پیر، 5 اپریل، 2021

اسکول میں بچوں کو ملنے والے اناج سے متعلق دوسرا جواب

سوال :

محترم مفتی صاحب ! اسکولوں میں بچوں کو ملنے والے اناج سے متعلق آپ نے جواب لکھا تھا کہ گھر والوں کے لیے اس کا بدل دیئے بغیر استعمال درست نہیں ہے۔ جبکہ شہر کے ایک بڑے مفتی صاحب نے فتوی دیا ہے کہ بغیر بدل دیئے اس کا استعمال گھر والوں کے لیے جائز ہے۔ ان کا فتوی بھی آپ کو ارسال کررہا ہوں، آپ سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ اس مسئلہ پر دوبارہ نظر فرماکر تشفی فرمادیں۔ جزاکم اللہ خیرا
(المستفتی : محمد عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آپ کا ارسال کردہ فتوی الحمدللہ بغور پڑھا گیا۔ اس سلسلے میں سب پہلی بات تو یہ سمجھ لی جائے کہ اس مسئلہ کا دارومدار اصلاً اس بات پر ہے کہ حکومت یہ اناج کس کو دے رہی ہے؟ اگر کسی ذریعے سے حکومت کی منشاء معلوم ہوجائے کہ یہ اناج والدین کو دیا جارہا ہے تو پھر کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں یہ اناج والدین کا ہوا، لہٰذا تمام گھر والے اسے استعمال کرسکتے ہیں۔ اور آپ کے ارسال کردہ فتوی کا پہلا حکم اسی کے مطابق ہے۔

لیکن اگر یہ بچوں کو دیا جارہا ہے تو پھر یہ بچوں کی ملکیت ہوا، لہٰذا بچوں کو اس کا بدل دیئے بغیر گھر والوں کا اسے استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں مڈ ڈے میل کی ویب سائٹ سے جو معلومات ملی ہیں وہ یہ ہیں کہ پرائمری اسکولوں میں حاضری برقرار رکھنے اور حاضری بڑھانے اور بیک وقت بچوں میں غذائیت کی سطح کو بہتر بنانے کے لیے اس اسکیم کو شروع کیا گیا ہے جس کے لیے کھچڑی وغیرہ بنا کر بچوں کو اسکول میں ہی کھلا دیا جاتا تھا، فی الحال اسکولیں بند ہیں، لہٰذا حکومت نے بچوں کی عمر اور کلاس کے حساب سے ایک مخصوص پیمانہ روز کی خوراک کے حساب سے مقرر کیا ہے مثلاً سو گرام روزآنہ کے حساب سے بچوں کو ان کے سرپرستوں کی دستخط سے دیا جارہا ہے تاکہ اس میں بدعنوانی وغیرہ کا اندیشہ نہ رہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اناج بچوں کے لیے ہی ہے، اسے گھر والوں کے لیے بھی سمجھنے سے حکومت کا مقصد فوت ہوتا ہے۔ نیز یہ اگر یہ گھر والوں کے لیے بھی ہوتا تو پھر اس کی مقدار میں فیملی ممبران کے حساب سے کمی بیشی بھی کی جاتی جبکہ ایسا نہیں ہے۔ چنانچہ ہم نے اپنے پہلے جواب میں اسی کے مطابق حکم لکھا ہے اور ہم اب بھی اسی پر قائم ہیں۔

آپ کے ارسال کردہ جواب میں فتاوی تاتارخانیہ سے امام محمد رحمہ اللہ کا جو قول نقل کیا گیا ہے کہ کسی نابالغ بچے کو کھانے کی چیز ہدیہ کی گئی ہوتو اس میں سے والد کا کھانا جائز ہے۔ تو معلوم ہونا چاہیے کہ امام محمد رحمہ اللہ کا یہ قول رُوِیَ کے صیغہ مجہول کے ساتھ مذکور ہے۔ اور ارباب افتاء اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ایسا قول ضعیف اور کمزور ہوتا ہے۔ اور ان کے بالمقابل مشائخ کی اکثریت ناجائز کی طرف گئی ہے۔ نیز اس کے بعد والے مسئلہ میں اس کی وضاحت بھی موجود ہے کہ والدین کے لیے اس کا کھانا اس لیے جائز ہے کہ وہ اصلاً والدین کو ہی ہبہ کیا گیا تھا، اور بچے کا ذکر درمیان میں لانا فقط ہدیہ کو حقیر خیال کرنے کی وجہ سے ہے۔ یہ تمام باتیں فتاوی تاتارخانیہ کے علاوہ ہندیہ میں بھی موجود ہیں، لیکن آپ کے ارسال کردہ جواب میں ان باتوں کی وضاحت نہیں کی گئی، بلکہ صرف امام محمد رحمہ اللہ کا قول نقل کرکے حکم لگا دیا گیا ہے جو بلاشبہ اس اہم مسئلہ میں دلیل بننے کے لیے کافی نہیں ہے۔

