پیر، 26 اپریل، 2021

مباہلہ کی شرعی حیثیت

سوال :

مفتی صاحب! مباہلہ کسے کہتے ہیں؟ مباہلہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی مرتبہ مباہلہ کیا ہے؟  جواب مطلوب ہے۔
(المستفتی : صغیر احمد، جلگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کوئی ایسا معاملہ جس کے حق وباطل میں دو فریق کے درمیان نزاع ہوجائے اور دلائل سے نزاع اور جھگڑا ختم نہ ہو تو پھر ان کا یہ طریقہ اختیار کرنا کہ دونوں فریق مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ جو اس معاملہ میں باطل پر ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہلاکت ہو، سو جو شخص جھوٹا ہوگا وہ اس کا خمیازہ بھگتے گا۔ اس طور پر دعا کرنے کو مباہلہ کہتے ہیں اور یہ ضرورت کے وقت شرعاً جائز اور درست ہے۔ کیونکہ مباہلہ نبی کریم صلی اللہ  علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے  بعد بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد کے زمانوں میں مباہلہ کرنا ثابت ہے۔ لہٰذا آج بھی اگر کوئی انتہائی اہم معاملہ میں مباہلہ کرنا چاہے، تو شرعاً اس کی اجازت موجود ہے۔ البتہ جو مسائل ائمہ مجتہدین کے درمیان مختلف فیہ ہیں۔ ان میں مباہلہ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ ان میں حق عنداللہ ہمیں نامعلوم ہے۔ ہر ایک کے حق عنداللہ ہونے کا احتمال موجود ہے۔ نیز جھوٹے معاملہ میں دھوکا دینے کے لیے ہرگز مباہلہ نہیں کرنا چاہیے، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے مباہلہ کے حوالہ سے تجربہ نقل کیا ہے کہ ناحق مباہلہ کرنے والے کو مباہلہ  کے بعد سال بھر بھی جینا نصیب نہیں ہوتا، یعنی سال مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ 

شہر نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آیا تھا اس نے آپ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدائی پر بحث کی، جس کا اطمینان بخش جواب قرآن کریم کی طرف سے سورہ آلِ عمران کی آیات میں دے دیا گیا، جب وہ کھلے دلائل کے باوجود اپنی گمراہی پر اصرار کرتے رہے تو انہیں آیات میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا کہ وہ انہیں مباہلے کی دعوت دیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو یہ دعوت دی اور خود اس کے لئے تیار ہو کر اپنے اہل بیت کو بھی جمع فرمالیا لیکن عیسائیوں میں سے ایک نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ان سے مباہلہ مت کرنا اللہ کی قسم! اگر وہ نبی ہوا اور ہم نے مباہلہ کیا تو ہم اور ہمارے بعد ہماری اولاد کبھی فلاح نہیں پا سکتے، چنانچہ یہ وفد مباہلے سے فرار اختیار کرگیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مباہلہ کے لیے تیار تو ہوئے تھے، لیکن مد مقابل کے راہ فرار اختیار کرلینے کی وجہ سے باقاعدہ مباہلہ کی نوبت ہی نہیں آئی۔

وَذَكَرَ فِي الْبَحْرِ مَا يَدُلُّ عَلَى الْجَوَازِ بِمَا فِي عِدَّةِ غَايَةِ الْبَيَانِ مِنْ أَنَّ الْمُبَاهَلَةَ مَشْرُوعَةٌ فِي زَمَانِنَا وَهِيَ الْمُلَاعَنَةُ، كَانُوا يَقُولُونَ إذَا اخْتَلَفُوا فِي شَيْءٍ: بَهْلَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِ مِنَّا۔ (شامی : ٣/٤٨٨)

وَفِيهَا مَشْرُوعِيَّةُ مُبَاهَلَةِ الْمُخَالِفِ إِذَا أصر بعد ظُهُور الْحجَّة، وَ قد دَعَا بن عَبَّاسٍ إِلَى ذَلِكَ، ثُمَّ الْأَوْزَاعِيُّ، وَ وَقَعَ ذَلِكَ لِجَمَاعَةٍ مِنَ الْعُلَمَاءِ، وَ مِمَّا عُرِفَ بِالتَّجْرِبَةِ أَنَّ مَنْ بَاهَلَ وَكَانَ مُبْطِلًا لَاتَمْضِي عَلَيْهِ سَنَةٌ مِنْ يَوْمِ الْمُبَاهَلَةِ، وَ وَقَعَ لِي ذَلِكَ مَعَ شَخْصٍ كَانَ يَتَعَصَّبُ لِبَعْضِ الْمَلَاحِدَةِ فَلَمْ يَقُمْ بَعْدَهَا غَيْرَ شَهْرَيْنِ۔ (فتح الباری : ٨/٩٥)

حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ الْحُسَيْنِ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ جَائَ الْعَاقِبُ وَالسَّيِّدُ صَاحِبَا نَجْرَانَ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدَانِ أَنْ يُلَاعِنَاهُ قَالَ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ لَا تَفْعَلْ فَوَاللَّهِ لَئِنْ کَانَ نَبِيًّا فَلَاعَنَّا لَا نُفْلِحُ نَحْنُ وَلَا عَقِبُنَا مِنْ بَعْدِنَا قَالَا إِنَّا نُعْطِيکَ مَا سَأَلْتَنَا وَابْعَثْ مَعَنَا رَجُلًا أَمِينًا وَلَا تَبْعَثْ مَعَنَا إِلَّا أَمِينًا فَقَالَ لَأَبْعَثَنَّ مَعَکُمْ رَجُلًا أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ فَاسْتَشْرَفَ لَهُ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ قُمْ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ فَلَمَّا قَامَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا أَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ۔ (بخاری)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
13 رمضان المبارک 1442

2 تبصرے: