوال :

مفتی صاحب! مباہلہ کسے کہتے ہیں؟ مباہلہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی مرتبہ مباہلہ کیا ہے؟  جواب مطلوب ہے۔
(المستفتی : صغیر احمد، جلگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کوئی ایسا معاملہ جس کے حق وباطل میں دو فریق کے درمیان نزاع ہوجائے اور دلائل سے نزاع اور جھگڑا ختم نہ ہو تو پھر ان کا یہ طریقہ اختیار کرنا کہ دونوں فریق مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ جو اس معاملہ میں باطل پر ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہلاکت ہو، سو جو شخص جھوٹا ہوگا وہ اس کا خمیازہ بھگتے گا۔ اس طور پر دعا کرنے کو مباہلہ کہتے ہیں اور یہ ضرورت کے وقت شرعاً جائز اور درست ہے۔ کیونکہ مباہلہ نبی کریم صلی اللہ  علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے  بعد بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد کے زمانوں میں مباہلہ کرنا ثابت ہے۔ لہٰذا آج بھی اگر کوئی انتہائی اہم معاملہ میں مباہلہ کرنا چاہے، تو شرعاً اس کی اجازت موجود ہے۔ البتہ جو مسائل ائمہ مجتہدین کے درمیان مختلف فیہ ہیں۔ ان میں مباہلہ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ ان میں حق عنداللہ ہمیں نامعلوم ہے۔ ہر ایک کے حق عنداللہ ہونے کا احتمال موجود ہے۔ نیز جھوٹے معاملہ میں دھوکا دینے کے لیے ہرگز مباہلہ نہیں کرنا چاہیے، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے مباہلہ کے حوالہ سے تجربہ نقل کیا ہے کہ ناحق مباہلہ کرنے والے کو مباہلہ  کے بعد سال بھر بھی جینا نصیب نہیں ہوتا، یعنی سال مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ 

شہر نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آیا تھا اس نے آپ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدائی پر بحث کی، جس کا اطمینان بخش جواب قرآن کریم کی طرف سے سورہ آلِ عمران کی آیات میں دے دیا گیا، جب وہ کھلے دلائل کے باوجود اپنی گمراہی پر اصرار کرتے رہے تو انہیں آیات میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا کہ وہ انہیں مباہلے کی دعوت دیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو یہ دعوت دی اور خود اس کے لئے تیار ہو کر اپنے اہل بیت کو بھی جمع فرمالیا لیکن عیسائیوں میں سے ایک نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ان سے مباہلہ مت کرنا اللہ کی قسم! اگر وہ نبی ہوا اور ہم نے مباہلہ کیا تو ہم اور ہمارے بعد ہماری اولاد کبھی فلاح نہیں پا سکتے، چنانچہ یہ وفد مباہلے سے فرار اختیار کرگیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مباہلہ کے لیے تیار تو ہوئے تھے، لیکن مد مقابل کے راہ فرار اختیار کرلینے کی وجہ سے باقاعدہ مباہلہ کی نوبت ہی نہیں آئی۔

وَذَكَرَ فِي الْبَحْرِ مَا يَدُلُّ عَلَى الْجَوَازِ بِمَا فِي عِدَّةِ غَايَةِ الْبَيَانِ مِنْ أَنَّ الْمُبَاهَلَةَ مَشْرُوعَةٌ فِي زَمَانِنَا وَهِيَ الْمُلَاعَنَةُ، كَانُوا يَقُولُونَ إذَا اخْتَلَفُوا فِي شَيْءٍ: بَهْلَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِ مِنَّا۔ (شامی : ٣/٤٨٨)

وَفِيهَا مَشْرُوعِيَّةُ مُبَاهَلَةِ الْمُخَالِفِ إِذَا أصر بعد ظُهُور الْحجَّة، وَ قد دَعَا بن عَبَّاسٍ إِلَى ذَلِكَ، ثُمَّ الْأَوْزَاعِيُّ، وَ وَقَعَ ذَلِكَ لِجَمَاعَةٍ مِنَ الْعُلَمَاءِ، وَ مِمَّا عُرِفَ بِالتَّجْرِبَةِ أَنَّ مَنْ بَاهَلَ وَكَانَ مُبْطِلًا لَاتَمْضِي عَلَيْهِ سَنَةٌ مِنْ يَوْمِ الْمُبَاهَلَةِ، وَ وَقَعَ لِي ذَلِكَ مَعَ شَخْصٍ كَانَ يَتَعَصَّبُ لِبَعْضِ الْمَلَاحِدَةِ فَلَمْ يَقُمْ بَعْدَهَا غَيْرَ شَهْرَيْنِ۔ (فتح الباری : ٨/٩٥)

حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ الْحُسَيْنِ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ جَائَ الْعَاقِبُ وَالسَّيِّدُ صَاحِبَا نَجْرَانَ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدَانِ أَنْ يُلَاعِنَاهُ قَالَ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ لَا تَفْعَلْ فَوَاللَّهِ لَئِنْ کَانَ نَبِيًّا فَلَاعَنَّا لَا نُفْلِحُ نَحْنُ وَلَا عَقِبُنَا مِنْ بَعْدِنَا قَالَا إِنَّا نُعْطِيکَ مَا سَأَلْتَنَا وَابْعَثْ مَعَنَا رَجُلًا أَمِينًا وَلَا تَبْعَثْ مَعَنَا إِلَّا أَمِينًا فَقَالَ لَأَبْعَثَنَّ مَعَکُمْ رَجُلًا أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ فَاسْتَشْرَفَ لَهُ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ قُمْ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ فَلَمَّا قَامَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا أَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ۔ (بخاری)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 رمضان المبارک 1442

اتوار، 25 اپریل، 2021

کن رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں؟

سوال :

مفتی صاحب ! وہ کون کون سے رشتہ دار ہیں جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے؟ مفصل و مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : راشد حسین، دھولیہ)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اصول (ماں باپ دادا دادی نانا نانی) فروع (بیٹا بیٹی پوتا پوتی نواسہ نواسی) کو صدقۂ واجبہ یعنی زکوٰۃ، صدقۂ فطر، کفارہ اور فدیہ کی رقم اگرچہ یہ مستحق زکوٰۃ ہوں تب بھی انہیں دینا جائز نہیں۔ اسی طرح میاں بیوی کا آپس میں ایک دوسرے کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔ بلکہ ان کی مدد عطیہ سے کی جائے گی۔ ان کے علاوہ دیگر رشتہ دار مثلاً بھائی، بہن، خالہ، پھوپھی، ساس، سسر، وغیرہ اگر مستحق زکوٰۃ ہوں تو انہیں زکوٰۃ، صدقۂ فطر، فدیہ وغیرہ کی رقم دے سکتے ہیں، بلکہ انہیں دینا افضل ہے۔

(قَوْلُهُ فَلَا يَدْفَعُ لِأَصْلِهِ) أَيْ وَإِنْ عَلَا، وَفَرْعِهِ وَإِنْ سَفَلَ، وَكَذَا لِزَوْجَتِهِ وَزَوْجِهَا وَعَبْدِهِ وَمُكَاتِبِهِ لِأَنَّهُ بِالدَّفْعِ إلَيْهِمْ لَمْ تَنْقَطِعْ الْمَنْفَعَةُ عَنْ الْمُمَلَّكِ: أَيْ الْمُزَكَّى مِنْ كُلِّ وَجْهٍ (قَوْلُهُ لِلَّهِ تَعَالَى) مُتَعَلِّقٌ بِتَمْلِيكِ أَيْ لِأَجْلِ امْتِثَالِ أَمْرِهِ - تَعَالَى (قَوْلُهُ: بَيَانٌ لِاشْتِرَاطِ النِّيَّةِ) فَإِنَّهَا شَرْطٌ بِالْإِجْمَاعِ فِي مَقَاصِدِ الْعِبَادَاتِ كُلِّهَا بَحْرٌ۔ (شامی : ٢/٢٥٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 رمضان المبارک 1442

جمعرات، 22 اپریل، 2021

ہمیشہ بدن پر موجود زیورات کی زکوٰۃ کا حکم

سوال :