پھر علامہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بوادر النوادر میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ امام محمد رحمہ اللہ کا بھی یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر والد بچے کے مال سے بلاضرورت کچھ خرچ کردے تو یہ اس پر قرض ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو مطبوعہ کتب فتاوی میں اسی کے مطابق اکابر مفتیان کرام نے متعدد جوابات لکھے ہیں، جن میں سے دو مثالیں درج ذیل ہیں۔

فقیہ الامت مفتی محمود الحسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
سوال : ایک نابالغ بچہ جس کی نگرانی کے لئے ایک عاقل بالغ شخص مقرر کیا گیا ہے ، اس بچہ کی موہوب متصدق مباح یاکسی اورطرح کی مملوک چیزوں میں سے وہ نگراں بچہ کی اجازت کے ساتھ کچھ لے سکتاہے ، جبکہ بچہ عاقل وصحیح ہے ،اورجبکہ نگراں کے نہ لینے سے اس کو رنج ہوتاہے، اور اظہار غم کرتا ہے؟
الجواب حامداًومصلیاً
نابالغ کی اجازت غیرمعتبر ہے اوراس کی دلداری کی وجہ سے ناجائز کام جائز نہیں ہوتا ،’’واما مایرجع الی الواہب فہوان یکون الواہب من اہل الہبۃ وکونہ من اہلہا ان یکون حراً عاقلاً بالغاً مالکاً للموہوب حتی لوکان عبداً اومکاتباً اومدبراً اوام ولد ومن فی رقبتہ شئی من الرق اوکان صغیراً اومجنوناً اولایکون مالکاً للموہوب لایصح ہکذا فی النہایۃ ۱ھ (عالمگیری ،ص۳۷۲؍ ج۲؍) (فتاوی محمودیہ : ٢٥/٤٣٩)

پاکستان کے انتہائی مؤقر اور معتبر ادارہ جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن کا فتویٰ ہے :
بچوں کو ملنے والی عیدی و انعام بچوں کی ملکیت ہے، لہٰذا اسے والدین اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لاسکتے بلکہ ان ہی کی ضروریات میں خرچ کرنا لازم ہے۔ (فتوی نمبر : 144110200786)

درج بالا دلائل سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ نابالغ کا ہبہ معتبر نہیں ہے خواہ وہ والدین ہی کو کیوں نہ کیا جارہا ہو، لہٰذا اگر اس اناج کو والدین بھی استعمال کرتے ہیں یا غریبوں میں تقسیم کرتے ہیں تو اس کی گنجائش تو ہے۔ البتہ انہیں بچوں کو اس کی مناسب قیمت دینا ضروری ہے۔

اب رہی بات حدیث شریف کہ آسانی پیدا کرو، مشکلات پیدا مت کرو، تو اس سلسلے میں بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جب شریعت کے کسی حکم کو اپنی جگہ پر باقی رکھتے ہوئے آسانی پیدا کی جاسکتی ہے (جیسا کہ ہم نے اپنے پہلے جواب اور ویڈیو میں اس کا آسان حل پیش کردیا ہے)  تو پھر اسے تبدیل کردینے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟

ملحوظ رہنا چاہیے کہ یہ مسئلہ حقوق العباد سے متعلق ہے، لہٰذا احتیاط بہرحال اسی میں ہے کہ آدمی بچوں کو جیب خرچ یا دیگر اخراجات میں اس اناج کی قیمت دینے کی نیت کرلے۔ اور صرف نیت کرلینے میں اسے کسی بھی قسم کی دقت اور حرج کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا یعنی اسے کوئی زائد کام نہیں کرنا ہے یا زائد رقم نہیں دینا ہے صرف مذکورہ نیت کرنا ہے۔ اور ایسا کرلینے سے وہ ایک اختلافی چیز سے ضرور بچ جائے گا۔

وَأَمَّا مَا يَرْجِعُ إلَى الْوَاهِبِ فَهُوَ أَنْ يَكُونَ الْوَاهِبُ مِنْ أَهْلِ الْهِبَةِ، وَكَوْنُهُ مِنْ أَهْلِهَا أَنْ يَكُونَ حُرًّا عَاقِلًا بَالِغًا مَالِكًا لِلْمَوْهُوبِ حَتَّى لَوْ كَانَ عَبْدًا أَوْ مُكَاتَبًا أَوْ مُدَبَّرًا أَوْ أُمَّ وَلَدٍ أَوْ مَنْ فِي رَقَبَتِهِ شَيْءٌ مِنْ الرِّقِّ أَوْ كَانَ صَغِيرًا أَوْ مَجْنُونًا أَوْ لَا يَكُونُ مَالِكًا لِلْمَوْهُوبِ لَا يَصِحُّ، هَكَذَا فِي النِّهَايَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، باب الہبۃ، ٤/٣٧٤)

(وَشَرَائِطُ صِحَّتِهَا فِي الْوَاهِبِ الْعَقْلُ وَالْبُلُوغُ وَالْمِلْكُ) فَلَا تَصِحُّ هِبَةُ صَغِيرٍ وَرَقِيقٍ، وَلَوْ مُكَاتَبًا۔ (شامی، کتاب الہبۃ، ٥/٦٨٧)

ولو لہ اب وطفل فالطفل احق بہ وقیل (بصیغۃ المتمریض) یقسمھا فیھما فی کتاب الآثار للامام محمد رحمہ اللہ عن عائشۃ قالت افضل ما اکلتم کسبکم وان اولادکم من کسبکم قال محمد لا بأس بہ اذا کان محتاجا ان یاکل من مال ابنہ بالمعروف فان کان غنیا فاخذ منہ شئیا فھو دین علیہم وھو قول ابی حنیفۃ ومحمد رحمہما اللہ۔ قال اخبرنا ابو حنیفۃ عن حماد عن ابراہیم قال لیس الاب من مال ابنہ الا ان یحتاج الیہ من طعام او شراب او کسوۃ قال محمد وبہ ناخذ وھو قول ابی حنیفۃ رحمہ اللہ فی کنز العمال عن الحاکم وغیرہ ان اولادکم ھبۃ اللہ تعالیٰ لکم یھب لمن یشاء اناثاً ویھب لمن یشاء الذکور فھم واموالہم لکم اذا حتجتم الیہا۱ھ قلت دل قولہ علیہ السلام فی الحدیث اذا حتجتم علی تقیید الامام محمد رحمہ اللہ قول عائشۃ رضی اللہ عنہا ان اولادکم من کسبکم بما اذا کان محتاجا ویلزم التقیید کونہ دینا علیہ اذا اخذ من غیر حاجۃ کما ھو ظاہر۔ (بوادر النوادر : ٤٤١)

إذَا وَهَبَ لِلصَّغِيرِ شَيْئًا مِنْ الْمَأْكُولِ، قَالَ مُحَمَّدٌ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -: يُبَاحُ لِوَلَدَيْهِ أَنْ يَأْكُلَا مِنْهُ، وَقَالَ أَكْثَرُ مَشَايِخِ بُخَارَى رَحِمَهُمْ اللَّهُ تَعَالَى -: لَا يَحِلُّ، كَذَا فِي السِّرَاجِيَّةِ. وَأَكْثَرُ مَشَايِخِ بُخَارَى عَلَى أَنَّهُ لَا يُبَاحُ، كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ۔أَهْدَى لِلصَّغِيرِ الْفَوَاكِهَ يَحِلُّ لِوَالِدَيْهِ أَكْلُهَا؛ لِأَنَّ الْإِهْدَاءَ إلَيْهِمَا، وَذِكْرُ الصَّبِيِّ لِاسْتِصْغَارِ الْهَدِيَّةِ۔ (ہندیہ : ٤/٣٨٣)

وسئل علی رضی اللہ عنہ من التوبۃ فقال یجمعھا ستۃ اشیاء علی الماضی عن الذنوب الندامۃ وللفرائض الاعادۃ ورد المظالم واستحلال الخصوم وان تعزم علی ان لاتعودوان تربی نفسک فی طاعۃ اللہ کماربیتہا فی معصیۃ انتہی۔ (تفسیر بیضاوی)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 شعبان المعظم 1442

ویڈیو میں بیان کیا گیا مسئلہ یہاں دیکھیں 
https://youtu.be/sG_0Eq6AD7E

پہلاجواب یہاں سے ملاحظہ فرمائیں 
https://aamirusmanimilli.blogspot.com/2021/03/blog-post_24.html

9 تبصرے:

  1. یہ اناج بچوں کے لیے ہی ہوتا ہے..

    جواب دیںحذف کریں
  2. جزاكم اللّٰہ خيراً و احسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں
  3. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. کامران حسَّان انصاری5 اپریل، 2021 3:06 PM
    👌🏻🌹 ماشاء اللہ اطمینان بخش جواب-
    موقف بھی مضبوط اور دلائل بھی مضبوط-
    سب سے بہتر چیز دلائل مکمّل طور پر بیان کیے گئے ہیں👌🏻
    اناج بچوں کے لئے ہی ہوتا ہے اور نابالغ بچوں کا ھدیہ کسی بھی طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا اس پر اکثر اکابر مشائخ کا قول ہے اور اس پر دلائل بھی مضبوط ہیں ماشاء اللہ- اللہ مفتی عامر عثمانی صاحب کے علم کو مزید وسیع تر فرمائے-آمین

    جواب دیںحذف کریں
  5. ماشاء اللہ بہت خوب جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  6. Mufti aamir jo jawab likhte hai wo mazboot dalail ki roshni me likhte hai isi liye hazrat ka jawab sahi hota hai

    Mashaallah very nice 👌👌👌

    جواب دیںحذف کریں
  7. Assalamu alaikum wa Rahmatullah
    Mai 1 teacher hu or mujhe ye masla malum karna hai ke
    *school me hukumat ki trf se jo chawal,Dale, chana or abhi biscuits aa rahe hai to kya teacher's ke liye uska istemaal halal hai ya haram rahnumai farmaye

    جواب دیںحذف کریں