سلمٰی کے پاس دس تولہ یا اس سے زیادہ سونا ہے جو زیور کی شکل میں ہے اور وہ ان زیوروں کو ہمیشہ پہنے ہوئے رہتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ میں یہ زیورات دن رات پہنتی ہوں اس لیے مجھے ان کی زکوٰۃ نہیں ادا کرنا ہے۔ کیونکہ جو زیورات ہمیشہ پہنے جاتے ہیں خواہ وہ کئی تولہ ہوں ان کی زکوٰۃ نہیں ادا کرنا ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف ان زیورات کی زکوٰۃ ہم پر فرض ہے جو کبھی کبھی پہنے جائیں؟ ہمیشہ بدن پر موجود زیورات کی زکوٰۃ نہیں ہوتی؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عبدالرحمن، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سونا چاندی کو شریعتِ مطہرہ نے مال نامی شمار کیا ہے، یعنی ایسا مال جس میں نمو وبڑھوتری پائی جاتی ہے اور ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذا یہ دونوں دھاتیں کسی بھی شکل میں ہوں، خواہ زیورات کی شکل میں ہوں یا اینٹ، بسکٹ اور ڈلے کی شکل میں ہوں، اسی طرح زیورات ہمیشہ بدن پر رہتے ہوں یا کبھی کبھار پہنا جاتا ہو ان پر ہر سال زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سلمہ کی بات بالکل بھی درست نہیں ہے۔ اس پر ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام زیورات کی زکوٰۃ ادا کرے، ورنہ سخت گناہ گار ہوگی، نیز زکوٰۃ نہ ادا کرنے میں اس بات کا اندیشہ بھی ہے کہ اس کا مال محفوظ نہیں رہے گا۔

وینقسم کل واحد منہما إلی قسمین : خلقی وفعلی، ہٰکذا فی التبیین۔ فالخلقی الذہب والفضۃ …، والفعلی ما سواہما ویکون الاستنماء فیہ بنیۃ التجارۃ الخ۔ (بدائع الصنائع : ۲؍۹۲)

عن علي رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال : إذا کانت لک مائتا درہم وحال علیہا الحول ففیہا خمسۃ دراہم، ولیس علیک شيء یعنی في الذہب حتی تکون لک عشرون دیناراً۔ (سنن أبي داؤد، الزکاۃ / باب في زکاۃ السائمۃ ۱؍۲۲۱)

فأما إذا کان لہ ذہب مفرد فلا شيء فیہ حتی یبلغ عشرین مثقالا۔ (بدائع الصنائع : ۲؍۱۰۵)

ونصاب الذہب عشرون مثقالاً، والفضۃ مائتا درہم، کل عشرۃ دراہم وزن سبعۃ مثاقیل۔ (الدرالمختار، الزکاۃ / باب زکاۃ المال ۲؍۲۹۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 رمضان المبارک 1442

بدھ، 21 اپریل، 2021

نماز پڑھتے ہوئے کسی اور سے آیت سجدہ سن لے

سوال :

مفتی صاحب فجر کی نماز میں پہلی رکعت میں امام صاحب نے آیتِ سجدہ تلاوت کی اب جو اس وقت سنت نماز ادا کر رہے ہیں تو ان کو نماز کے بعد سجدہ کرنا ہوگا یا نہیں؟ براہ کرم رہبری فرمائیں۔
(المستفتی : وسیم بھائی، منماڑ)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا تھا اسی دوران اس نے کسی دوسرے شخص سے آیتِ سجدہ سنی تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ نماز میں سجدۂ تلاوت نہیں کرے گا بلکہ نماز سے فارغ ہوکر سجدہ کرے گا، اور اگر اس نے نماز میں سجدہ کرلیا تو یہ سجدہ کافی نہ ہوگا، بعد میں اس کا دوہرانا ضروری ہوگا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جن لوگوں نے سنت پڑھتے ہوئے امام صاحب سے آیتِ سجدہ سن لی ہے تو اب ان پر نماز کے بعد سجدۂ تلاوت ادا کرنا واجب ہے۔

(وَلَوْ سَمِعَ الْمُصَلِّي) السَّجْدَةَ (مِنْ غَيْرِهِ لَمْ يَسْجُدْ فِيهَا) لِأَنَّهَا غَيْرُ صَلَاتِيَّةٍ (بَلْ) يَسْجُدُ (بَعْدَهَا) لِسَمَاعِهَا مِنْ غَيْرِ مَحْجُورٍ (وَلَوْ سَجَدَ فِيهَا لَمْ تُجْزِهِ) لِأَنَّهَا نَاقِصَةٌ لِلنَّهْيِ فَلَا يَتَأَدَّى بِهَا الْكَامِلُ (وَأَعَادَهُ) أَيْ السُّجُودَ لِمَا مَرَّ، الخ (دُونَهَا) أَيْ الصَّلَاةِ الخ۔ (شامی : ٢/١١٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 رمضان المبارک 1442